اس طرح کی فوٹیج شاذ و نادر ہی ملتی ہے کیونکہ شمالی کوریا ملک میں روزمرہ کی تصاویر، ویڈیوز اور دیگر شواہد کو بیرونی دنیا میں لیک ہونے سے روکتا ہے۔ یہ ویڈیو بی بی سی کو ایک تحقیقی ادارے ساؤتھ اینڈ نارتھ ڈویلپمنٹ (سینڈ) نے فراہم کی ہے جو شمالی کوریا سے تعلق رکھنے والے منحرف افراد کے ساتھ کام کرتا ہے۔اس سے پتا چلتا ہے کہ حکام اس طرح کے واقعات پر سخت کارروائی کر رہے ہیں۔اطلاعات کے مطابق یہ کلپ شمالی کوریا میں نظریاتی تعلیم اور شہریوں کو متنبہ کرنے کے لیے تقسیم کیا گیا کہ وہ ’گری ہوئی ریکارڈنگ‘ نہ دیکھیں۔ ویڈیو میں ایک آواز بھی شامل ہے جو ریاستی پروپیگنڈا دہرا رہی ہے۔جنوبی کوریا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آواز کہتی ہے کہ ’بوسیدہ کٹھ پتلی حکومت کی ثقافت نوعمروں تک بھی پھیل چکی ہے۔ وہ صرف 16 سال کے ہیں لیکن انھوں نے اپنا مستقبل برباد کر دیا۔‘ماضی میں، اس طرح قانون توڑنے والے نابالغوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کے بجائے یوتھ لیبر کیمپوں میں بھیج دیا جاتا تھا اور سزا عام طور پر پانچ سال سے بھی کم ہوتی تھی۔ تاہم 2020 میں پیانگ یانگ نے جنوبی کوریا کا تفریحی مواد دیکھنے یا تقسیم کرنے والے کے لیے سزائے موت دینے کا ایک قانون بنایا تھا۔اس سے قبل ایک منحرف شخص نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ وہ ایک 22 سالہ شخص کو گولی مار کر ہلاک ہوتے دیکھنے پر مجبور ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ اس شخص پر جنوبی کوریا کی موسیقی سننے کا الزام تھا اور اس نے اپنے دوست کے ساتھ جنوبی کوریا کی فلمیں شیئر کی تھیں۔سینڈ کے سی ای او چوئی کیونگ ہوئی نے کہا کہ پیانگ یانگ ’کے‘ ڈراموں اور کے پاپ کے پھیلاؤ کو اپنے نظریے کے لیے خطرے کے طور پر دیکھتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جنوبی کوریا کے معاشرے کی تعریف جلد ہی ان کے نظام کے کمزور ہونے کا باعث بن سکتی ہے۔ ’یہ اس واحد نظریے کے خلاف ہے جو شمالی کوریا کے لوگوں کو کِم خاندان کا احترام کرنے پر مجبور کرتا ہے۔‘ شمالی کوریا کے لوگوں نے 2000 کی دہائی میں جنوبی کوریا کی ’سن شائن پالیسی‘ کے برسوں کے دوران جنوبی کوریا کی تفریح کا مزہ چکھنا شروع کیا، جس میں اس نے شمالی کوریا کو غیر مشروط اقتصادی اور انسانی امداد کی پیشکش کی تھی۔ سیول نے 2010 میں یہ کہتے ہوئے پالیسی ختم کر دی تھی کہ اسے معلوم ہوا ہے کہ یہ امداد عام شمالی کوریائی شہریوں تک نہیں پہنچی اور اس کے نتیجے میں پیانگ یانگ کے رویے میں کوئی ’مثبت تبدیلی‘ نہیں آئی۔ لیکن جنوبی کوریا کی تفریح چین کے راستے شمالی کوریا تک پہنچتی رہی۔شمالی کوریا سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے بی بی سی کورین کو بتایا کہ ’اگر آپ امریکی ڈرامہ دیکھتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں تو رشوت لے کر بچ سکتے ہیں لیکن اگر آپ کورین ڈرامہ دیکھتے ہیں تو آپ کو گولی مار دی جاتی ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’شمالی کوریا کے لوگوں کے لیے کورین ڈرامے ایک ’منشّیات‘ کی طرح ہیں جو انھیں اپنی مشکل حقیقت کو بھولنے میں مدد دیتے ہیں۔‘ایک اور 20 سالہ شمالی کوریائی منحرف لڑکی کا کہنا تھا کہ ’شمالی کوریا میں، ہمیں بتایا جاتا ہے کہ جنوبی کوریا ہم سے کہیں زیادہ بدتر رہتا ہے لیکن جب آپ جنوبی کوریا کے ڈرامے دیکھتے ہیں، تو یہ ایک بالکل مختلف دنیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ شمالی کوریا کے حکام اس سے محتاط ہیں۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.