کینیڈین کیپر: ایرانی فوج کی ناک کے نیچے سے امریکی سفارتکاروں کو ’فلم کریو‘ کے بھیس میں ریسکیو کرنے کی کہانی
کینیڈین کیپر: ایرانی فوج کی ناک کے نیچے سے امریکی سفارتکاروں کو ’فلم کریو‘ کے بھیس میں ریسکیو کرنے کی کہانی
امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے پہلی مرتبہ ایک ایسے افسر کی شناخت ظاہر کی ہے جنھوں نے سنہ 1980 میں ایران سے امریکی سفارتکاروں کے ڈرامائی ریسکیو میں انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا۔
بعد میں اس کامیاب ریسکیو مشن پر آسکر جیتنے والی فلم آرگو بھی بنی تھی۔
اس مشن کو ’کینیڈین کیپر‘ کا نام دیا گیا تھا اور اس انتہائی خطرناک اور پیچیدہ آپریشن کے نیتجے میں سی آئی اے چھ امریکی سفارتکاروں کو ایران سے ایک فلم کریو کے روپ میں ’سمگل‘ کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔
کینیڈا کی مدد سے دو سی آئی اے افسران اور چھ سفارتکار ایک فلائٹ پر سوار ہوئے جو زیورک جا رہی تھی۔ اس دوران وہ ایران کی دورِ انقلاب کی سکیورٹی سروسز کی آنکھوں کے نیچے سے بچ کر نکل گئے۔
اس کے لیے گروپ کو فلم ہدایتکاروں کے بھیس میں کچھ جگہیں سکاؤٹ کرنے کے لیے بھیجا گیا جہاں وہ سائنس فکشن فلم آرگو کی شوٹنگ کر سکیں گے۔
اس ہفتے تک صرف ایک افسر کی شناخت ظاہر کی گئی تھی جو بھیس بدلنے اور جعل سازی میں مہارت رکھتے تھے۔ ان کا نام ٹونی مینڈیز تھا۔
اب سی آئی اے نے ایک دوسرے افسر کی شناخت بھی ظاہر کی ہے جن کا نام ایڈ جانسن بتایا گیا ہے جو خفیہ انداز میں لوگوں کو ریسکیو کرنے میں مہارت رکھتے تھے۔
سی آئی میں جو لوگ انھیں جانتے تھے ان میں باب مینڈیز کی اہلیہ 27 سالہ سابق ایجنٹ جونا تھیں جو ترقی کر کے ’بھیس بدلنے کی ماہر یا چیف‘ بن گئی تھیں۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے جانسن کی تعریف ایک ’انتہائی مہارت والے چرب زبان‘ کے طور پر کی جو جعلی دستاویز بنانے میں مہارت رکھتے تھے۔
انھوں نے کہا کہ ’وہ اس کام کے لیے ایک بہترین شخص تھے۔‘
ستمبر 14 کو ایجنسی کی آفیشل ’لینگلی فائلز‘ پاڈکاسٹ میں ایسی تاریخ کا ذکر کیا گیا جس سے جانسن نے سی آئی اے کے مؤرخین کو آگاہ کیا تھا۔ یہ اس سے پہلے کبھی نشر نہیں کی گئی تھی۔
اس طویل بیان میں جانسن نے کا کہا کہ اس آپریشن میں ’سب سے بڑی بات‘ یہ تھی کہ ہم سفارتکاروں کو اس بات پر راضی کر لیں کہ وہ کامیابی کے ساتھ ایرانیوں کو منا لیں گے کو وہ واقعی فلم کریو کے اراکین ہیں۔
اس کے لیے ان کی ظاہری حالت تبدیل کرنی ضروری تھی، ان کے پاس فلم بنانے کے تمام آلات جیسے کہ کیمرہ ویو فائنڈرز اور انتہائی دلچسپ لیکن قابلِ یقین کہانیاں اور جھوٹے کردار میں ڈھلنا شامل تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’سفارتکاروں کو حکام سے جھوٹ بولنے کی عادت نہیں تھی نہ ہی انھیں خفیہ انداز اپنانے اور خود کو عام لوگوں میں نمایاں ہونے سے بچانے کے لیے ٹریننگ دی گئی تھی۔‘
جانسن کا مشرقِ وسطیٰ میں وسیع تجربہ تھا اور وہ عربی بولنا جانتے تھے لیکن ایران میں بولی جانے زبان فارسی سے واقف نہیں تھے۔
وہ جرمن زبان بولنا جانتے تھے اور اس زبان کا انھیں سویڈش سفارت خانے میں استعمال کرنے کا موقع بھی ملا جس کے بالکل سامنے مقبوضہ امریکی سفارت خانے میں 52 امریکی شہریوں کو 1979 میں یرغمال بنایا گیا تھا۔
وہاں ایک جرمن بولنے والے ایرانی گارڈ نے دونوں افسران کو ایک ٹیکسی میں کینیڈین سفارت خانے تک پہنچانے میں مدد دی جہاں باقی چھ سفیروں نے پناہ لی ہوئی تھی۔
جانسن نے سی آئی اے کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ ’میں ان ایرانیوں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو میرے لیے مشعلِ راہ بنے اور ہمیں صحیح مقام تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔‘
سنہ 2012 میں بنائی گئی فلم آرگو میں ٹیم کا ایران سے انخلا ایک انتہائی اعصاب شکن کلوز کال کے طور پر دکھایا گیا ہے جس کا اختتام ایرانی افواج کی جانب سے ان کے طیارے کا پیچھا کرنے پر ہوا۔
حقیقت میں ایسا نہیں ہوا تھا، جانسن کا کہنا تھا کہ سفارت کار مشن کے آخری مراحل میں انتہائی پرسکون اور پر اعتماد تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم آپس میں خوش گپیاں لگا رہے تھے اور یہ ایئرپورٹ پر بھی جاری رہیں۔‘
آپریشن کے بعد مینڈیز نے متعدد کتابیں لکھیں اور واشنگٹن ڈی سی میں موجود انٹرنیشنل سپائے میوزیم کے بورڈ پر بھی کام کیا۔ فلم آرگو میں ان کا کردار بین ایفلیک نے ادا کیا۔ ان کی وفات جنوری 2019 میں ہوئی۔
دوسری جانب جانسن نے خاموشی کے ساتھ رہنا پسند کیا اور ایک ہفتے پہلے تک اپنی شناخت اور آپریشن میں کردار ظاہر نہ کرنا بہتر سمجھا۔ طبی مسائل کے باعث وہ سی آئی کی پاڈکاسٹ کو ایک اور انٹرویو نہیں دے سکے۔
ڈاکٹر اینڈریو ہیمنڈ جو انٹرنیشنل سپائے میوزیم کے ساتھ منسلک ایک مؤرخ ہیں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سی آئی اے نے اپنے افسر کا نام 42 برس بعد ظاہر کر کے ایک کامیاب مشن کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔
یہ مشن جس دور میں کیا گیا وہ سی آئی اے کے لیے ایک مشکل وقت تھا۔ صرف چند ہی برس پہلے سینکڑوں انٹیلیجنس افسران اور حکام کو سی آئی اے کے اس وقت کے سربراہ سٹینسفیلڈ ٹرنر نے عملہ کم کرنے کی پالیسی کے تحت نکال دیا تھا۔
امریکی حکومت اس دوران ان درجنوں امریکیوں کو مقبوضہ سفارت خانے سے نکالنے کی کوشش بھی کر رہی تھی جو اس میں ستمبر 1979 میں یرغمال ہو چکے تھے۔ ان افراد نے سفارت خانے میں 444 دن گزارے اور بالآخر جنوری 1981 میں انھیں چھوڑا گیا۔
ہیمنڈ کا کہنا تھا کہ یہ ایک ناقابلِ یقین کہانی ہے اور آپ اس قسم کی کہانی خود سے نہیں بنا سکتے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کسی بھی ملک کا خفیہ ادارہ ان کے کام سے خوش ہوتا، یہ انتہائی دلیر، مشکل اور پیچیدہ مشن تھا۔‘
سی آئی اے کے پیراملٹری افسر اور سابق ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری دفاع برائے مشرقِ وسطیٰ مک ملرائے نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ان کی شناخت ظاہر ہونے سے اب یہ موجودہ اور مستقبل کے سی آئی اے افسران کے لیے مشعلِ راہ بن سکیں گے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سی آئی اے کی اکثر کامیابیوں کا عوامی طور پر ذکر نہیں ہوتا اور یہ سروس میں موجود افراد کو معلوم ہوتا ہے اور وہ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔
’لیکن یہ دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے کہ وہ ہیروز جنھوں نے یہ آپریشن کیا تھا انھیں وہ پزیرائی مل رہی ہے جس کے وہ حقدار ہیں۔‘
Comments are closed.