اٹلی: گلابی ساحل والے جزیرے پر 30 سال تک تنہا رہنے والا شخص منتقل ہونے پر مجبور
تیس سال تک ایک جزیرے پر اکیلے رہنے والے اطالوی شخص کو بالآخر حکام کے دباؤ کے بعد یہ جزیرہ چھوڑنا پڑ رہا ہے۔
ماؤرو مورانڈی کی عمر 81 سال ہے اور وہ شمالی سارڈینیا سے تھوڑا ہی دور بودیلی نامی اس جزیرے پر 1989 میں منتقل ہوئے تھے۔
گذشتہ سال مورانڈی نے بتایا تھا کہ اپنے گلابی ساحل کے لیے مشہور اس جزیرے کے مالکان چاہتے ہیں کہ وہ یہاں سے منتقل ہو جائیں۔
اُنھوں نے اتوار کو فیس بک پر لکھا: ‘میں اس امید کے ساتھ یہ جگہ چھوڑوں گا کہ مستقبل میں بھی بودیلی ویسے ہی محفوظ رہے گا جیسے کہ میں نے اسے 32 سال تک محفوظ رکھا ہے۔’
مورانڈی جسمانی تربیت کار رہ چکے ہیں اور اُنھوں نے 2018 میں بی بی سی آؤٹ لُک سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ ہمیشہ سے ‘تھوڑے باغی’ رہے ہیں۔
‘میں اپنے معاشرے میں بہت سی چیزوں سے تھک گیا تھا، مثلاً اٹلی کی سیاسی صورتحال اور بس خریداری پر پیسے لگانا۔ میں نے سوچا کہ میں پولینیسیا میں کسی صحرائی جزیرے پر چلا جاؤں، سب لوگوں سے دور۔ میں قدرت کے پاس رہ کر اپنی زندگی شروع کرنا چاہتا تھا۔’
یہ بھی پڑھیے
سمندر کے ذریعے اپنا سفر شروع کرنے کے بعد وہ اور اُن کے کئی دوست اٹلی کے جزیروں کی ایک لڑی لا میڈالینا پر اترے جہاں اُن کا منصوبہ تھا کہ کام کیا جائے اور باقی کے سفر کے لیے پیسے جمع کیے جائیں گے۔
مگر بودیلی پہنچنے اور جزیرے کے ریٹائرمنٹ کے قریب موجود رکھوالے سے ملنے کے بعد مورانڈی نے یہاں رکنے کا فیصلہ کیا۔ تب سے اب تک وہ یہیں رہے ہیں اور جزیرے کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ سیاحوں سے بات چیت کرتے رہے ہیں۔
مگر اُنھیں اس عرصے میں نکالے جانے کے خطرے کا بھی سامنا رہا ہے۔
سنہ 2020 میں لا میڈالینا نیشنل پارک کے صدر فیبریزیو فونیسو نے سی این این سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ مورانڈی نے اپنی جھونپڑی میں غیر قانونی تبدیلیاں کی ہیں۔ یہ جھونپڑی اصل میں دوسری عالمی جنگ کے زمانے میں ایک ریڈیو سٹیشن تھی۔
اٹلی کی حکومت پر اُنھیں وہاں رہنے کی اجازت دینے کے لیے بنائی گئی آن لائن پٹیشن پر اب تک 70 ہزار سے زائد دستخط ہو چکے ہیں۔
مگر اتوار کو مورانڈی نے یہ جزیرہ چھوڑنے کے فیصلے کا اعلان کیا تھا۔ اُنھوں نے اخبار دی گارڈین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ لا میڈالینا کے قریبی جزیرے پر ایک چھوٹے سے فلیٹ میں منتقل ہو جائیں گے۔
‘میری زندگی زیادہ نہیں بدلے گی۔ میں تب بھی سمندر دیکھ سکوں گا۔’
Comments are closed.