بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

گرڈ اسٹیشن بھی ہم بچائیں؟ وزیراعلیٰ سندھ بجلی کمپنیوں سے ناخوش

وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا کہنا ہے ہم سیلاب سے لوگوں کو بچانے میں مصروف ہیں، گرڈ اسٹیشن بھی ہم بچائیں؟ تمام پاور کمپنیوں کے پاس اپنے انجینئرز اور عملہ موجود ہے۔

بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی 74ویں برسی کے موقع پر وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور قائم مقام گورنر آغا سراج درانی نے مزار قائد پر حاضری دی، پھولوں کی چادر چڑھائی اور فاتحہ خوانی کی۔

وزیرِ اعلیٰ نے اس موقع پر کہا کہ بابائے قوم کی قائدانہ صلاحیت کے باعث ہم آزاد ملک میں زندگی گزار رہے ہیں، قائد اعظم کے اس ملک کو ہم سب نے سنبھالنا اور سنوارنا ہے۔

قائم مقام گورنر سندھ اور وزیرِ اعلیٰ سندھ نے مہمانوں کی کتاب میں تاثرات درج کیے۔

مزارِ قائد پر حاضری کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں وزیرِ اعلیٰ سندھ نے کہا کہ وہ بجلی کی پیداواری کمپنیوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں، لوڈشیڈنگ پر وہ وفاقی حکومت سے بات کریں گے۔

وزیرِ اعلی نے بتایا کہ ہمارے پاس جتنے پیسے تھے جو اسٹاک تھا ہم نے دوائیں خریدیں، سندھ میں سوا کروڑ کے قریب لوگ بے گھر ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سیلاب کے باعث صوبے میں سوا کروڑ کے قریب افراد بے گھر ہیں، سکھر، خیر پور، بدین سے لے کر تھر پارکر تک سیلاب سے تباہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پڈعیدن میں 1700 ملی میٹر سے زائد بارش ہوئی ہے، زرعی شعبے کو ساڑھے تین سو ارب روپے کا نقصان ہوا، گندم کی فصل مکمل طور پر ختم ہوگئی، نومبر دسمبر تک 75 فیصد علاقے میں گندم کی کاشت شروع کریں گے۔

وزیرِ اعلیٰ نے کہا کہ اس خطے کے لوگوں کا قصور نہیں ہے، موسمیاتی تبدیلی کا شکار آج پاکستان ہے، کل کوئی اور ملک ہوگا، جب سے یہ خطہ بنا ہےاس سے پہلے کبھی ایسی تبائی نہیں ہوئی۔

مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ یہ سب قدرت سے لڑنے کی وجہ سے ہوا ہے، سندھ میں کئی مقامات پر آٹھ سے دس فٹ تک پانی موجود ہے، لوگوں کی بحالی کا پروگرم بنایا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے کہا ہمیں پیسے نہیں چاہئیں، ہمیں ٹینٹس اور مچھر دانیوں کی ضرورت ہے۔

ایک سوال کے جواب میں وزیرِ اعلیٰ نے کہا کہ ہر جگہ ڈیم نہیں بن سکتا ہے، آپ اگر کراچی میں یا جیکب آباد میں ڈیم بناسکتے ہیں تو بتا دیں۔

انہوں نے کہا کہ کراچی، پڈعیدن اور جیکب آباد میں ڈیم نہیں بن سکتے کیونکہ سندھ میدانی علاقہ ہے۔

بشکریہ جنگ
You might also like

Comments are closed.