گورنرز آئی لینڈ: نیویارک کو جنم دینے والا جزیرہ جسے ایک ڈالر میں فروخت کیا گیا
- مصنف, ایمی تھامس
- عہدہ, بی بی سی ٹریول
فیری پر مین ہیٹن کی ساؤتھ سٹریٹ سے گورنرز جزیرے پر جاتے ہوئے نیو یارک کا دلکش منظر نظر آتا ہے۔ نیلے آسمان اور نیلے پانی کے بیچ ہر طرف شیشے، سٹیل اور کنکریٹ سے بنی فلک بوس عمارتیں ہیں۔
اس سفر پر صرف آٹھ منٹ بعد آپ 172 ایکٹر پر محیط جزیرے پر پہنچتے ہیں جو امریکہ کے سب سے بڑے شہر سے صرف 800 گز دور ہے۔ یہاں پہنچتے ہی آپ کو شہر کی رونقیں بھول جاتی ہیں۔
گورنرز جزیرے پر آپ کا استقبال ایک 19ویں صدی کا قلعہ اور بار کرتا ہے جس سے اس کے ماضی کی یاد دہانی ہوتی ہے جب یہ فوجی اڈہ ہوا کرتا تھا جس کی اب حیثیت شہر کے کسی پلے گراؤنڈ جیسی ہے۔
یہ جزیرہ لیناپی نسل کے امریکی مقامی باشندوں کا گھر ہوا کرتا تھا اور اسے ’پگانک‘ یا ’نٹ آئی لینڈ‘ بھی کہا جاتا تھا کیونکہ یہاں اخروٹ اور شاہ بلوط کے درختوں کی بہتات تھی۔
پھر ایک سو سال بعد ڈچ نے آ کر یہاں ’نئے ایمسٹرڈیم‘ کے پہلے نوآبادیاتی علاقے کی بنیاد رکھی۔ اس طرح وہ جزیرہ جو طویل عرصے تک آباد نہ تھا، اس نے نیو یارک کے شہر کو جنم دیا۔
آج گورنرز جزیرہ (جو تکنیکی اعتبار سے آج بھی مین ہیٹن کا حصہ ہے) نیو یارک شہر کے لوگوں کے لیے خفیہ تفریحی مقام ہے۔
اس سر سبز و شاداب نخلستان پر سائیکل سواروں کے لیے سات میل کا راستہ، ایک ایکڑ کی زرعی زمین، دلکش باغات، تین منزلہ سلائیڈز، آئس سکیٹنگ، پِکنِک کے مقام اور فن پارے ہیں۔
میئر ایرک ایڈمز نے اعلان کیا ہے کہ جزیرہ 70 کروڑ ڈالر کی ’زندہ لیبارٹری‘ بنے گا جس کے ذریعے ماحولیاتی بحران کا حل تلاش کیا جائے گا۔
ٹرسٹ فار گورنرز آئی لینڈ کی سربراہ کلیر نیومین، جو نیشنل پارک سروس کی نگرانی بھی کرتی ہیں، کا کہنا ہے کہ ’پارک کا ڈیزائن اور نظریہ پائیداری و لچک پر محیط ہے۔‘
گورنرز آئی لینڈ پہلے 72 ایکڑ پر محیط تھا۔ پھر 20ویں صدی کے اوائل میں مین ہیٹن پر سب وے سٹیشن کی تعمیر کے دوران ملبے کی کھدائی کے دوران مزید سو ایکڑ شامل کیے گئے۔ اس طرح جنوب کی جانب جزیرے کا علاقہ دگنا ہوگیا۔
سال 2007 تک جزیرہ تفریحی مقام تھا مگر اس کے غیر تعمیر شدہ جنوبی حصے میں مزید بہتری کا سوچا گیا۔ ٹرسٹ نے اسے ایک ایسے موقع کے طور پر دیکھا کہ پورے شہر اور دنیا کو بتایا جاسکے کہ ’شہری ماحول کی پائیدار اور قابل تجدید طرز پر تعمیر کیسے ہوسکتی ہے۔‘
گورنرز جزیرے میں ماحولیاتی منصوبے نے اس کی تاریخ کو نیا موڑ دیا۔ انگریز 1664 میں نیو یارک آئے جب انھوں نے ڈچ سے جزیرہ چھین کر اس کا کنٹرول سنبھالا۔ 1783 میں امریکی انقلاب میں برطانوی افواج کے انخلا کے 11 سال بعد نیو یارک کی حکومت نے بندرگاہ مضبوط کرنے کے لیے جزیرے پر تین قلعے تعمیر کیے: فورٹ جے، کاسل ولیمز اور ساؤتھ بیٹری۔ انھی کی مدد سے 1812 کی جنگ میں برطانوی مداخلت کو روکنے میں مدد ملی۔
امریکی حکومت کے زیر انتظام اس جزیرے پر فوجی اڈہ بنا جس میں مذہبی پناہ گزین کا قرنطینہ مرکز تھا۔ یہاں وقت کے ساتھ امریکہ میں خانہ جنگی کے دوران قید خانہ، دوسری عالمی جنگ کے دوران فوجی ہیڈکوارٹر اور 1996 تک کوسٹ گارڈز کا اڈہ بنایا گیا۔
قریب ایک دہائی تک جزیرہ ویران ہو گیا اور وفاقی حکومت نے سوچنا شروع کر دیا کہ اب یہاں کیا کِیا جاسکتا ہے۔
گورنرز آئی لینڈ نے کئی تاریخی لمحات کا مشاہدہ بھی کیا۔ سال 1919 میں رائٹ برادرز کے ولبرٹ رائٹ نے اپنے طیارے پر جزیرے کے جنوبی حصے سے اڑان بھری اور یہ پانی کے اوپر سے پہلی امریکی پرواز تھی۔
1950 کی دہائی کے دوران کمپوزر برٹ بکراک جزیرے پر دی آفیسرز کلب میں باقاعدگی سے پرفارم کیا کرتے تھے۔
امریکی صدر رانلڈ ریگن نے 1988 میں 19ویں صدی کی ایڈمرلز ہاؤس رہائش گاہ میں سوویت یونین کے آخری رہنما میخائل گورباچوف کی میزبانی کی تھی۔
سال 2001 میں جزیرے کو قومی یادگار قرار دیا گیا اور دو سال بعد اسے نیو یارک کی ریاست و شہر کو ایک ڈالر میں فروخت کر دیا گیا۔ پھر 2005 میں اسے عوام کے لیے کھول دیا گیا۔
گنجان آباد شہر کے قریب گورنرز جزیرے کے کھلے میدان نے اسے ثقافتی اور تفریحی آرام گاہ میں تبدیل کر دیا ہے۔ ماضی میں ملک کی سب سے بڑی فوجی عمارت کے جنوب میں لیگٹ ٹیرس ہے جہاں فوڈ ٹرک اور اشیا فروشوں کی قطار لگی ہوئی ہے۔ یہاں آپ کو مشرقی ایشیا کا فرائیڈ چکن، ویگن (سبزیاں) کھانے اور پیزے ملتے ہیں۔
سال 2018 میں حکام نے 36 خیمے لگائے جہاں سے مجسمہ آزادی کا نظارہ ملتا ہے۔ گذشتہ سال ادھر سپا اور آؤٹ ڈور سوئمنگ پول تعمیر کیے گئے جن سے سمندر اور بندرگاہوں پر آتے جاتے بحری جہازوں کا دلکش منظر ملتا ہے۔
ٹرسٹ نے غیر منافغ بخش تنظیم ارتھ میٹر این وائے کے ساتھ شراکت کی ہے تاکہ جزیرے میں صفر اخراجات کا ماحول پیدا کیا جا سکے جس میں آرگینک ویسٹ اٹھانا، ری سائیکل ایبل برتن اور ضائع شدہ کھانے جمع کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں تاکہ جزیرے کے باغات کے لیے کھاد بنائی جائے۔
جزیرے پر کاغذ، شیشے، پلاسٹک، ایلومینیم، روزمرہ کے کچرے کو جمع کرنے کے لیے الگ کوڑے دان بنائے گئے ہیں جسے دوبارہ استعمال کے قابل بنایا جاتا ہے۔
ارتھ میٹر این وائے کی شریک بانی مریسا ڈی ڈامنکس کا کہنا ہے کہ ’ہم جزیرے پر ری سائیکلنگ اور اشیا کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کے تصور کے ساتھ آئے۔‘
’ہمارا مقصد جزیرے پر اخراج کو صفر کرنا ہے۔ گذشتہ سال ارتھ میٹر این وائے نے دو لاکھ ساٹھ ہزار آرگینک ویسٹ جمع کیا جو 2021 کے مقابلے 28 فیصد زیادہ تھا۔‘
تنظیم میں زیرو ویسٹ آئی لینڈ مینیجر اندریا لیسک کا کہنا ہے کہ کچرے کی کھوج بعض اوقات جاسوسی کے کام جیسی ہوتی ہے۔ مثلاً اگر انھیں ایسا کچرے ملے جسے دوبارہ استعمال نہیں کیا جاسکتا (جیسے کپ)، وہ دیکھتے ہیں کہ یہ کچرا کس بیگ سے آیا۔ وہ جزیرے پر اس علاقے کی نشاندہی کرتے ہیں اور اس کے ذمہ دار کو تلاش کرتے ہیں۔
یہ ممکن ہے کہ کچھ سیاح جزیرے پر کپ سمیت ایسی چیزیں لاتے ہیں مگر یہ یقینی بنایا جاتا ہے کہ یہاں کچرے کی اکثریت ایسی ہو جسے ری سائیکل کیا جاسکے۔
ریستورانوں اور کرایہ داروں پر لازم ہے کہ وہ قابل تجدید سامان استعمال کریں۔ ٹرسٹ نے جزیرے پر پلاسٹ بیگ، سٹرا اور پانی کی پلاسٹک کی بوتلوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ لیسک کا کہنا ہے کہ ’ایسے اقدامات سے بڑا فرق پڑا اور اس طرح آرگینک مادوں کی روانی بڑھتی ہے۔‘
جزیرے پر آنے والے سیاح سیر و تفریح کے علاوہ اس کے صفر اخراج کے نظام کا بھی دیدار کر سکتے ہیں۔ جزیرے کے جنوبی جانب ارتھ میٹر نے باغات اور شہد کی مکھیوں کی آماجگاہ بنا رکھی ہے۔
عملہ اور رضاکار (اور یہاں بسنے والے مرغے) ادھر کچرے کو چن کر اس سے کھاد بناتے ہیں۔
ڈی کمپوزیشن کے عمل میں آٹھ سے سو فٹ کے طویل اور 151 فیرن ہائٹ درجہ حرارت کے سٹیمنگ کمپوسٹ استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس عمل میں بارہ سے پندرہ ماہ لگ سکتے ہیں۔ پھر اس کھاد کو جزیرے اور نیو یارک کے باغات میں پھیلا دیا جاتا ہے۔
گورنرز جزیرے کی ویسٹ پالیسی مثالی ہے مگر اس کے باوجود چیلنجز موجود ہیں۔ ڈی ڈومینکس کا کہنا ہے کہ ’جزیرے کی تعمیر کے ساتھ آرگینک مادوں میں اضافہ ہوتا جائے گا۔‘
گذشتہ سال جزیرے کو تمام دورانیے کے لیے کھلا رکھا گیا جس سے نو لاکھ سے زیادہ سیاح یہاں آئے۔ اس سے قبل سالانہ تعداد چھ لاکھ کے آس پاس تھی۔
ادھر چار لاکھ مربع فٹ پر محیط ایک ریسرچ سینٹر قائم کیا جا رہا ہے جسے نیو یارک کلائمیٹ ایکسچینج کہا جائے گا۔ 2028 میں اس کے کھلنے سے ہزاروں نوکریاں پیدا ہوں گی۔
مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹرسٹ نے ویسٹ کنسلٹینٹس کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا ہے تاکہ کچرے کو جزیرے سے دور لینڈ فل میں منتقل کرنے کے نظام کی نگرانی کی جاسکے۔ نیومین نے کہا ہے کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ اخراج کو کم سے کم کر کے صفر تک لے جایا جائے۔‘
اگرچہ ماحولیاتی حل کا سینٹر بننے سے جزیرے پر لوگوں کی آمد بڑھ سکتی ہے اور ممکنہ طور پر ویسٹ کنٹرول مشکل ہو سکتی ہے، تاہم اس کے دور رس فائدہ حاصل ہو سکتے ہیں۔
نیومین کا کہنا ہے کہ ’یہ سب ایک نظریے کے تحت ہو رہا ہے کہ ہم ایک چھوٹا شہر بنائیں جو (ماحولیاتی اعتبار سے) زیادہ پائیدار اور مستحکم ہو۔‘
Comments are closed.