گوریلاؤں کے وہ ’ٹوٹکے‘ جو انسانوں کی ادویات بنانے میں کام آ سکتے ہیں،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, ہیلن برگز
  • عہدہ, ماحولیات کے نامہ نگار، بی بی سی نیوز
  • 2 منٹ قبل

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ افریقہ کے جنگلوں میں پائے جانے والے گوریلے نئی ادویات کی دریافت میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔افریقی ملک گبون میں محققین نے ان پودوں کا مطالعہ کیا جنھیں جنگلی گوریلے اور دیسی طریقے سے علاج کرنے والے مقامی افراد مختلف بیماریوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے چار ایسے پودوں کی نشاندہی ہوئی ہے جن میں دوائیوں کی خصوصیات ہیں۔لیبارٹری کے مشاہدے کے دوران پتہ چلا ہے کہ ان پودوں میں اینٹی آکسیڈینٹس اور اینٹی مائکروبیلز خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ان میں سے ایک پودے میں سپر بگ سے لڑنے کی ممکنہ صلاحیت بھی پائی جاتی ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

گوریلے شفایابی کی خصوصیات کے حامل پودوں کا استعمال کرتے ہوئے اپنا علاج کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔حال ہی میں ایک زخمی اورنگوٹین اپنی چوٹ کو ٹھیک کرنے کے لیے پودے کا پیسٹ استعمال کرنے کے لیے سرخیوں میں رہا ہے۔ایک حالیہ تحقیق میں ماہرین نباتات نے گبون کے موکلابا-ڈوڈو نیشنل پارک میں پائے جانے والے گوریلوں کی جانب سے استعمال کیے جانے والے پودوں کا مطالعہ کیا۔محققین نے دیسی طریقوں سے علاج کرنے والوں کی ساتھ انٹرویوز کی بنیاد پر چار درختوں کا انتخاب کیا جن میں ان کو یقین تھا کہ شفایابی کی صلاحیات پائی جاتی ہیں۔ان درختوں کی چھال کو دیسی علاج کرنے والے پیٹ درد سے لے کر بانجھ پن تک ہر چیز کے علاج کے لیے روایتی ادویات میں استعمال کرتے ہیں۔ ان درختوں میں فینول اور فلیوونوائدز جیسے کیمیکل پائے گئے جو عموماً ادویات میں استعمال کیے جاتے ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنگیبون حیاتیاتی طور پر دنیا کے سب سے زیادہ متنوع مقامات میں سے ایک ہے۔
تحقیق کے دوران پتہ چلا ہے کہ ان چاروں پودوں میں اینٹی بیکٹیریئل خصوصیات پائی جاتی ہیں اور یہ ای کولی کی ایک ایسی قسم کے خلاف بھی مؤثر دکھائی دیتی ہیں جس کے خلاف عمومی طور پر دوائیاں کام نہیں کرتی ہیں۔محققین کا کہنا ہے کہ ان چاروں میں سے ایک درخت ای کولی کی تمام قسموں کے خلاف مؤثر ثابت ہوا ہے۔برطانیہ کی ڈرہم یونیورسٹی کی ماہر بشریات ڈاکٹر جوانا سیچل نے گبون کے سائنسدانوں کے ساتھ اس تحقیق پر کام کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ گوریلے ایسے پودے کھاتے ہیں جو ان کے لیے فائدہ مند ہوتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وسطی افریقہ کے برساتی جنگلات کے بارے میں ہماری معلومات کتنی محدود ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesگبون میں وسیع رقبے پر پھیلے ایسے جنگلات موجود ہیں جن کے بارے میں سائنسدان آج بھی بہت کم جانتے ہیں۔ یہ جنگلات ہاتھیوں، چمپینزیوں اور گوریلوں کے ساتھ ساتھ لاتعداد پودوں کا بھی گھر ہیں۔غیر قانونی شکار اور بیماری کی وجہ سے گوریلوں کی ایک بڑی تعداد ان جنگلات سے ختم ہو چکی ہے۔ اسی وجہ سے انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچرز کے ریڈ لسٹ پر انھیں انتہائی خطرے سے دوچار جانوروں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ تحقیق پلوس ون نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}