کینیڈین شہریت حاصل کرنے والے حسن: ’میں نے اس کے لیے اپنے باپ کی قیمت ادا کی ہے‘
- مصنف, روبن لیونسن کنگ اور سیم کیبرال
- عہدہ, بی بی سی نیوز
حسن القنطار کہتے ہیں کہ یہ اگرچہ بہت سے پہلوؤں سے خوش آئند ہے لیکن ساتھ ہی افسوس ناک بھی ہے۔
یہ 2018 تھا جب حسن القنطار نے خود کو ملائیشیا کے ایک ہوائی اڈے پر سات ماہ تک پھنسا ہوا پایا۔ وہ اپنی جان کے خوف سے وہاں سے نکلنے سے قاصر تھے۔
پانچ سال بعد یہ 41 سالہ شامی تارکینِ وطن اب کینیڈا کا شہری بن چکا ہے۔ اُنھوں نے بی بی سی کو بتایا ’آج میں زیادہ کینیڈین بن گیا ہوں، لیکن میں نے پہلے دن سے خود کو کینیڈین سمجھا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ یہ اگرچہ بہت سے پہلوؤں سے خوش آئند ہے لیکن ساتھ ہی افسوس ناک بھی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ایک بہت بڑی قیمت کے ساتھ آیا۔‘ ان کا ملک تباہ ہو چکا ہے، اور اُنھوں نے اپنے پیاروں سے دور ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ گزارا ہے۔ حسن القنطار کا برٹش کولمبیا کے شہر وِسلر میں آمد سے پہلے سفر بہت مشکل تھا۔ وہ کوالالمپور کے ہوائی اڈے پر پھنسے رہے اور اس سے پہلے وہ متعدد ملکوں سے گزرتے ہوئے یہاں تک آئے۔
وہ سنہ 2017 میں متحدہ عرب امارات سے ملائیشیا گئے جہاں وہ 2011 سے پہلے سے کام کر رہے تھے، تاہم ویزے کی میعاد ختم ہونے کےبعد انھیں وہاں سے نکال دیا گیا۔
وہ شام واپس جانے سے قاصر تھے، انھیں وہاں ممکنہ طور پر فوج میں بھرتی کر دیا جاتا یا خانہ جنگی کے دوران قیدی بنا دیا جاتا۔ اسی لیے انھوں نے ملائیشیا کا رخ کیا جہاں شامی باشندوں کو بغیر ویزا ملک میں داخل ہونے اور 90 دن تک قیام کرنے کی اجازت ہے۔
جب ویزے کی مدت ختم ہو گئی تو انھوں نے ایکواڈور اور پھر کمبوڈیا میں داخل ہونے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں ناکام رہے۔ کمبوڈیا کے حکام نے ان کا پاسپورٹ ضبط کر لیا اور انھیں ملائیشیا واپس بھیج دیا۔ اب وہ بے وطن ہو گئے تھے۔
کوالالمپور کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر سات مہینوں کے دوران اُنھوں نے لاکھوں بے گھر شامی پناہ گزینوں کو متاثر کرنے والے وسیع بحران کو ویڈیو ڈائریوں کی شکل میں کو ٹویٹ کرنا شروع کیا۔ سنہ 2011 میں شام میں جنگ کے آغاز سے اب تک تقریباً 68 لاکھ افراد ملک چھوڑ چکے ہیں۔
ویڈیوز سے انھیں بین الاقوامی شہرت ملی اور ان کی کہانی نے تین کینیڈین لوگوں کی توجہ حاصل کی جنھوں نے ان کی مدد کےلیے اقدم اٹھایا۔
کینیڈا کی حکومت نجی گروپوں اور افراد کو پناہ گزینوں کو سپانسر کرنے کی اجازت دیتی ہے تاکہ وہ کینیڈا میں ان پناہ گزینوں کی زندگی کے پہلے سال کو آرام دہ کرنے کے لیے فنڈز اکٹھا کریں اور سماجی مدد فراہم کریں۔ بی سی مسلم ایسوسی ایشن نے حسن القنطار کو سپانسر کرنے پر رضامندی ظاہر کی، جبکہ گڈ سمیریٹنز کے تین لوگوں نے کینیڈین حکومت اور ملائیشیا کے حکام سے لابنگ کی کہ وہ حسن کو ملک میں آنے دیں۔
اس دوران انھوں نے ملائیشیا میں پناہ گزینوں کے لیے بنائے گئے حراستی مرکز میں دو ماہ گزارے، جہاں انھوں نے بتایا کہ ان سے سینکڑوں بار پوچھ گچھ کی گئی۔ پچھلے سال، کینیڈا میں اپنے گھر سے، وہ اپنے خاندان کو شام سے مصر لے جانے میں کامیاب ہوئے- وہ بتاتے ہیں کہ شام میں نہ دوا ہے اور نہ ہی خوراک کا نظام ۔
’آج میں زیادہ کینیڈین بن گیا ہوں، لیکن میں نے پہلے دن سے خود کو کینیڈین سمجھا ہے۔‘
ایسے میں کوئی بھی ملک انھیں اندر آنے نہیں دیتا، سو حسن القنطار نے ہوائی اڈے پر ڈیرہ ڈال دیا۔
لیکن ان 15 برسوں میں جب سے وہ اپنے ملک سے دور رہے ہیں، وہ اپنی بھانجی کی پیدائش اور 2016 میں اپنے والد کی موت پر جانے سے قاصر رہے ہیں۔ اُنھوں نے بدھ کو کینیڈین شہریت ملنے کے بعد کہا کہ ’میں نے اس کے لیے اپنے باپ کی قیمت ادا کی ہے، میں ان کو الوداع کہنے کے لیے وہاں موجود نہیں تھا جب اُنھیں میری سب سے زیادہ ضرورت تھی۔‘
جب وہ کینیڈا کی سرزمین پر اترے تھے تو حسن القنطار نے اس سے قبل بی بی سی کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ تب انھیں ایسا لگا کہ وہ گھر پر ہی ہیں: ’جب میں نے وینکوور کے ہوائی اڈے پر پاؤں رکھا تو مجھے فرق محسوس ہوا۔‘
اس کے بعد سے انھوں نے پوری دنیا میں پناہ گزینوں کی حالت زار کے بارے میں شعور بیدار کرنا جاری رکھا ہے۔ انھوں نے اپنی آزمائش کے بارے میں ایک کتاب لکھی، اور کینیڈین ریڈ کراس کے لیے کام بھی کرنا شروع کیا۔ کووڈ کے دوران انھوں نے صوبے کی موبائل ویکسینیشن کی مہم میں مدد بھی کی۔
ویڈیوز سے انھیں بین الاقوامی شہرت ملی اور ان کی کہانی نے تین کینیڈین لوگوں کی توجہ حاصل کی جنھوں نے ان کی مدد کے لیے اقدام اٹھایا۔
وہ کہتے ہیں ’مجھے لگتا ہے کہ میں نے بہت سے کینیڈینز سے زیادہ برٹش کولمبیا دیکھا ہے۔‘
اُنھوں نے مزید کہا کہ خود کو بہتر بنانے کے لیے انھوں نے سخت محنت کی ہے، درجنوں آن لائن کورسز کیے ہیں، اور انھیں سیلاب کی بحالی میں کام کرنے والے ڈپارٹمنٹ میں ترقی دی گئی ہے۔
چار سال تک وہ بے وطن رہے جس کی وجہ سے سفر بنیادی طور پر ناممکن ہو گیا۔ اب جب کہ وہ کینیڈین پاسپورٹ کے لیے درخواست دے سکتے ہیں تو انھیں امید ہے کہ وہ بے گھر ہونے والے دیگر پناہ گزینوں کی مدد کے لیے دوسرے ممالک کا سفر کر سکتے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ ’ایک پناہ گزین کے طور پر ہم صرف وہ لوگ نہیں ہیں جو کوشش کر رہے ہیں، مدد کے خواہاں، بے اختیار اور نا امید ہیں۔ ہم دراصل اپنے آپ کو ثابت کرنے کا موقع تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
Comments are closed.