کینیڈا جانے والے تارکین وطن: ’جو سلوک، سکیورٹی اور تحفظ یہاں ملا، وہ شاندار ہے‘
- مصنف, آنڈریا ڈیاز کارڈونا
- عہدہ, بی بی سی منڈو نامہ نگار، مونٹریال
’جب میں امریکہ میں داخل ہوا تو انھوں نے میرے ساتھ ایک مجرم جیسا برتاؤ کیا۔ میں نے اپنی بیوی اور تین سالہ بیٹی کے ساتھ 18 گھنٹے حراست میں گزارے۔‘
کیون کا تعلق وینیزویلا سے ہے جو اپنے خاندان کے ساتھ مارچ 2022 میں امریکہ میں داخل ہوئے۔ ان کو ایک ایسے حراستی مرکز میں رکھا گیا جہاں کھڑکیاں نہیں تھیں۔ امریکی حکومت کی ہدایات کے مطابق اس مرکز میں تارکین وطن کو 72 گھنٹوں سے زیادہ نہیں رکھا جا سکتا۔
کیون بتاتے ہیں کہ ’انھوں نے ہم سب ہر چیز لے لی۔ وہاں آٹھ سو لوگ تھے۔ ہمیں رفع حاجت بھی وہیں کرنا پڑتی، سب کے سامنے۔‘
کیون نے اپنی کہانی مجھے مونٹریال میں سنائی۔ اس شہر نے ان کو اور ان کے خاندان کو خوش آمدید کہا ہے۔ گذشتہ دسمبر میں وہ نیو یارک سے کینیڈا چلے آئے تھے۔
’نیو یارک خوبصورت ہے اور بہت سے لوگوں کا خواب ہے لیکن وہاں عدم تحفظ کا ماحول ہے۔ وہاں آپ کما سکتے ہیں لیکن غیر قانونی طور پر۔ وہ کاغذ یعنی شہریت نہیں دیتے، اسی لیے میں کینیڈا آ گیا۔‘
بس اور پھر ٹیکسی پر 540 کلومیٹر کا سفر کرنے کے بعد وہ امریکہ کی سرحد پر موجود ایک غیر سرکاری راستے کے ذریعے کینیڈا میں داخل ہوئے جس کا استعمال ہزاروں افراد کرتے ہیں۔
کینیڈا کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2022 میں 40 ہزار افراد نے اس راستے کا استعمال کیا۔ 2021 میں یہ تعداد چار ہزار تھی۔
یہ اضافہ اتنا زیادہ اور غیر معمولی تھا کہ مارچ کے مہینے میں امریکی صدر جو بائیڈن اور کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے ’روکس ہیم روڈ‘ نامی اس راستے کو بند کرنے کا اعلان کیا۔
سڑک بند ہونے سے تین ماہ پہلے کیون اسے پار کر چکے تھے لیکن اس بار حراست میں ان کا تجربہ بلکل مختلف ثابت ہوا۔
’ہم وہاں پانچ راتیں رہے۔ وہ آپ کو ہر زبان میں بتاتے ہیں کہ اگر آپ غیر قانونی طریقے سے آئیں گے تو آپ کو گرفتار کر لیا جائے گا لیکن وہ بہت نرم دلی سے پیش آتے ہیں، وہ سامان اٹھانے میں بھی مدد کرتے ہیں۔‘
دو سرحدوں کا یہ مختلف تجربہ ہی دونوں ممالک کی امیگریشن پالیسی میں فرق واضح کرتا ہے اور یہی فرق لاطینی امریکہ سے بہت سے لوگوں کو امریکہ کا خواب دیکھنے کے بجائے کینیڈا کا خواب اپنانے میں مدد دے رہا ہے۔
ایک قانونی جنت
مونٹریال کینیڈا کے کیوبیک صوبے کا سب سے بڑا شہر ہے جس کی سرحد امریکہ کی نیویارک ریاست سے ملتی ہے۔
یہ کینیڈا کا وہ خطہ ہے جہاں اعداد وشمار کے مطابق تارکین وطن کی سب سے بڑی تعداد آ رہی ہے اور اس کی ایک وجہ روکس ہیم روڈ تھی۔
کیوبیک کی وزارت صحت سے منسلک ایک ادارہ، پی آر اے آئی ڈی اے، 60 سال سے تارکین وطن کی مدد کر رہا ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ اس کے پاس روزانہ 1200 افراد کے لیے جگہ ہوتی ہے لیکن کئی سال سے اس کے پاس جگہ نہیں بچتی۔
جن لوگوں کے لیے اس ادارے کے پاس جگہ باقی نہیں رہتی، ان کو حکومتی خرچے پر چلنے والے ہوٹلوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔
ڈیانا کولمبیا سے کینیڈا آئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’کینیڈا تارکین وطن سے بہت دوستانہ برتاؤ کرتا ہے۔ امریکہ بہت ظالم ملک ہے۔‘
مونٹریال میں موجود تارکین وطن میں یہ احساس مشترکہ ہے۔
اکثریت کا کہنا ہے کہ امریکہ میں وہ پیسے تو کما سکتے تھے لیکن ان کے پاس قانونی طور پر شہریت حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا اور نہ ہی ان کو ہیلتھ انشورنس مل سکتی تھی۔
وینیزویلا کے 45 سالہ ایڈوارڈو تین ماہ قبل مونٹریال پہنچے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے پیسہ نہیں، دستاویزات درکار ہیں۔ امریکہ آپ کو بند گلی میں دھکیل دیتا ہے، کینیڈا آپ کو انتخاب کرنے کا موقع دیتا ہے۔‘
کئی تارکین وطن نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ امریکہ میں قیام کے دوران وہ کمانے اور گھر والوں کو پیسہ بھجوانے میں کامیاب رہے۔ چند کا کہنا تھا کہ وہ ہفتے میں ایک ہزار ڈالر کما لیتے تھے لیکن انھوں نے کینیڈا کا رخ کیا جب ان کو معلوم ہوا کہ وہ قانونی طور پر یہاں رہ سکیں گے۔
محفوظ ملک
روایتی طور پر کینیڈا ایک ایسا ملک ہے جو تارکین وطن سے دوستانہ برتاؤ کے لیے پہچانا جاتا ہے۔
الیہانڈرو ہرنینڈیز شمالی امریکہ میں تارکین وطن پر کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لاطینی امریکہ سے کینیڈا تارکین وطن کے سفر کی طویل تاریخ موجود ہے جو 1970 میں چلی کے باشندوں سے شروع ہوئی۔ پھر 1980 میں خانہ جنگی کی وجہ سے لوگ آئے اور 2008 میں میکسیکو سے کثیر تعداد میں لوگ آئے۔
ان کے مطابق تارکین وطن کی یہ لہریں ان کے ملکوں کے سیاسی حالات کی وجہ سے آئیں۔ اسی وجہ سے کولمبیا اور وینیزویلا کے کافی لوگ کینیڈا کا رخ کر رہے ہیں۔
ان میں سے چند اقوام متحدہ کی ایجنسی کے ذریعے آئے لیکن اکثریت غیر قانونی طور پر سرحد تک پہنچ جاتی ہے جہاں ان کو حراست میں لے لیا جاتا ہے۔
2005 میں کینیڈا اور امریکہ کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت اگر کوئی شخص امریکہ سے گزر چکا ہے تو وہ کینیڈا میں جا کر پناہ حاصل کرنے کی درخواست نہیں کر سکتا۔
لیکن اس معاہدے میں ایک سقم موجود ہے کہ اگر وہ شخص کسی سرکاری چیک پوائنٹ سے گزرے بغیر کینیڈا پہنچ جاتا ہے تو پھر وہ پناہ حاصل کرنے کی درخواست دے سکتا ہے۔ اسی لیے لوگ روکس ہیم روڈ کا سفر کرتے ہیں اور کینیڈا پہنچ کر حراست میں لیے جانے پر پناہ کی درخواست دیتے ہیں۔
مارچ میں کینیڈا اور امریکہ نے طے کیا کہ اب اس طرح سے آنے والوں کو بھی فوری طور پر پناہ نہیں دی جائے گی اور ایسے شخص کو حراست سے قبل کم از کم 14 دن تک اس ملک کی زمین پر موجود رہنا ہو گا جس کے بعد وہ پناہ کی درخواست دینے کا اہل ہو گا۔
دوسری جانب امریکہ کی میکسیکو کے ساتھ جنوبی سرحد پر حالات کافی سخت ہیں۔ امریکی حکومت نے 2020 سے تارکین وطن کی آمد اور پناہ کی درخواستوں کی تعداد میں کمی لانے کے لیے سخت اقدامات اٹھائے ہیں۔
اب جو بھی ایسی درخواست دیتا ہے، اسے میکسیکو میں ہی رہنا پڑتا ہے۔ پہلے اس شرط کا اطلاق کیوبا، نکاراگوا اور وینیزویلا کے باشندوں پر نہیں ہوتا تھا تاہم اب ان شہریتوں کو بھی اس قانون میں شامل کر لیا گیا ہے۔
روکس ہیم روڈ
یہ بھی پڑھیے
کینیڈا کے بارے میں افواہیں
تارکین وطن کی بڑی تعداد جو امریکہ میں داخل ہونے میں کامیاب ہو جاتی ہے، شمال کا رخ کرتی ہے۔
29 سالہ ایلکس بتاتی ہیں کہ ان کے ساتھ امریکہ میں داخل ہونے کے بعد ٹیکساس کی پولیس نے برا برتاؤ کیا۔
وہ شکاگو میں نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں لیکن موسم سرما میں کام کے مواقع کم ہو گئے۔
’مجھے پتا چلا کہ کینیڈا جانے کا راستہ کھلا ہے اور وہاں جا کر چند ماہ بعد وہ آپ کو قانونی دستاویزات دے دیتے ہیں۔‘
اب وہ کئی ماہ سے مونٹریال میں موجود ہیں اور ان کو معلوم ہوا ہے کہ کینیڈا میں قانونی راستہ اتنا بھی سادہ نہیں۔
’آپ ایک افواہ کی وجہ سے چلے آتے ہیں اور آپ کو پتا چلتا ہے کہ یہاں ایسے لوگ بھی ہیں جن کو قانونی دستاویزات حاصل کرنے میں چار سال لگے۔‘
اگرچہ کینیڈا میں پناہ گزینوں کی امداد کی جاتی ہے لیکن یہ عمل تیز رفتار یا آسان نہیں۔ کئی درخواستیں رد بھی ہوتی ہیں اور یہ ایک طویل اور صبر آزما عمل ہوتا ہے۔
الیہینڈرو کا کہنا ہے کہ ’تارکین وطن کے کیسز کی جانچ پڑتال کے عمل میں کافی وقت لگتا ہے جس کا مطلب ہے کہ ایسے لوگوں کو یہ علم ہونے میں دو سے تین سال لگ سکتے ہیں کہ ان کو کینیڈا کی حکومت محفوظ شخص کا درجہ دے رہی ہے یا نہیں۔‘
ایک فوری مسئلہ رہائش حاصل کرنے کا بھی ہوتا ہے کیونکہ اگرچہ پناہ گزینوں کو شناختی دستاویزات اور رہائش کے لیے کچھ رقم دی جاتی ہے لیکن یہاں کرائے بڑھ چکے ہیں۔
ڈیانا کا کہنا ہے کہ ’یہ آسان نہیں، یہاں آپ سے بہت سی چیزیں مانگی جاتی ہیں اور ایک ماہ کا ڈیپازٹ دینا پڑتا ہے۔ کچھ لوگ بینک گارنٹی مانگتے ہیں یا پھر تنخواہ کا ثبوت۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جو آپ کے پاس نہیں ہوتیں۔‘
ایسے لوگ جن کے معاشی حالات اچھے نہیں ہوتے، ان کے لیے یہ عمل مایوسی کا باعث بنتا ہے کیونکہ امریکہ کی طرح یہاں فوری طور پر نوکری اتنی آسانی سے نہیں ملتی اور حکومت کی جانب سے ملنے والی رقم تمام ضروریات کے لیے کافی نہیں ہوتی۔
یہاں امریکہ کی طرح چوری چھپے کام کرنا مشکل ہے جس کی وجہ کینیڈا کا معاشی نظام اور ثقافتی معاملات ہیں۔
الیہینڈرو بتاتے ہیں کہ اب پہلے کی نسبت حکومتی قوائد زیادہ ہو چکے ہیں اور پھر ’ثقافتی طور پر یہاں درست اور غلط کی تمیز کی جاتی ہے۔‘
اس کے باوجود کئی لوگ غیر قانونی طور پر کام کرتے ہیں۔ امریکہ کی طرح ان کو کیش میں تنخواہ دی جاتی ہے جو حکومت سے چھپائی جاتی ہے تاکہ ٹیکس کی ادائیگی سے بھی بچا جا سکے اور حکومتی امداد بھی ملتی رہے لیکن اگر ایسے لوگ پکڑے جائیں تو ان کو ان کے ملک واپس بھیجا جا سکتا ہے۔
امریکہ واپسی
ان مسائل کی وجہ سے بہت سے لوگ امریکہ لوٹ سکتے ہیں۔
مقامی پریس کے مطابق رواں سال کے آغاز میں میکسیکو کا ایک شہری موسم سرما میں اونٹاریو داخل ہونے کی کوشش کرتے ہوئے ہلاک ہو گیا تھا۔ اس کے خاندان کا کہنا ہے کہ اس کے پاس بل ادا کرنے کے لیے کوئی رقم نہیں بچی تھی۔
چند دن قبل حکام نے مونٹریال کے قریب بہنے والے سینٹ لارنس دریا میں آٹھ لاشیں دریافت کیں۔ یہ رومانیہ اور انڈیا سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے جو امریکہ سے کینیڈا داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔
امریکی بارڈر پٹرول کے مطابق جنوری میں 367 لوگوں کو شمال سے جنوب کی جانب جانے کی کوشش کے دوران گرفتار کیا گیا۔ گذشتہ 12 سال میں کینیڈا سے امریکہ جانے کی کوشش کرنے والوں کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے۔
لاطینی امریکہ سے تعلق رکھنے والے چند لوگ کینیڈا میں صبر کے ساتھ اپنی دستاویزات کا انتظار کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
ڈیانا کا کہنا ہے کہ ’میں فرانسیسی سیکھ رہی ہوں اور میں چاہتی ہوں کہ حکومتی مدد پر زندہ نہ رہوں بلکہ کام کروں۔ میں چاہتی ہوں کہ کینیڈا نے مجھے جو کچھ دیا اس کے بدلے میں کام کروں اور کچھ واپس کر سکوں۔‘
دوسری جانب ایسے لوگ بھی ہیں جو نہیں جانتے کہ ان کو یہاں رکنا ہے یا امریکہ واپس جانا ہے کیونکہ پیسے کے بغیر وہ اپنے خاندان کی مدد نہیں کر سکتے۔
کیون کی اہلیہ کہتی ہیں کہ ’میری ماں وینیزویلا میں ہے۔ یہاں کوئی کام نہیں۔ اگر کوئی ہفتے میں دس ڈالر کما لے تو خوش قسمت ہوتا ہے۔‘
کیون کا کہنا ہے فی الحال وہ انتظار کریں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جو سلوک، سکیورٹی اور تحفظ مجھے کینیڈا میں ملا وہ شاندار ہے لیکن امریکی ڈالر زیادہ مضبوط کرنسی ہے اور یہاں ٹیکس بھی بہت زیادہ ہے۔‘
Comments are closed.