گولڈا میئر: ’مشرق وسطیٰ کی صنف آہن‘ جن کی اسرائیل میں سیاسی میراث ایک جنگ نے ختم کر دی
- مصنف, سانتیاگو وانیگس مالڈوناڈو
- عہدہ, بی بی سی ورلڈ نیوز
گولڈا میئر نے اپنی تمام زندگی تقریباً ایسے گزاری تھی جہاں وہ مردوں سے بھرے کمرے میں ہمیشہ اکیلی ہوتی تھیں۔
روسی سلطنت میں ایک یہودی خاندان میں پیدا ہونے والی گولڈا ایک سیاستدان اور سفارت کار تھیں جنھوں نے اسرائیلی ریاست کے قیام کو فروغ دیا اور وہ اس ملک کی آج تک کی واحد خاتون وزیر اعظم بنیں۔
بطور اسرائیلی وزیر اعظم انھیں 1973 میں مصر اور شام کی قیادت میں عرب اتحاد کے خلاف یوم کپور جنگ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ ایک ایسا تنازع تھا جس نے ہمیشہ کے لیے مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔
یہ ایک ایسی جنگ تھی جس نے اسرائیل کو حیران کر دیا اور انھیں اس کی قیمت اپنے عہدے اور وقار سے چکانا پڑی۔
یہ وہ کہانی ہے جو آسکر ایوارڈ یافتہ اسرائیلی ہدایت کار گائے ناٹیو کے جنگی ڈرامے ’گولڈا‘ میں پیش کی گئی ہے جس میں لیجنڈری آسکر ایوارڈ یافتہ برطانوی اداکارہ ہیلن میرن نے کام کیا ہے اور یہ ستمبر میں لاطینی امریکہ میں سینما گھروں کی زینت بنے گی۔
گولڈا میئر نے اپنی پوری زندگی یہودی ریاست کے خواب کے لیے وقف کر دی تھی۔ ان کی موت کے بعد شمعون پیریز، جو اس وقت لیبر پارٹی کے رہنما تھے نے انھیں ایک ’وفادار شیرنی‘ قرار دیا تھا۔
یہی نام مصنف فرانسائن کلگسبرن نے گولڈا میئر کے بارے میں لکھی گئی بہت سی سوانح عمریوں میں سے ایک کو دیا تھا۔ انھیں ’مشرق وسطیٰ کی صنف آہن‘ بھی کہا جاتا ہے۔
بلاشبہ وہ ایک ایسی خاتون تھیں جنھوں نے اسرائیل میں ایک ان مٹ میراث چھوڑی تھی لیکن وہ بھی تنازعات سے پاک نہیں تھی۔
اسرائیلی ریاست کا خواب
سنہ 1898 میں جب گولڈا میئر یوکرین کے دارالحکومت کیئو (جو اس وقت روسی سلطنت کا حصہ تھا) میں پیدا ہوئی تھیں تو وہ وقت اور مقام ان جیسے یہودی خاندان کے لیے سازگار نہیں تھا۔
گولڈا میئر نے خود کہا تھا کہ ان کے بچپن کی پہلی یادیں ان کے والد کی تھیں جب وہ اپنے گھر کو محفوظ بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس وقت روس میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں یہودیوں کو تشدد کرنے کے واقعات عام تھے۔
جب وہ آٹھ برس کی تھیں تو غربت اور مرکزی دھارے سے باہر نکالنے جانے کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے ان کا خاندان امریکہ ہجرت کر گیا تھا جہاں وہ 15 برس تک رہیں۔
یہ ڈینور میں ان کی بہن کے گھر کا باورچی خانے تھا جہاں گولڈا میئر نے پہلی بار کچھ ایسا سنا جو بعد میں ان کا جنون بن گیا۔ یہ یہودیوں کی اسرائیل کی قدیم سرزمین پر واپسی اور وہاں ایک ریاست قائم کرنے کا منصوبہ تھا۔
اس کے چند سال بعد اس خواب کی تعبیر کے لیے گولڈا میئر سنہ 1921 میں فلسطین کے علاقے کبوتز میں ایک چھوٹی سے یہودی بستی میں آ گئیں۔
انھوں نے 1975 میں اپنی سوانح عمری ’مائی لائف‘ میں اس علاقے کا حوالہ دیتے ہوئے جو اس وقت برطانیہ کے زیر انتظام تھا اور جس پر چار صدیوں تک سلطنت عثمانیہ کی حکمرانی رہی تھی لکھا کہ ’مجھے یقین تھا کہ ایک یہودی کی حیثیت سے میرا تعلق فلسطین سے ہے۔‘
فلسطین میں آ کر بسنے کے بعد انھوں نے وہاں اپنا خاندان اور وہاں کی ویمن یونینوں میں اپنے سیاسی کریئر کا آغاز کیا۔
اسرائیل کی آزادی پر ان کی چھاپ
دوسری جنگ عظیم کے بعد گولڈا میئر کو خاص اہمیت حاصل ہوئی کیونکہ وہ فلسطین میں یہودیوں اور برطانوی حکام کے درمیان اہم مذاکرات کار بن گئی تھی کیونکہ اس وقت اس علاقے کا انتظام برطانیہ کے پاس تھا۔
ان مذاکرات کے نتیجے میں اور ہولوکاسٹ کے سانحے کے بعد دنیا کی حساسیت یہودیوں پر مرکوز تھی اس لیے سنہ 1948 میں اس علاقے پر برطانوی انتظامیہ کا خاتمہ ہوا اور اسرائیل کی آزادی کا اعلان کیا گیا۔ جس پر انھوں نے دستخط کیے تھے۔
یہاں سے اس طویل عرب اسرائیل جنگ کا آغاز ہوا جو آج تک جاری ہے۔
اس تناظر میں گولڈا میئر نے نوزائیدہ ریاست کی مالی اعانت کے لیے امریکہ میں 50 ملین امریکی ڈالرز اکٹھے کیے اور یہ رقم اسرائیل کو اس کے عرب دشمنوں کے خلاف مسلح کرنے کے لیے استعمال کی گئی۔
فلسطین میں رہنے والے عربوں کے لیے اسرائیل کی آزادی کا مطلب نکبہ فلسطین کا آغاز تھا۔ یعنی فلسطینی مسلمانوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کیا جانا جس کی وجہ سے آج بھی بہت سے خاندان اردن، لبنان، شام غزہ اور مغربی کنارے کے علاقوں میں پناہ گزین ہیں۔
قومی خاتون رہنما
اسرائیل کے قیام کے بعد گولڈا میئر نے روس کے ساتھ پیچیدہ سفارتی تعلقات کی قیادت کی۔ وہ سات سال تک اسرائیل کی وزیر محنت اور 10 سال تک اسرائیلی وزیر خارجہ رہیں۔
یہ وہ سال تھے جن میں انھوں نے ہنگامہ خیز اور مشکل حالات میں اسرائیل کے لیے شاندار خدمات انجام دی تھیں۔ اپنی سوانح عمری میں انھوں نے اس دور کو اپنی زندگی کا سب سے بہترین دور قرار دیا ہے۔
اس عرصے کے دوران وہ اسرائیل ہجرت کر کے آنے والے ان لاکھوں یہودیوں کے لیے تقریباً دو لاکھ گھروں کی تعمیر کروانے کی انچارج تھی تاکہ ان لاکھوں یہودی تارکین وطن کو اسرائیل کی افرادی قوت میں ضم کیا جا سکے۔
ملک کی معاشی کمزوریوں کے باوجود وہ ملک میں سوشل سکیورٹی اور زچگی کی چھٹیوں کا نظام بنانے میں کامیاب رہیں تھیں۔
بعدازاں اپنے ملک کی سفارتی رہنما کے طور پر وہ عالمی جغرافیائی سیاست میں ایک اہم شخصیت بن گئی تھیں۔
جب ان کے ملک (اسرائیل) نے سنہ 1956 میں نہر سویز پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے مصر پر حملہ کیا تھا تو وہ نہ صرف اقوام متحدہ میں اسرائیل کی آواز بنی تھیں بلکہ انھوں نے امریکہ کو اسرائیل کو ہتھیار فروخت کرنے پر بھی راضی کیا تھا۔
گولڈا میئر کی سوانح نگار ایلینور برکٹ نے الجزیرہ کو بتایا تھا کہ ’لوگ بھول جاتے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل کے درمیان اتحاد، جو کہ امریکی حکومت کے اعلی سطح سے قائم ہوا تھا، گولڈا کے وزیر خارجہ بننے سے پہلے اتنا واضح نہیں تھا۔ لیکن گولڈا نے ایسا کر دکھایا۔‘
وہ کئی نئی آزاد افریقی ریاستوں سے اسرائیل کی ریاست کے لیے حمایت اور اس تسلیم کروانے میں بھی کامیاب رہیں۔
وہ جنگ جس نے ان کی ساکھ کو متاثر کیا
گولڈا میئر 71 برس کی عمر میں اسرائیل کی پہلی خاتون وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔
اس وقت تک ان کو صحت کے مسائل لاحق ہو چکے تھے اور ان سے نمٹنے کے لیے وہ پہلے ہی ریاستی امور سے دستبردار ہو چکی تھیں لیکن 1969 میں اس وقت کے موجودہ وزیر اعظم کی اچانک موت کے ساتھ، ان کی پارٹی نے ملک کی قیادت کے لیے ان کے نام پیش کیا۔ اسرائیل کے لیے وہ مشکل وقت تھا۔
گولڈا میئر کو 1972 کے اولمپکس کھیلوں کے دوران ہوئے میونخ کے قتل عام کا سامنا کرنا پڑا تھا، جس میں 11 اسرائیلی کھلاڑیوں کو فلسطینی مسلح گروپ نے اغوا کر کے قتل کر دیا تھا۔
اس وقت انھوں نے دنیا سے مطالبہ کیا کہ ’ہمارے (یہودی) شہریوں کو بچائیں اور گھناؤنے مجرمانہ اقدامات کی مذمت کریں۔‘
عالمی سطح پر اس حوالے سے کوئی خاص ردعمل نہ آنے اور کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے مشتعل ہو کر اور عوامی رائے عامہ کے دباؤ پر گولڈا میئر نے اسرائیل کی انٹیلی جنس ایجنسیوں میں سے ایک کے ذریعے ذمہ داروں کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ یہ آپریشن خدا کے غضب کے نام سے مشہور جانا جاتا ہے۔
لیکن جس چیز نے واقعی ان کی حکومت اور سیاسی میراث کو متاثر کیا تھا وہ یوم کپور جنگ تھی۔ اس جنگ کو یوم کپور اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ اکتوبر سنہ 1973 میں یہودیوں کے مقدس مذہبی تہوار یوم کپور کی تعطیل کے دوران شروع ہوئی تھی۔ اسے یہودی مذہب میں مقدس ترین دن قرار دیا جاتا ہے۔
عرب اسرائیل تنازعے کے بارے میں ان کے تجربے اور علم کے باوجود،عرب دنیا کی جانب سے جارحانہ کارروائی نے انھیں حیرت میں ڈال دیا تھا۔
اردن کے بادشاہ کی جانب سے جب انھیں ممکنہ جنگ سے متعلق آگاہ کیا گیا تب اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنٹوں نے اسے کم خطرہ قرار دیا اور گولڈا نے اس متعلق پیشگی اقدامات نہیں اٹھائے تھے۔ مگر جب شام اور مصر نے ایک ساتھ اسرائیل پر حملہ کیا تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
عرب ممالک کا اس جنگ کا مقصد وہ خطہ دوبارہ حاصل کرنا تھا جو وہ سنہ 1967 میں چھ دن کی جنگ میں گنوا چکے تھے۔
اگرچہ اسرائیل نے اس حملے کے بعد شاندار عسکری کامیابیاں حاصل کی تھیں لیکن اس جنگ میں 2700 اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت کو گولڈا میئر کی ناکامی کے طور پر دیکھا گیا۔ اور انھوں نے 1974 میں وزیر اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
جنگ نے 1978 کے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کو جنم دیا جس نے اسرائیل اور مصر کے درمیان امن پر کو یقینی بنایا اور مصر کو سینائی پر دوبارہ اپنا دعویٰ کرنے کی اجازت دی۔
ایک متنازع میراث
گولڈا میئر نے کہا تھا کہ وہ اپنی ساری زندگی فوجیوں کو جنگ کے لیے تیار نہ کرنے پر پشیمان رہیں گی۔
جنگ سے متاثرہ اسرائیلی عوام اس کے بعد ان کے سخت خلاف ہو گئی۔ گولڈا میر اور ان کی کابینہ نے ہزاروں یہودی ہلاکتوں کی ذمہ داری اپنے سر لی۔ یہ ان کی سیاسی موت تھی اور انھیں استعفیٰ دینا پڑا۔
اس وجہ سے بہت سے لوگ انھیں ’اسرائیل کی تاریخ کا بدترین وزیراعظم‘ قرار دیتے ہیں۔ اس جنگ کے 50 سال بعد بھی گولڈا میئر کی شخصیت کا جائزہ لینا اب بھی باقی ہے۔
حال ہی میں گولڈا میئر کے ایک پوتے نے اسرائیل کی ینیٹ نیوز کو بتایا کہ جنگ کے بعد سابق وزیر اعظم کے لیے خاص طور پر ان کے حامیوں کی طرف سے نفرت میں ’عورت سے نفرت اور بدنامی کے عناصر کے ساتھ ایک سخت ناانصافی تھی۔‘
اس کے علاوہ یوم کپور جنگ کے دو سابق فوجیوں نے حال ہی میں ایک کتاب شائع کی جس میں وہ استدلال کرتے ہیں کہ ’عام طور پر قبول کیا جانے والا خیال کہ گولڈا جنگ کے لیے مکمل طور پر ذمہ دار ہے، درست متوازن یا منصفانہ‘ خیال نہیں ہے۔
اسرائیل کے علاوہ بھی تنازعات
گولڈا میئر کی شخصیت متنازع ہونے کی واحد وجہ جنگ نہیں ہے۔
سنہ 1969 میں ان کے ایک انٹرویو میں ان کا ایک جملہ اس تاریخی مثال کے طور پر درج کیا گیا ہے کہ وہ اسرائیل کی ریاست کے قیام کے دوسرے پہلو پر غور کرنے میں ناکام اور نااہل تھیں۔ اس لیے کیونکہ اس کی وجہ سے فلسطینیوں کو وہاں سے نکلنا پڑا تھا۔
انھوں نے کہا تھا کہ ’فلسطینی ریاست میں ایک آزاد فلسطینی عوام کب تھی؟ ایسا نہیں تھا کہ فلسطین میں کوئی فلسطینی تھا جو اپنے آپ کو فلسطینی قوم سمجھتا تھا اور ہم نے آکر انھیں نکال باہر کیا اور ان کا ملک چھین لیا۔ وہ یہاں موجود ہی نہیں تھے۔‘
ناقدین کے لیے اسرائیل کی تخلیق اور گولڈا میئر کے یہ بیانات صرف اس بات کی علامت ہیں کہ صیہونیت نے فلسطینیوں کی شناخت کو نظر انداز کیا اور ان کی سرزمین کی مقامی آبادی کو بے دخل کر دیا۔
ان کی قیادت کا دوسرے نقطہ نظر سے بھی تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے جیسے کہ حقوق نسواں، اس حقیقت کے باوجود کہ میئر نے اپنی زندگی کے دوران وہ راہیں کھولیں اور ان عہدوں پر پہنچیں جہاں پہلے کبھی کوئی خاتون نہیں تھی۔
جب وہ اسرائیل کی وزیر خارجہ تھیں تو وہ دنیا کی واحد خاتون تھیں جو اس عہدے پر فائز تھیں۔
سری لنکا میں سریماو بندارنائیکے اور انڈیا میں اندرا گاندھی کے بعد وہ پوری 20ویں صدی میں کسی ملک کی قیادت کرنے والی تیسری خاتون رہنما تھیں۔
تاہم لیٹی کوٹن جیسے کچھ مصنفین نے استدلال کیا ہے کہ میئر نے ’خواتین کی خصوصی ضروریات کو پورا کرنے، دوسری خواتین کو فروغ دینے، یا عوامی حلقوں میں خواتین کی حیثیت کو فروغ دینے کے لیے طاقت کے استحقاق کا استعمال نہیں کیا۔‘
کوٹن کا مزید کہنا ہے کہ ’حقیقت یہ ہے کہ ان کی وزارت اعظمیٰ کی مدت کے اختتام پر اسرائیلی خواتین کی حالت ان کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے کے مقابلے میں کچھ اچھی نہیں تھی۔‘
گولڈا میئر: دی آئرن لیڈی آف دی مڈل ایسٹ کی مصنفہ ایلینور برکیٹ نے الجزیرہ کو بتایا کہ ’امریکی حقوق نسواں کو گولڈا کو گود لینا پسند تھا، لیکن وہ اس میں دلچسپی نہیں رکھتی تھیں۔‘
گولڈا میئر کا انتقال 1978 میں 80 سال کی عمر میں یروشلم میں ہوا، لیکن ان کی یادداشت اور اس متنازعہ شخصیت کے ساتھ دلچسپی پہلے سے کہیں زیادہ زندہ ہے۔
Comments are closed.