گرومنگ گینگز میں پاکستانی نژاد برطانوی مردوں کے ملوث ہونے کا الزام: حقائق کیا کہتے ہیں؟
برطانوی وزیراعظم رشی سونک کا کہنا ہے کہ ’گرومنگ گینگز‘ کے متاثرین کو سیاسی وجوہات کی وجہ سے نظر انداز کیا گیا ہے۔
پیر کو حکومت نے گرومنگ گینگز کے موضوع پر مزید ڈیٹا اکٹھا کرنے کی یقین دہانی کروائی تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ مشتبہ افراد انصاف سے بچنے کے راستے کے طور پر ’ثقافتی یا نسلی حساسیت کے پیچھے نہ چھپ سکیں۔‘
گرومنگ گینگز بچوں کا جنسی استحصال کرنے والے گروہوں کو کہا جاتا ہے۔
حکومت کا یہ منصوبہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب برطانوی وزیر خارجہ سویلا بریورمین نے گرومنگ گینگز میں ملوث افراد کی نسل کے بارے میں متعدد تبصرے کیے ہیں۔
برطانوی اخبار میل آن سنڈے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’یہ مجرم مردوں کے گروہ ہیں، جن میں تقریباً تمام پاکستانی نژاد برطانوی ہیں۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ان گینگز میں ’اکثریت‘ پاکستانی نژاد برطانوی مردوں کی ہے۔
ان کے اس بیان کو ویسٹ یارکشائر کی لیبر میئر ٹریسی بریبن نے ’ڈاگ وِسل‘ کا نام دیا ہے، یعنی مخصوص گروپ کو نشانہ بنانے کے لیے سیاسی پیغام دینا۔
اس کے علاوہ برطانوی وزیر خارجہ پر ’بدنام دقیانوسی تصورات‘ کو ہوا دینے کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔
ہوم آفس نے واضح کیا ہے کہ برطانوی وزیر خارجہ روشڈیل، رودرہیم اور ٹیلفورڈ کے تین انتہائی بدنام زمانہ گرومنگ گینگ کیسز کے بارے میں بات کر رہی تھیں۔
دوسری جانب پاکستان کے دفتر خارجہ نے برطانوی سیکریٹری داخلہ کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’اس بیان سے ایک گمراہ کن تصویر پیش کی گئی جس کا مقصد برطانوی پاکستانیوں کو ہدف بنانا اور مختلف انداز میں پیش کرنا مقصود ہے۔‘
دفتر خارجہ نے کہا کہ برطانوی سیکریٹری نے چند افراد کے مجرمانہ رویے کو ایک پوری کمیونٹی کی نمائندگی کے طور پر پیش کیا۔
دفتر خارجہ کے مطابق برطانوی سیکرٹری داخلہ نے پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں کی جانب سے برطانوی معاشرے میں بے شمار ثقافتی، معاشی اور سیاسی خدمات کو بھلا دیا اور برطانیہ میں موجود نسل پرستی کا بھی ذکر نہیں کیا۔
شواہد گرومنگ گینگ کے ارکان کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
سنہ 2014 میں رودرہیم کیس کا آزادانہ جائزہ لیا گیا اور اس کے نتیجے میں شائع ہونے والے رپورٹ میں، پروفیسر الیکسس جے نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ’مجرموں کی اکثریت پاکستانی وراثت سے تعلق رکھتی تھی۔‘ اس جائزے میں 2010 میں سزا یافتہ پانچ افراد کو بھی شامل کیا گیا۔
گریٹر مانچسٹر پولیس نے فروری 2012 میں روشڈیل سکینڈل کے مقدمے میں سزا پانے والے افراد کی شناخت پاکستانی نژاد برطانوی مردوں کے طور پر کی۔ جبکہ ٹیلفورڈ کیس کی آزادانہ انکوائری میں لکھا گیا کہ بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کرنے والوں کا تعلق ’جنوبی ایشیائی‘ کمیونٹی سے تھا۔
ان جائزوں میں پولیس اور سماجی اداروں کی ٹیموں کے درمیان ان خدشات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اگر وہ غیر سفید فام مجرموں کے گروہوں کا تعاقب کرتے ہیں تو ان پر نسل پرستی کا الزام لگایا جا سکتا تھا۔
وزیر خارجہ نے جن کیسز کا ذکر کیا ہے ان سمیت دیگر کیسز میں بھی (جن میں مجرم غیر سفید فام تھے) سوشل میڈیا پر مہم چلانے والوں کی طرف سے زبردست ردِعمل سامنے آیا تھا۔
اس کے مقابلہ میں 2010 میں کارنوال کے کمبورن علاقے میں 30 بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کرنے والے سفید فام مردوں اور ایک عورت کے گروہ کو کم توجہ دی گئی۔
ماہرین بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کے ’بوائے فرینڈ‘ یا ’لوور بوائے‘ ماڈل کو اب بخوبی سمجھ چکے ہیں۔ اس ماڈل کے تحت کمزور بچوں سے دوستی کی جاتی ہے، انھیں یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ ایک آدمی ان سے پیار کرتا ہے اور ان کی دیکھ بھال کرتا ہے، پھر آہستہ آہستہ متاثرین جنسی استحصال اور دھمکیوں کے چکر میں پھنس جاتے ہیں۔
لیکن یہ تجویز کہ مجرموں کی نسل، ایسے گروہوں میں اہم کردار ادا کرتی ہے، درست نہیں۔ کم از کم موجودہ شواہد کی بنیاد پر اس خیال کی تائید کرنا مشکل ہے۔
ہوم آفس نے اس معاملے پر 2020 میں دستیاب ڈیٹا کا مطالعہ کیا اور کہا:
- ’ایکڈیمک لٹریچر نسل اور اس قسم کے جرائم کے تعلق کے بارے میں بہت محدود ہے
- تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ بچوں کا جنسی استحصال کرنے والے گروہوں میں عام طور پر سفید فام لوگ شامل ہوتے ہیں
- کچھ تحقیق سے یہ تاثر ملتا ہے کہ آبادی کے لحاظ سے سیاہ فام اور ایشیائی مجرموں کی زیادہ نمائندگی دکھائی گئی ہے
تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ اس میں مجرم کی شناخت کی معلومات اور ڈیٹا کا معیار درست نہیں جس کی وجہ سے اس تحقیق کا نتیجہ اخذ کرنا مشکل ہو گیا۔ تاہم ’یہ امکان ہے کہ کوئی ایک کمیونٹی یا ثقافت انفرادی طور پر ان جرائم کا شکار نہیں ہے۔‘
سنہ 2015 کی ایک تحقیق میں پتا چلا تھا کہ ’گروپ اور گینگ پر مبنی بچوں کے جنسی استحصال‘ کے 1,231 مجرموں میں سے 42 فیصد سفید فام تھے، 14 فیصد کو ایشیائی یا ایشیائی برطانوی اور 17 فیصد سیاہ فام قرار دیا گیا۔
مسئلہ یہ ہے کہ یہ اعداد و شمار تقریباً ایک دہائی پرانے ہیں۔
ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ مجرم کی نسل کا اندراج پولیس افسران خود کرتے ہیں، اور اس کی مختلف تعریفیں استعمال کی جاتی ہیں، جیسا کہ ’ایشیائی۔‘
ہوم آفس کی 2020 کی رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ ایسی صورت میں ان مجرموں کو بھی ’ایشیائی‘ کے طور پر درج کیا جا سکتا ہے جو دوسری نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔
سنہ 2022 میں بچوں کے جنسی استحصال کی آزاد انکوائری نے چھ شہروں میں جنسی استحصال کی تحقیقات کیں جہاں ہائی پروفائل گرومنگ کیس سامنے نہیں آئے تھے۔
اس تحقیق سے یہ پتہ چلا کہ ان علاقوں میں گینگ لیول پر بچوں کا جنسی استحصال جاری تھا اور پولیس مجرموں کی نسل کو ریکارڈ کرنے میں بڑے پیمانے پر ناکام رہی ہے۔
جس کے بعد رپورٹ نے نتیجہ اخذ کیا کہ اس سے ’یہ جاننا ناممکن ہو جاتا ہے کہ آیا کسی مخصوص نسلی گروہ کی بچوں کے جنسی استحصال کے مرتکب کے طور پر زیادہ نمائندگی کی جاتی ہے یا نہیں۔‘
رودرہیم، راشڈیل اور ٹیلفرڈ میں تین رپورٹس نے بہت سے مسائل پر توجہ مرکوز کی۔ ان میں ایک عام عنصر یہ تھا کہ ان گینگز میں شامل مرد اکثر ٹیک آوے یا ٹیکسیاں چلاتے تھے۔
یعنی کہ ان کا تعلق نائٹ اکانومی یا رات کی معیشت سے ہے۔ اس سے انھیں رات گئے باہر نکلنے والے بچوں، بدسلوکی کرنے کے لیے جگہوں، اور اپنے متاثرین کو مختلف جگہوں پر لے جانے کے لیے گاڑیوں تک رسائی ملتی ہے۔
یاد رہے کہ برطانیہ میں فاسٹ فوڈ دکانوں کو عام طور پر ٹیک آوے کہا جاتا ہے۔
گرومنگ گینگز کے کیسز میں ایک سب سے بڑا مسئلہ پولیس اور سماجی کارکنوں کی متاثرین پر توجہ یا مدد دینے میں ناکامی ہے۔ اس مسئلے کی نشاندہی متعدد کیسز میں کی گئی ہے۔
سماجی ادارے اکثر ٹین ایجرز یا نوعمر لوگوں کے بارے میں یہ تاثر رکھتے کہ وہ شراب اور ڈرگز سے بھرپور ’خطرناک طرز زندگی‘ جی رہے ہیں۔
ٹیلفورڈ کیس کی انکوائری کے بعد 2022 میں ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں پولیس نے جنسی استحصال کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے لکھا کہ ’ان لڑکیوں نے ‘بیڈ بوائز’ کے ساتھ جانے کا انتخاب کیا تھا۔‘
ایک اور انکوائری میں کہا گیا کہ ’[بچے] کا کوئی اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ متعدد بار ان کے پاس صرف کہنے کو زیادہ نہیں ہوتا اور وہ تعاون بھی نہیں کرتے۔‘
Comments are closed.