کینیڈا میں پاکستانی نژاد خاندان کا قتل: ’ملزم نے روایتی پاکستانی کپڑوں کی وجہ سے انھیں نشانہ بنایا‘

پاکستان

،تصویر کا ذریعہCOURTESY SABOOR KHAN

،تصویر کا کیپشن

کینیڈا میں ہلاک ہونے والے افضال خاندان کی ایک تصویر: (دائیں سے بائیں) سلمان افضال، ان کی 74 سالہ والدہ، اہلیہ مدیحہ افضال اور بیٹی یمنیٰ افضال

  • مصنف, ندین یوسف
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، ٹورونٹو

کینیڈا کے صوبہ اونٹاریو میں 2021 میں ایک پاکستانی نژاد مسلمان خاندان کے چار افراد کو گاڑی تلے روند کر ہلاک کرنے والا ملزم ’گھر سے یہ ارادہ کر کے نکلا تھا کہ وہ اپنی گاڑی سے کسی مسلمان خاندان کو روند ڈالے گا۔‘

واضح رہے کہ 22 سالہ کینیڈین شہری نیتھینیئل ویلٹمین کے خلاف اونٹاریو میں ونڈسر کی ایک عدالت میں دہشت گردی اور قتل کے الزام کے تحت مقدمہ چلایا جا رہا ہے جس کی سماعت کے دوران عدالت میں یہ انکشاف کیا گیا۔

نیتھینیئل ویلٹمین پر الزام ہے کہ 2021 میں انھوں نے جان بوجھ کر پاکستانی نژاد خاندان کو اپنے ٹرک سے اس وقت ٹکر مار کر ہلاک کر دیا جب وہ اونٹاریو میں لندن شہر میں شام کو پیدل چل رہے تھے۔ ملزم نے صحت جرم سے انکار کیا ہے۔

اس مقدمے کی خاص بات یہ ہے کہ کینیڈا کی تاریخ میں پہلی بار کسی جیوری کے سامنے سفید فام قوم پرستی کے تصور کو دہشت گردی سے جوڑا جا رہا ہے۔

دو سال قبل پیش آنے والے اس واقعے میں 46 سالہ فزیوتھریپسٹ سلمان افضل، ان کی اہلیہ اور پی ایچ ڈی کی طالبہ 44 سالہ مدیحہ سلمان، نویں جماعت کی طالبہ 15 سالہ یمنیٰ سلمان اور اُن کی 74 سالہ ضعیف دادی شامل تھیں۔ سلمان افضل کا نو سالہ بیٹا اس واقعے میں زخمی ہو گیا تھا۔

مقدمے کی سماعت کے دوران استغاثہ نے موقف اپنایا کہ نیتھینیئل ویلٹمین، جو اس وقت 20 سال کے تھے، ’نفرت اور سفید فام قومیت کے نظریے سے متاثر تھے‘ جب انھوں نے اپنے ٹرک سے افضل فیملی کو ٹکر ماری۔

پراسیکیوٹر سارہ شیخ نے سوموار کے دن اپنے ابتدائی دلائل میں 14 رکنی جیوری کے سامنے پیش ہو کر کہا کہ ’اس دن ملزم اپنے ذہن میں ایک ہی مقصد لے کر گھر سے نکلا تھا کہ مسلمانوں کو تلاش کرے اور قتل کر دے۔‘

پاکستان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے اس واقعے کے بعد کہا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ کینیڈا کے بیشتر شہری اس خوف سے واقف نہیں جو نسل پرستی کے خدشات کا شکار کینیڈین مسلمان محسوس کرتے ہیں

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

سارہ شیخ کا کہنا تھا کہ ملزم نے پولیس کو اس حملے کے بعد کہا تھا کہ ’میں جانتا ہوں میں نے کیا کیا ہے اور مجھے اس پر کوئی افسوس نہیں۔ میں مانتا ہوں کہ یہ دہشت گردی تھی۔ اس کا محرک 100 فیصد سیاسی تھا۔‘

سی بی سی نیوز کے مطابق سارہ شیخ نے جیوری کے سامنے دلائل میں کہا کہ ’اس نے خاندان کو روندنے کے لیے گاڑی کی رفتار تیز کی۔ آپ اس کے اپنے الفاظ سنیں گے کہ وہ ’پیڈل ٹو دی میٹل‘ (یعنی بھرپور رفتار) سے گاڑی چلا رہا تھا۔‘

استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ ملزم نے حملے سے دو ہفتے قبل ٹرک خریدا تھا جبکہ اس حملے کی منصوبہ بندی وہ تین ماہ سے کر رہا تھا۔

سارہ شیخ نے عدالت کو بتایا کہ حملہ آور کے فلیٹ سے ایک منشور ملا جس میں اس نے اپنی شناخت سفید فام قوم پرست کے طور پر کی۔

کینیڈا میں اس مقدمے پر قانونی ماہرین کی گہری نظر ہے کیونکہ امریکہ میں 11 ستمبر کے حملوں کے بعد بنائے جانے والے دہشت گردی کے قوانین کو پہلی بار کسی ایسے ملزم کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے جس نے ایک خاندان کو صرف اس لیے نشانہ بنایا کہ وہ مسلمان تھے۔

ویسٹرن اونٹاریو یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر انڈریو بوٹیریل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اگر استغاثہ اور حکومت کامیاب ہو گئے تو دہشت گردی کی تعریف کو وسعت ملے گی جو کئی اور مقدمات میں استعمال کی جا سکے گی۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر دہشت گردی کے الزامات ثابت نہ بھی کیے جا سکے تو جیوری ملزم کو قتل کے الزامات پر سزا دے سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

کینیڈا میں مسلمانوں کی نیشنل کونسل کے ترجمان عثمان کوئک کا کہنا تھا کہ اس مقدمے کی چند تفصیلات کو دہرایا جانا تکلیف دہ تھا

نیتھینیئل ویلٹمین کو چھ جون 2021 کو ہونے والے حملے کے کچھ ہی دیر بعد لندن کی پرانی مسجد کے قریب ایک پارکنگ پلازہ سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔

پولیس کے مطابق ملزم نے ہیلمٹ اور ایک جیکٹ پہن رکھی تھی جو ’بلٹ پروف جیکٹ جیسی‘ لگ رہی تھی۔

اس واقعے کے بعد کینیڈا میں جہاں مسلم کمیونٹی کو غمگین کر دیا تھا وہیں پورے ملک میں خوف بھی پھیل گیا تھا جس کے بعد ملک میں اسلاموفوبیا کے خلاف اقدامات اٹھانے کے مطالبات سامنے آئے۔

لندن فری پریس کے مطابق وفاقی پراسیکیوٹر سارہ شیخ نے دعوی کیا ہے کہ ’ملزم نے افضل خاندان کو اس لیے نشانہ بنایا کیوں کہ انھوں نے روایتی پاکستانی کپڑے پہن رکھے تھے۔‘

کینیڈا میں مسلمانوں کی نیشنل کونسل کے ترجمان عثمان کوئک بھی عدالت میں موجود تھے، جن کا کہنا تھا کہ اس مقدمے کی چند تفصیلات کو دہرایا جانا تکلیف دہ تھا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اب اس واقعے کو دو سال ہو چکے ہیں اور یہ پرانے زخموں کو کھولنے جیسا ہے۔‘

تاہم انھوں نے کہا کہ ’یہ مقدمہ اہم ہے کیونکہ کینیڈا میں پہلی بار اسلاموفوبیا سے جڑے تشدد کو دہشت گردی کا درجہ دیا جا رہا ہے۔‘

’یہ ایک پیغام ہے کہ حملہ آور کی نسل یا نظریہ کچھ بھی ہو، دہشت گردی کا الزام برابری کی سطح پر عائد ہو گا۔‘

اس مقدمے کی سماعت سپیریئر کورٹ جسٹس رینے پومرینس کر رہی ہیں جنھوں نے مقدمے کو لندن سے ونڈسر منتقل کیا جو 200 کلومیٹر دور ہے۔

ملزم کے وکلا کی جانب سے کچھ عرصہ بعد دلائل دیے جائیں گے۔ سوموار کو جج رینے پومرینس نے بتایا کہ ان کو توقع ہے کہ یہ مقدمہ آٹھ ہفتوں میں نمٹا دیا جائے گا۔

BBCUrdu.com بشکریہ