گرم پانی کے چشمے، وہیل مچھلیاں اور ’دوست‘ گائیڈز: دُنیا کے وہ چار ممالک جو سیاحوں کی توجہ کے منتظر ہیں،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنموسمِ گرما میں یورپ میں سیاحوں کے رش کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں کا مقصد یہ بالکل نہیں کہ اب سیاحت کا مستقبل تاریک ہو چکا ہے

  • مصنف, لورا ہال
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • 15 منٹ قبل

اس موسمِ گرما میں یورپ کے متعدد ممالک میں سیاحوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے لیکن دنیا میں ایسے ممالک بھی ہیں جہاں یورپ جتنی بھیڑ نہیں ہوتی اور وہ سیاحوں کی توجہ حاصل کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔اٹلی کے شہر وینس کے سینٹ مارک سکوائر میں کبوتروں سے زیادہ سیاح موجود ہوتے ہیں جبکہ سپین کے شہر بارسلونا میں کسی فُٹ پاتھ پر چلتے وقت ایسا لگتا ہے جیسے آپ کسی سُپر مارکیٹ میں گاہکوں کی ایک قطار میں لگے ہوئے ہیں۔لیکن سیاحوں کے رش سے پریشان ان ممالک کے علاوہ ایسے ملک بھی ہیں جن کا کلچر بہت وسیع ہے لیکن وہاں کی آبادی کم ہے۔اپنے کلچر کے حوالے سے مشہور ممالک میں اکثر یہ شکایت سُننے میں آتی ہیں کہ وہاں سیاحت کے منفی نتائج دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ لیکن ترقی پذیر ممالک کے لیے سیاحت کے شعبے سے آنے والے پیسے بہت اہم ہیں کیونکہ اس سے انھیں اپنا انفراسٹرکچر بہتر کرنے میں مدد ملتی ہے۔

اس کے علاوہ سیاحت میں اضافہ ہونے سے نہ صرف ملازمت کے مواقعوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ معیار تعلیم بھی بہتر ہوتا ہے۔ ایسے میں مقامی لوگوں کو یہ موقع بھی ملتا ہے کہ وہ اپنے کلچر اور روایات کو فروغ دے سکیں۔اگر سیاحت کے شعبے کو دُرست طریقے سے فروغ دیا جائے تو یہ دُنیا بھر کے لوگوں کو متحد کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے اور وہ بھی ایسا ذریعہ جس سے معیشت کو بھی مدد ملے گی۔موسمِ گرما میں یورپ میں سیاحوں کے رش کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں کا مقصد یہ بالکل نہیں کہ اب سیاحت کا مستقبل تاریک ہو چکا ہے۔ہم آپ کو آج ایسے چار ممالک کے بارے میں بتائیں گے جو کہ سیاحوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اپنی معاشی ترقی کے لیے سیاحت کا استعمال کر رہے ہیں۔

گرین لینڈ

گرین لینڈ ایک ایسا ملک ہے جو زیادہ سے زیادہ سیاحوں کا خیرمقدم کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ دارالحکومت نوک میں اس برس ایک نیا ایئرپورٹ مسافروں کے لیے کھول دیا جائے گا جبکہ ملک کے تیسرے بڑے شہر الولیسات میں بھی ایک بین الاقوامی ایئرفیلڈ سنہ 2026 تک تیار ہوجائے گی۔اب تک گرین لینڈ کے ایئرپورٹ اتنے وسیع نہیں کہ وہاں بڑے مسافر جہاز لینڈ کر سکیں۔ یہاں آنے والے لوگوں کو پہلے سابق امریکی فوجی بیس کانگرلوسواک جانا پڑتا تھا اور پھر وہاں سے چھوٹے جہازوں کے ذریعے لوگ گرین لینڈ کے دارالحکومت پہنچتے تھے۔تاہم نئے ایئرپورٹ کے افتتاح کے بعد سیاحوں کی ایک بڑی تعداد براہِ راست نوک کا سفر کر سکے گی۔ اس کے علاوہ اس کے سبب ملک میں درآمدات بڑھیں گی اور سمندر سے حاصل ہونے والی خوراک کی برآمد بھی بڑھے گی۔گرین لینڈ میں لوگوں کی توقع یہ ہے کہ سیاحت کے فروغ کے سبب ملک کی معیشت مستحکم ہوگی۔دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ گرین لینڈ میں نئے ایئرپورٹ پر خرچ ہونے والے پیسے سیاحت کی مد میں آنے والی کمائی سے واپس قومی خزانے میں شامل کیے جائیں گے اور اسی سبب مستقبل میں ملازمتوں کے مواقع بھی بڑھیں گے۔گرین لینڈ اس وقت دو طرح کی سیاحت پر توجہ دے رہا ہے۔ پہلی ایڈوینچر ٹورازم ہے جس میں کوہ پیمائی، وہیل مچھلیوں کو دیکھنا اور برف پر خیمہ زنی شامل ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشناب تک گرین لینڈ کے ایئرپورٹ اتنے وسیع نہیں کہ وہاں بڑے مسافر جہاز لینڈ کر سکیں
ملک میں سیاحت کی دوسری کیٹگری میں ان لوگوں کی دلچسپی ہوگی جو کہ آسمان پر چمکنے والے ستاروں یا ناردرن لائٹس دیکھنے کے شوقین ہیں۔سیاح گرین لینڈ کا رُخ عام طور پر گرمیوں میں کرتے ہیں لیکن مقامی افراد کی ملازمتوں کو مزید مستحکم کرنے کے لیے انھیں سردیوں میں بھی سیاحوں کی بڑی تعداد درکار ہے۔لیکن ایسا مقام جہاں درجہ حرارت منفی 50 تک جا سکتا ہے وہاں سردیوں میں سیاحوں کی توجہ حاصل کرنا ایک بڑا چیلنج ثابت ہو سکتا ہے۔اس کے باوجود بھی گرین لینڈ کی حکومت کی کوشش ہے کہ ناردن لائٹس اور آسمان کا صاف نظارا دینے والے ہوٹلوں کے ذریعے سیاحوں کو ایک ایسا تجربہ کروایا جاسکے جو کہ انھیں زندگی بھر یاد رہے۔گرین لینڈ کی ٹورازم اتھارٹی کے سربراہ تانی فار کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد یہ ہے کہ مقامی آبادی کی کم از کم 80 فیصد تعداد کو یہ دکھایا جا سکے کہ سیاحت معاشرے میں مثبت تبدیلی لا رہی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایئر پورٹ بنانے پر بہت زیادہ پیسہ لگتا ہے، اسی لیے ہمیں بہت سارے سیاحوں کی ضرورت ہے۔‘’لیکن ہمیں یہ سب ایک متوازن طریقے سے کرنا ہوگا تاکہ سیاحوں کی تعداد انتی زیادہ نہ بڑھ جائے جس سے مقامی افراد کی زندگیوں پر بُرا اثر پڑے۔‘تانی فار نے حال ہی میں شمالی گرین لینڈ کا دورہ بھی کیا تھا جہاں سنہ 2026 میں الولیسات کے رن وے پر بین الاقوامی فلائٹس اُر سکیں گی۔

وہ وہاں ایک قصبے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: ’وہاں پیچھے یاک بھی موجود تھے، ایک تاریخی مقامی میوزیم ہے اور بہت ساری وہیل مچھلیاں بھی، میں ان کی آوازیں اپنے بیڈروم میں بھی سُن سکتا تھا۔‘

مراکش

سپین اور پُرتگال کے ساتھ مل کر 2030 کے فُٹ بال ورلڈ کپ کی میزبانی حاصل کرنے والا ملک مراکش بھی اپنے سیاحی انفراسٹرکچر کو بہتر کر کے اور نئے ہوٹل تعمیر کر کے مزید سیاحوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔شمالی افریقی ملک ورلڈ کپ 2030 کو ملک کے سیاحتی شعبے کو فروغ دینے کے لیے ایک سُنہری موقع کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ وہ سنہ 2030 تک ملک میں آنے والے سیاحوں کی سالانہ تعداد دُگنی کرکے دو کروڑ 60 لاکھ تک لے جائیں۔ایک اندازے کے مطابق ورلڈ کپ کے لیے مراکش کو تقریباً ایک لاکھ افراد کی رہائش کا انتظام کرنا ہوگا۔ دنیا بھر کے متعدد بڑے ہوٹل یہ انتظامات کرنے میں مراکش کی مدد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ان ہی کی مدد سے ملک بھر میں لوگوں کی رہائش کے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔سنہ 2030 سے قبل مراکش کے شہر طنجہ میں ایک والڈروف آسٹوریا اور دیگر مقامات پر 25 نئے ریڈیس ہوٹلوں کا افتتاح متوقع ہے۔اس کے علاوہ گذشتہ برس آنے والے زلزلے کے بعد متعدد ہوٹل دوبارہ کھولے جا رہے ہیں۔باربرا پودیوال فلی ونٹر نامی ٹریول ایجنسی کی ایڈوائزر ہیں جو کہ گذشتہ دو دہائیوں سے مراکش کا دورہ کر رہی ہیں۔مراکش میں سیاحت کے شعبے کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ’مراکش پر سیاحت کا مثبت اثر پڑا ہے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنورلڈ کپ کے لیے مراکش کو تقریباً ایک لاکھ افراد کی رہائش کا انتظام کرنا ہوگا
’وہاں پر سڑکیں اب مزید صاف اور محفوظ ہیں، لوگ بھی اب وہاں آنے والے افراد پر چیزیں خریدنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالتے۔ لیکن بہت ساری سستی ایئرلائنز کے ذریعے سیاح مراکش پہنچ رہے ہیں اور اس لیے وہاں کافی رش نظر آتا ہے۔‘فُٹ بال ورلڈ کپ کے دوران مراکش کے وہ شہر لوگوں کی توجہ کا مرکز ہوں گے جہاں سیاحوں کی تعداد عام طور پر کم ہوتی ہے جیسے کہ دار البیضا، اگادیر، فاس، ربت اور طنجہ۔ان شہروں میں فُٹ بال سٹیڈیم کی رینوویشن اور نئے ہوٹلوں کی تعمیر جاری ہے۔باربرا فاس کو مراکش کا کلچرل دارالحکومت قرار دیتی ہیں اور کہتی ہیں کہ وہاں سے ایک دن کے لیے اگادیر بھی جایا جاسکتا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ ’اگادیر سے قریب ہی تارودانت بھی واقع ہے۔ یہ وہ شہر ہے جہاں عام طور پر سیاح نہیں جاتے۔‘وہ کہتی ہیں کہ یہاں کہ ریتیلے ساحلوں پر سرفنگ اور تیراکی سکھائی جاتی ہے اور یہاں سے آپ کچھ ہی گھنٹوں میں ایٹلس کی پہاڑیوں پر بھی جا سکتے ہیں۔مراکش کے بڑے شہروں کو ترقی دینے کی بڑی کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن وہاں چھٹیوں کا مزہ تب ہے جب آپ ایسے مقامات پر جائیں جہاں عام طور پر سیاح نہیں جاتے۔

سربیا

سربیا کے پڑوسی ملک کریشیا میں سیاحت کا شعبہ ترقی کی طرف گامزن ہے اور وہاں ہر وقت سیاحوں کی ایک بڑی تعداد موجود رہتی ہے۔لیکن سربیا میں ایسا نہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ملک میں سیاحت کے شعبے کو ترقی دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔حال ہی میں انھوں نے گلوبل سسٹین ایبل ٹورازم کونسل کے ساتھ مل کر ایک منصوبہ شروع کیا ہے جس کا مقصد سیاحت کے شعبے کو بہتر بنانا ہے۔ماضی میں سربیا کی حکومت نے سیاحت کے حوالے سے بلغراد جیسے بڑے شہروں پر زیادہ توجہ رکھی ہوئی تھی لیکن اب وہ سیاحوں کو اپنے دیہی علاقوں کی سیر کروانے میں بھی دلچسپی لے رہے ہیں۔اسی سبب ان علاقوں میں واقع پہاڑوں، سپا، ہسپتالوں اور دیگر شعبوں پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔سربیا میں کام کرنے والی ایک ٹریول ایجنسی کے اہلکار جارج کولون کہتے ہیں کہ ’سربیا میں لوگ لفظ سیاح کو مثبت طریقے سے دیکھتے ہیں۔ البانیہ اور بوسنیا سیاحت کے حوالے سے اب زیادہ مشہور ہیں لیکن سربیا میں بھی ایسے مقامات ہیں جو کہ انتہائی متاثر کُن ہیں لیکن لوگوں نے ان کے بارے میں سُنا تک نہیں ہے۔‘سربیا کے پہاڑ گرمیوں اور سردیوں دونوں میں کوہ پیمائی کا شوق رکھنے والے افراد کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں۔ وہاں موجود پرندے اور پہاڑوں کے کنارے گرم پانی کے چشمے بھی انتہائی مقبول ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنسربیا کے پہاڑ گرمیوں اور سردیوں دونوں میں کوہ پیمائی کا شوق رکھنے والے افراد کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں
ان علاقوں میں سیاح قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور اس کے بعد مقامی معیشت بھی بہتر ہوتی ہے۔توقع کی جا رہی ہے کہ رواں برس سربیا آنے والے سیاحوں کی تعداد تقریباً 20 فیصد تک بڑھے گی۔کولون کہتے ہیں کہ سیاحوں کو سربیا کا دوسرا بڑا شہر نوی ساد بھی دیکھنا چاہیے۔’اس علاقے میں ہیبسبرگ شاہی خاندان کی باقیات موجود ہیں اور پراگ اور بوداپست کی طرز پر بنی چاکلیٹ کے ڈبے نما عمارتیں بھی ہیں۔‘سربیا کے کھانوں پر آسٹریا کا ایک واضح اثر نظر آتا ہے۔ وہاں سٹروڈل اور گولاش کافی مشہور ہیں جبکہ پترو وارادین میں ایک شاندار قلعہ بھی واقع ہے جسے ’جبرالٹر آف ڈنیوب‘ بھی کہا جاتا ہے۔

جارجیا

جارجیا کی سرحدیں ترکی، روس اور آذربائیجان سے ملتی ہیں اور یہ ملک بحیرہ اسود کے کنارے واقع ہے۔ جارجیا کی حکومت کا ارادہ ہے کہ وہ باتومی شہر کی بندرگاہ کا استعمال کرتے ہوئے سیاحوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائیں۔جارجیا کی حکومت نے ابھی ایک دس سالہ منصوبہ بھی متعارف کروایا ہے جس کے مطابق پبلک ٹرانسپورٹ بڑھائی جائی گی اور کشتیوں کے لیے بندرگاہوں کو مزید بہتر بنایا جائے گا تاکہ سیاح سمندر کی سیر کر سکیں۔ماہرِ سیاحت نٹالی فورڈرھم کہتی ہیں کہ ’جارجیا میں سیاحت کا شعبہ ابھی نیا ہے لیکن سیاحت کے بڑھنے کے ساتھ ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہاں اچھے گائیڈز بھی سامنے آ رہے ہیں۔‘وہ کہتی ہیں کہ وہاں کام کرنے والے گائیڈز اچھی انگریزی بولتے ہیں اور لوگ انھیں پسند بھی کرتے ہیں۔’بہت سارے مسافر ان کے دوست بن گئے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ وہ دوبارہ جارجیا آئیں۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنجارجیا کی سرحدیں ترکی، روس اور آذربائیجان سے ملتی ہیں اور یہ ملک بحیرہ اسود کے کنارے واقع ہے
لیکن بطور ایک ترقی پزیر ملک جارجیا میں ایسی بہت چیزوں کی کمی ہے جو کہ یورپ میں تواتر سے پائی جاتی ہیں، جیسے کہ ہموار سڑکیں۔لیکن لوگوں کو امید ہے کہ سیاحت کے شعبے سے آنے والے پیسوں سے ملک کا انفراسٹرکچر بہتر ہو جائے گا۔نٹالی کہتی ہیں کہ ’تبلیسی میرا پسندیدہ دارالحکومت ہے، یہاں اچھی سڑکیں اور عجائب گھر ہیں۔ وہاں غاروں کا ایک قصبہ ہے، روسی فنِ تعمیر اور تاریخ دیکھنے کو ملتی ہے اور یہ وہ ہی مقام ہے جہاں جوزف سٹالن پیدا ہوئے تھے۔‘’یہاں سب کچھ دیکھنے کے لیے آپ کو کم از کم ایک ہفتہ چاہیے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}