کینیڈا کو ’آبادی کے جال‘ کا سامنا: امیگریشن کے خواہشمندوں پر اس کے کیا اثرات ہوں گے؟،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنکینیڈا کی حکومت نے پچھلے سال تقریباً ساڑھے 12 لاکھ ویزہ جاری کیے

  • مصنف, اٹاوالپا امیرائیز
  • عہدہ, بی بی سی نیوز ورلڈ
  • ایک گھنٹہ قبل

کینیڈا دنیا بھر میں اپنی اوپن ڈور امیگریشن پالیسی کے لیے جانا جاتا ہے۔ اس پالیسی کی بدولت، دنیا بھر سے پچھلے کئی برسوں میں لاکھوں ہنر مند افراد کینیڈا منتقل ہوئے۔حالیہ برسوں میں کینیڈا کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہونے لگا ہے جہاں آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔سنہ 2023 میں کینیڈا کی آبادی 3.2 فیصد اضافے کے ساتھ 4 کروڑ سے تجاوز کر گئی۔ یہ اب تک ہونے والا سب سے زیادہ اضافہ ہے۔کینیڈا کے امیگریشن ڈیپارٹمنٹ کی ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ ’کینیڈا کی آبادی میں ہونے والا اضافہ تقریباً مکمل طور پر عارضی یا مستقل امیگریشن کی وجہ سے ہے۔‘

پچھلے سال، تقریباً ساڑھے 12 لاکھ سے زائد غیر ملکی کینیڈا میں آباد ہوئے۔ ان میں مستقل اور عارضی دونوں طرح کے باشندے شامل ہیں۔مگر اس غیر معمولی تیزی سے بڑھتی آبادی کے باعث ملک میں رہائش کے لیے دستیاب مکانات کا فقدان سامنے آ رہا ہے اور یہ ایک مسئلے کو جنم دے رہا ہے جس نے کینیڈین معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے: ‘آبادی کا جال’۔تو کینیڈا میں اصل میں ہو کیا رہا ہے اور اس سے مستقبل میں کینیڈا ہجرت کرنے کے خواہشمند افراد پر کیا اثر پڑے گا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنکینیڈین پرائم منسٹر جسٹن ٹروڈو نے غیر ملکیوں کی آمد میں بتدریج اضافے کے لیے اوپن ڈور امیگریشن پالیسیوں کو مزید فرغ دیا

اوپن ڈور پالیسی

جنگِ عظیم دوئم کے وقت کینیڈا کی آبادی محض 1 کروڑ 20 لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ اس کے بعد آنے والی دہائیوں میں، کینیڈا کی حکومت نے ملک کی آبادی بڑھانے اور معیشت کے فروغ کے لیے غیر ملکیوں کو راغب کرنے کے لیے مختلف پالیسیاں اپنائیں۔ اس کے نتیجے میں پچھلی نصف صدی میں کینیڈا ایک کثیر ثقافتی ملک میں تبدیل ہو گیا۔اور آزاداںہ امیگریشن پالیسیوں نے ملک میں ہنرمند افراد کی آمد کو یقینی بنایا اور اس نے کینیڈا کی معیشت کو تقویت بخشی۔ سنہ 2015 سے بر سرِ اقتدار کینیڈین پرائم منسٹر جسٹن ٹروڈو نے غیر ملکیوں کی آمد میں بتدریج اضافے کے لیے اوپن ڈور امیگریشن پالیسیوں کو مزید فرغ دیا۔کینیڈا کی حکومت نے پچھلے سال تقریباً ساڑھے 12 لاکھ ویزے جاری کیے جس میں سے 454,590 مستقل رہائش کے جبکہ 804,690 عارضی نوعیت کے تھے۔ یہ تعداد، اس سے پہلے جاری کیے جانے والے ویزوں سے کہیں زیادہ ہے اور ریکارڈ رکھے جانے کے بعد سے ہونے والا سب سے زیادہ اضافہ ہے۔اور نیشنل بینک ہف کینیڈا کے مطابق یہ اضافہ ‘آبادی کے جال’ (Population Trap) کا سبب بن رہا ہے۔

آبادی کا جال کیا ہے؟

سنہ 2023 میں کینیڈا کی جی ڈی پی (GDP) میں %1.29 کا اضافہ ہوا جبکہ اس کے برعکس آبادی 3.2 فیصد کے حساب سے بڑھی۔آبادی کے جال کا مسئلہ اس وقت پیش آتا ہے جب کسی ملک کی آبادی اس کی معیشت سے کہیں زیادہ رفتار سے بڑھ رہی ہو۔ اس کے باعث، ملک میں موجود کمپنیاں اور سرکاری اداروں کی سرمایہ کاری صرف موجودہ وسائل کو برقرار رکھنے کے لیے کافی ہوتی ہے اور معیارِ زندگی بہتر بنانا ممکن نہیں رہ پاتا۔نیشنل بینک آف کینیڈا، جو کہ ملک کے سب سے بڑے کمرشل بینکوں میں سے ایک ہے، کے مطابق تارکینِ وطن کی تعداد میں نمایاں اضافے اور معیشت کے اس کے مساوی اضافہ نہ ہونے کے باعث یہ مسئلہ پیش آرہا ہے۔ایلگزینڈرا ڈوکارمے نیشنل بینک میں بطورِ ماہرِ معاشیات کام کرتی ہیں۔ انھوں نے بی بی سی منڈو کو بتایا، ‘یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کینیڈا کی فی کس خالص سرمایہ سٹاک میں سالانہ کمی واقع ہوئی ہے۔’ فی کس خالص سرمایہ سٹاک سے مراد پیداواری وسائل میں اوسط اضافہ ہے جو ہر فرد کو دستیاب ہو جیسے کہ عمارتیں، ٹیکنالوجی اور مشینری وغیرہ۔ ابتدائی اعداد و شمار کے مطابق، پچھلی سہہ ماہی اس اندیکس میں کمی کی چھٹی مسلسل سہہ ماہی ہے۔ ڈوکارمے کہتی ہیں کہ 1982 کے بعد سے یہ کساد بازاری کا طوال ترین سلسلہ ہے۔ان کا کہنا ہے کہ حکومت کے امیگریشن مقاصد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے لگتا ہے کہ جب تک سرمایہ کاری میں قابلِ ذکر اضافہ حاصل نہیں کرلیتے، تب تک اس لیے مسئلے سے چھٹکارا پانا ممکن نہیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنکینیڈا کے کچھ شہر بڑی تعداد میں نئے باشندوں کو جذب کر رہے ہیں۔
جب اس بارے میں امیگریشن ڈیپاٹمنٹ کے ترجمان سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ عمومی طور پر امیگریشن اقتصادی ترقی میں مثبت کردار ادا کرتی ہے۔ مگر نیشنل بینک کا ماننا ہے کہ ‘آبادی کے جال’ بیروزگاری، سرکاری وسائل پر دباؤ اور رہائش کے لیے میسر مکانات کی کمی کا باعث بن سکتا ہے۔ قابلِ رہائش مکانات کی کمی بحران پہلے ہی سر اٹھا رہا ہے۔ پچلھے چھ سالوں میں آبادی میں اضافہ نئے گھروں کی تعمیر سے کہیں زیادہ رہی ہے سوائے 2021 کے جب کرونا وباء کے باعث امیگریشن محدود تھی۔

نئے مکانات کی تعمیر

سنہ 2023 میں ساڑھے 12 لاکھ سے زائد افراد نے کینیڈا کا رُخ کیا جبکہ اس دوران صرف دو لاکھ نئے گھروں کی تعمیر پر کام شروع ہوا۔ نیشنل بینک کے ڈیٹا کے مطابق، کینیڈا میں ہر زیر تعمیر رہائشی جگہ کے لیے 4.2 افراد ملک میں داخل ہوئے۔ ڈوکارمے کہتی ہیں کہ اگرچہ 2023 کے پہلے کے برسوں میں یہ فرق نہیں تھا لیکن اس عدم توازن نے حالیہ دنوں میں رہائشی افراطِ زر پر شدید دباؤ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں گھروں کے کرایوں اور قیمتوں میں خاطرخواہ اضافہ ہوا ہے۔ ملک کے مرکزی بینک کو بھی اس مسئلے کی سنگینی کا احساس ہے۔ بینک آف کینیڈا کی ڈپٹی گورنر کیرولائین راجرز کا کہنا ہے کہ امیگریشن کے نتیجے میں آبادی میں نمایاں اضافہ ایک ایسے وقت ہوا جب سپلائی محدود تھی۔ یہ سب سے زیادہ واضح طور پر ہاؤسنگ اور کرائے کی مد میں دیکھا جا سیکتا ہے۔رینٹل پورٹل کے اعداد و شمار کے مطابق، کینیڈا میں انفرادی اپارٹمنٹ کا اوسط کرایہ دسمبر 2023 میں تقریباً 1,610 امریکی ڈالر تھا جو دو سال پہلے کے مقابلے میں 22 فیصد زیادہ ہے۔ جب کہ اونٹاریو اور وینکوور جیسے شہروں میں یہ 2000 ڈالر سے بھی تجاوز کر جاتا ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنسخت سردی کے باوجود، ٹورنٹو ان لوگوں کے پسندیدہ شہروں میں سے ایک ہے جو شمالی امریکہ میں نئی ​​زندگی شروع کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
کینیڈا کی مارگیج اور ہاؤسنگ کارپوریشن کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اگر یہ رجحان جاری رہا تو سنہ 2030 تک 35 لاکھ مکانات کی کمی ہو جائے گی۔ان سب کے باوجود کینیڈا کی وزارتِ امیگریشن پر امید ہے۔ان کے ترجمان کے مطابق، ‘امیگریشن کی وجہ سے آبادی میں اضافے سے ہاؤسنگ، انفراسٹرکچر اور خدمات کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے، مگر دوسری جانب یہ نئے گھر بنانے کے لیے مزدوروں کی فراہمی سمیت تعمیراتی شعبے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔’پچھلے سال مارچ کے مہینے میں کینیڈین حکومت نے ہاؤسنگ ایکسیلیلیٹر فنڈ بھی قائم کیا۔ اس کا مقصد شہروں میں رہائشی عمارتوں کی زیادہ سے زیادہ تعمیر کی حوصلہ افزائی کرنا ہے اور اس مد میں 2026-27 تک چار ارب امریکی ڈالر مختص کیے گئے ہیں۔ اس کا مقصد آئندہ برسوں میں ملک بھر میں 100,000 اضافی رہائشی یونٹس فراہم کرنا ہے۔تاہم، آبادی میں اضافے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ مکانات کی اتنی تعداد اس بحران سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہوگی۔

کینیڈا کی نئی سٹودنٹ پالیسی

کینیڈا جانے والوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو مطالعہ پروگراموں کے ذریعے وہاں جاتے ہیں۔امیگریشن کے ڈیٹا کے مطابق، بین الاقوامی تعلیم کینیڈا کی معیشت میں تقریباً 16.4 ارب ڈالرز کا حصہ ڈالنے کے ساتھ دو لاکھ سے زائد ملازمتوں کے مواقع بھی پیدا کرتی ہے۔کینیڈین یونیورسٹی میں داخلہ طلبہ کو عارضی وازے کی ضمانت دیتا ہے۔ اور وقت کے ساتھ یہ مستقل رہائش میں بھی تبدیل ہو سکتا ہے۔سنہ 2023 میں کینیڈا نے 560,000 نئے سٹوڈنٹ ویزے جاری کیے جو شمالی امریکہ جانے والے افراد کا تقریباً نصف ہے۔ جنوری میں امیگریشن کے وزیر مارک ملر سٹوڈنٹ کی تعداد میں اضافے میں روک تھام کے لیے اقدامات کا اعلان کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس اضافے کی وجہ سے ہاؤسنگ، صحت اور دیگر خدمات پر دباؤ پر رہا ہے۔کینیڈا کی حکومت نے اعلان کیا ہے اس سال (سنہ 2024) میں تقریباً 3 لاکھ ساٹھ ہزار غیر ملکی طالبعلموں کو سٹوڈنٹ ویزے جاری کیے جائیں گے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ویزوں کی یہ تعداد پچھلے سال کے مقابلے میں 35 فیصد کم ہے۔کینیڈین حکومت کا کہنا ہے کہ آبادی کے تناسب سے تمام صوبوں، ریاستوں اور علاقوں کے لیے سٹڈی پرمٹس کی حد مقرر کر دی گئی ہے۔ اس اقدام کے نتیجے میں ان صوبوں میں سٹوڈنٹس کی تعداد میں نمایاں کمی دیکھی جائے گی جہاں بین الاقوامی طلبا کی تعداد حد سے بڑھ گئی تھی۔حکومت کے مطابق یہ عارضی اقدامات دو سال کے لیے ہوں گے اور سنہ 2025 کے سٹڈی پرمٹس کے اجرا سے پہلے اس پالیسی کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔نئی پالیسی کے مطابق، ماسٹرز اور دیگر مختصر گریجویٹ سطح کے پروگراموں کے گریجویٹ جلد ہی تین سالہ ورک پرمٹ کے لیے درخواست دینے کے اہل ہوں گے۔ موجودہ پالیسی کے تحت، پوسٹ گریجویشن ورک پرمٹ کے دورانیے کا انحصار سٹوڈنٹ کے مطالعاتی پروگرام کی مدت پر ہوتا تھا۔ اس سے ماسٹرز گریجویٹس کو کام کا تجربہ حاصل کرنے اور ممکنہ طور پر کینیڈا میں مستقل رہائش اختیار کرنے میں مشکلات پیش آتی تھیں۔ماہرین کا خیال ہے کہ ان اقدامات سے کینیڈا کی آبادی میں اضافے کے اثرات کو کم کرنے میں مدد مل رہی ہے مگر بیشتر کو شک ہے کہ اس سے ‘آبادی کے جال’ اور مکانات کی کمی کے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}