کینیڈا اور گوگل کی جنگ میں جیت کس کی ہو گی؟
- مصنف, نتالیا شرمان، رابن لیوینسن کنگ
- عہدہ, بی بی سی نیوز، نیویارک ،ٹورنٹو
فیس بک اور انسٹاگرام کی مالک کمپنی میٹا اور گوگل نے اپنے پلیٹ فارمز پر کینیڈا کی مقامی خبروں کو بلاک کرنے کی دھمکی دے دی ہے۔
گوگل اور میٹا کا یہ اعلان کینیڈا کی جانب سے ملک میں ایک بل منظور کرنے کے بعد سامنے آیا ہے جس کے تحت دونوں پلیٹ فارمز کو آن لائن مواد کی نشریات کے لیے ادائیگی پر مجبور کرنا ہے۔
ایسی صورتحال میں اب آگے کیا ہو سکتا ہے؟
کیوبیک میں فرانسیسی زبان میں شائع ہونے والے اخبار ’لا پریس‘ کے صدر پیری ایلیوٹ لیویسیور کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ انھوں نے کئی سالوں تک ٹیک کمپنیوں کے ساتھ ادائیگی کے لیے معاہدوں پر مذاکرات کی کوشش کی۔
ان کے مطابق انھیں یقین ہے کہ ’ٹیک کمپنیاں خبروں اور مضامین کے زور پر ڈیٹا اوراشتہارات کی مد میں ڈالرز کو ہضم کر رہے ہیں۔‘
انھوں نے بی بی سی کو بتایا، ’ سالہا سال سے وہ صاف انکاری ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آن لائن نیوز ایکٹ کے نام سے جانا جانے والا نیا قانون اس رجحان میں کمی لا کر صورت حال میں بہتری لائے گا اور اس سے حاصل ہونے والا فنڈ کاروبار میں لگایا جا سکتا ہے۔‘
اس نئے قانون کا مقصد گوگل اور میٹا کو خبر رساں اداروں کے ساتھ ادائیگی کے معاہدے طے کرنے پر مجبور کرنا ہے تاہم اگر دونوں فریق کسی معاہدے تک نہیں پہنچ سکے تو ملک کا براڈکاسٹ ریگولیٹر انھیں ثالثی پر مجبور کر سکتا ہے۔
پارلیمانی بجٹ کے آزاد نگران ادارے کے اندازوں کے مطابق اس اقدام سے سالانہ 300 ملین کنیڈین ڈالرز یا 256 ملین امریکی ڈالرز سے زیادہ آمدن ہو سکتی ہے جو ایک عام نیوز روم کو چلانے کے لیے درکار فنڈنگ کا تقریبا 30 فیصد ہے۔
تاہم اس قانون سے معاہدوں کا راستہ کھلنے کے بجائے لا پریس سمیت کینیڈا کی کم و بیش ہر نیوز آرگنائزیشن کو اب ایک ممکنہ بلیک آؤٹ کا سامنا ہو سکتا ہے کیونکہ ٹیک کمپنیز نے اس قانون پر عمل کرنے کے بجائے اپنے پلیٹ فارمز پر نیوزآرٹیکلز کے لنکس کو بلاک کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
میٹا کی جانب سے ابتدا سے ہی اس تجویز کی مخالفت سامنے آتی رہی ہے اور اب اس کا کہنا ہے کہ وہ آئندہ چند ماہ میں کینیڈا کے صارفین کے لیے اپنی نیوز سائٹس کو بلاک کرنا شروع کر دے گی۔
دوسری جانب گوگل اس سے قبل یورپ، آسٹریلیا اور دیگر ممالک میں خبر فراہم کرنے والوں کے ساتھ ادائیگی کے معاہدے کرتا آیا ہے تاہم رواں ہفتے اس نے کینیڈا کے موجودہ قانون کو ’ناقابل عمل‘ قرار دے دیا اور کہا کہ یہ ایکٹ چھ ماہ میں نافذ ہونے کے بعد ملک میں اپنی سرچ سے کینیڈا کی خبروں کے لنکس کو ہٹا دے گا۔
گوگل کا کہنا ہے کہ اسوقت ان کے تقریباً 150 سے زیادہ کینیڈا کے خبر رساں اداروں کے ساتھ معاہدے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق اس کی ٹریفک نے نیوز ویب سائٹس کو سالانہ ڈھائی سو ملین کنیڈین ڈالر کمانے میں مدد کی ہے۔
کمپنی نے ادائیگیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’ہم مزید کام کرنے کے لیے تیار ہیں تاہم ہم اسے اس طریقے سے نہیں کر سکتے جس سے ویب اور سرچ انجن کے کام کرنے کے طریقے متاثر ہوں اور مالی اعتبار سے بھی غیر یقینی صورتحال پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔‘
اس ماہ قانون کے منظور ہونے سے پہلے، وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے ٹیک فرمز کی طرف سے خبروں کو بلیک آوٹ کرنے کی ان دھمکیوں کو مسترد کر دیا تھا۔
فرانسیسی زبان میں شائع ہونے والے اخبار ’لا پریس‘ کے صدر پیری ایلیوٹ لیویسیور
اس سے قبل جون میں ان کا کہنا تھا ’حقیقت یہ ہے کہ یہ انٹرنیٹ کمپنیاں ادائیگیوں میں منصفانہ حصہ ادا کرنے کے بجائے مقامی خبروں تک کینیڈا کے باشندوں کی رسائی منقطع کر دیں گی۔ یہ ایک سنگین مسئلہ ہےاور اب وہ اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈوں کا سہارا لے رہے ہیں لیکن یہ کارگر نہیں ہو گا۔‘
ٹیک انڈسٹری کی تنظیموں نے اس کوشش کا موازنہ ’شیک ڈاؤن‘ سے کیا ہے لیکن لیواسور کہتے ہیں کہ میڈیا میں کوئی بھی اس کا حل نہیں ڈھونڈ رہا۔
ان کےمطابق ’ہم منصفانہ تجارتی معاہدے پر بات چیت کا موقع مانگ رہے ہیں تاہم ان کی اجارہ داری کے باعث ایسا ہو نہیں پا رہا۔‘
تو پھر آخر یہ تنازعہ کیوں کر حل ہو پائے گا
سینٹر فار جرنلزم اینڈ لبرٹی کی ڈائریکٹر کورٹنی راڈش کا کہنا ہے کہ زیرِ بحث رقوم ہر سال ٹیک کمپنیوں کی طرف سے بنائے گئے دسیوں بلین ڈالر کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر ہے لیکن یہی رقم صحافت کے لیے نئی زندگی ثابت ہو سکتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’دنیا بھر میں اس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ گوگل اور فیس بک کو ان خبروں کے لیے ادائیگی کرنی چاہیے جو وہ اپنے پلیٹ فارم پر استعمال کرتے ہیں۔ لوگوں کا ماننا ہے کہ جمہوریت کے بنیادی ستون کے طور پر صحافت کو تحفظ دینے کی ضرورت ہے۔‘
کینیڈا نے اپنے اصول کو اس اقدام کے مطابق بنایا جسے آسٹریلیا نے 2021 میں منظور کیا تھا۔ اس قانون نے اسی طرح کے اعتراضات اور مخالفت کو جنم دیا تھا جس نے میٹا کو وہاں پابندی عائد کرنے پر اکسایا۔
تاہم بل میں بعض تبدیلیوں کے بعد دونوں کمپنیوں کے پبلشرز کے ساتھ تقریبا 30 سے زیادہ سودے طے پائے جن کی مالیت 130 ملین ڈالر سے زیادہ کی تھی۔
اس قانون کو تیار کرنے والی آسٹریلیا کی مسابقتی ایجنسی کی قیادت کرنے والے ماہر اقتصادیات روڈنی سمز کا دعویٰ ہے کہ کمپنیاں اس بار بھی ایسا ہی کریں گی باوجود اس کے کہ میٹا کے سی ای او مارک زکربرگ پلیٹ فارم کو خبروں سے ذیادہ صارفین کے ذاتی مواد کے لیے مفید بنا رہے ہیں۔
انھوں نے اعتراف کیا کہ ’فیس بک کو یہ معاملہ زیادہ پسند نہیں لیکن خبروں کی غیر موجودگی میں سرچ فیچر موثر نہیں ہو سکتا اور میرے خیال میں فیس بک کو جلد پتہ چل جائے گا کہ خبروں کے بغیر آپ کو فیس بک فیڈ دینا بہت مشکل کام ہو گا۔ خبروں سے ہی ان کی سروس مکمل ہوتی ہے۔‘
گوگل، میٹا، ایپل اور دیگر ٹیک کمپنیوں کے ساتھ لائسنسنگ کے معاہدے کرنے والی فرم گلوب اینڈ میل کے چیف ایگزیکٹیو فلپ کرولی، نے سرچ (تلاش) کے لیے موجود وسیع تر تبدیلیوں کی طرف اشارہ کیا مثلاً چیٹ جی پی ٹی اور چیٹ بوٹ جو صارفین کے سوالات پر انھیں لنکس فراہم کرنے کے بجائے خود جواب دیتے ہیں۔
فلپ کرولی نے اس بل کی حمایت میں بات کرتے ہوئے ان خدشات کا اظہار بھی کیا کہ کینیڈا کے براڈکاسٹ ریگولیٹر کو دی گئی بعض طاقتوں سے پریس کی آزادی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
’دنیا ایک مختلف جگہ پر ہے لہذا مجھے نہیں لگتا کہ آسٹریلیا میں ماڈل ایسا ہے کہ ہمیں اس سے اب بہت زیادہ رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ وہ تب تھا اور اب یہ ہے۔‘
گوگل اور میٹا کا کہنا ہے کہ کینیڈا کا قانون کئی معنوں میں آسٹریلیا سے مختلف ہے۔ ان کے مطابق آسٹریلیا کے قانون کی ایک حاص بات یہ ہے کہ کمپنیاں سب کے ساتھ ڈیل کیے بغیر ریگولیٹرز کو مطمئن کر سکتی ہیں اس کے برخلاف کینیڈا میں ایسا کچھ بھی نہیں۔ یہ مواد کی مزید اقسام کو بھی منظم کرتا ہے۔
گوگل کا کہنا ہے کہ اس نے کوشش کی کہ اس بل کی منظوری سے پہلے حکومت کے سامنے اپنے خدشات کو اٹھائے۔
کمپنی کے زرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ اگرچہ قانون کی منظوری کے بعد حکومت بات چیت کی میز پرواپس آگئی، لیکن وقت گزرنے کے بعد بات چیت سے مسائل کو حل کرنے کی کوشش میں بہت تاخیر ہو چکی تھی۔
کینیڈا کے ٹیک قانونی سکالراور مذکورہ بل کے نامور نقاد مائیکل گیسٹ کا کہنا ہے کہ حکومت نے میٹا کے بزنس میں تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے غلط اندازہ لگایا ہے۔
’کمپنی نے کہا ہے کہ گزشتہ چھ سالوں میں خبروں کے لیے فیس بک استعمال کرنے والے بالغ افراد کا تناسب تقریباً ایک تہائی کم ہو گیا ہے اور اس کے صارفین کے سروے سے بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ پلیٹ فارم پر کم خبریں دیکھنا چاہتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’حکومت نے یہ حقائق کیوں نظر انداز کیے؟ وہ خبروں سے باہر نکلنا چاہیں گے۔‘
دوسری جانب گوگل نے کہا ہے کہ وہ ریگولیٹری عمل میں حصہ لینا جاری رکھے گا، جسے حل کرنے میں مہینوں لگ سکتے ہیں اور بہت سے نیوز رومز کو مزید مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
کرولی نے گزشتہ ماہ پارلیمنٹ کو بتایا کہ کینیڈا کے اخبار گلوب اینڈ میل میں گوگل کا 30 فیصد ٹریفک ہے اوراب وہ اپنی آمدنی کا دو تہائی سبسکرپشنز سے حاصل کرتا ہے۔
فرانسیسی زبان کے اخبار لو دی ووغ (Le Devoir) کے لیے گوگل پر 40 فیصد ٹریفک آیا ہے جبکہ تقریباً 30 فیصد سوشل میڈیا سے آتا ہے۔
میٹا پہلے ہی کینیڈا میں پبلشرز کے ساتھ ہونے والے بزنس کو منسوخ کرنے کے لیے قدم بڑھا رہا ہے۔ ان ڈیلز کی مالیت لاکھوں ڈالر ہوسکتی ہے۔
پیری ایلیوٹ لیویسیور نے اعتراف کیا کہ ٹیک کمپنیوں کی جانب سے اس بلیک آؤٹ کا اثرلا پریس پر پڑے گا، جو اس وقت منافع میں ہے اور بڑے پیمانے پر اشتہارات اور قارئین کے عطیات سےاس کے فنڈز پورے ہوتے ہیں تاہم انھوں نے امید ظاہر کی کہ ان کے یومیہ 1.4 ملین قارئین ایڈجسٹ ہو جائیں گے کیونکہ ٹیک کمپنیز کی یہ ہلچل بھی خبروں کے کاروبار میں ہونے والی دیگر ہلچل کی طرح ہی ثابت ہو گی۔
’جب ہم نے (کاغذ پر چھپے ) اخبار کو ختم کیا تواس وقت اشتہارات کی آمدنی کم ہو رہی تھی تاہم اب اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جب ہم اس وقت ایڈجسٹ کرنے کے قابل تھے تو مجھے یقین ہے کہ ہم مستقبل میں بھی ایڈجسٹ کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔‘
Comments are closed.