سکھ فار جسٹس کے زیر اہتمام کینیڈا میں خالصتان کے قیام کے لیے ریفرنڈم آج وینکوور شہر میں گرو نانک سکھ گوردوارہ میں ہوگا۔
اس حوالے سے صدر کونسل آف خالصتان ڈاکٹر بخشیش سنگ سندھو کا کہنا ہے کہ یہ ریفرنڈم اسی جگہ ہورہا ہے جہاں بھارت نے ہردیپ سنگھ نجھر کو قتل کروایا۔
انہوں نے کہا کہ لاکھوں کی تعداد میں کینڈین سکھ آزاد خالصتان کے لیے ووٹ دیں گے، کینیڈا کے وزیراعظم نے بھی واضح طور پر کہا ہے کہ بھارت کینیڈا کے معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔
ڈاکٹر بخشیش سنگ سندھو کا کہنا تھا کہ ہم بھارت کے بھیانک چہرے کو دنیا کے سامنے لانے پر جسٹن ٹروڈو کے شکر گزار ہیں، خالصتان ریفرنڈم میں ایک ملین سے زائد سکھ دنیا بھر سے ووٹ ڈال چکے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارت کچھ بھی کرلے لیکن وہ سکھوں کی تحریک کو روک نہیں سکتا، نریندر مودی مسلمانوں، سکھوں اور دیگر اقلیتوں کا دشمن ہے۔
ریفرنڈم کے حوالے سے سکھ فار جسٹس کا کہنا ہے کہ وینکوور میں آج ہونے والے ریفرنڈم میں سکھوں کی ریکارڈ تعداد شرکت کرے گی۔
دوسری جانب وینکوور میں ہونے والے ریفرنڈم میں ہزاروں سکھوں کی آمد متوقع ہے، کینیڈا میں تقریباً ساڑھے سات لاکھ سے زائد سکھ آباد ہیں، یہ تعداد بھارت کے بعد کسی ملک میں رہنے والے سکھوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
خالصتان کے حامیوں کے مطابق کینیڈا میں سکھوں کی تعداد 10 لاکھ سے بھی زائد ہے۔
خالصتان کے قیام کے لیے دنیا بھر میں آباد سکھوں کی رائے جاننے کے لیے ریفرنڈم کا آغاز 2021 میں لندن سے ہوا تھا، لندن میں اکتوبر 2021 میں ہونے والے پہلے ریفرنڈم میں 30 ہزار سے زائد سکھوں نے شرکت کرکے ووٹ ڈالا تھا۔
سکھ فار جسٹس کے زیراہتمام دنیا کے دو درجن سے زائد شہروں میں ریفرنڈم کا انعقاد ہوچکا ہے، برطانیہ کے پانچ شہروں کے علاوہ پیرس، اٹلی، سوئٹزرلینڈ سمیت کینیڈا اور آسٹریلیا کے تین تین شہروں میں بھی ریفرنڈم ہوچکا ہے۔
ریفرنڈم کے ذریعے سکھ، بھارت سے آزادی حاصل کرکے اپنا علیحدہ وطن خالصتان حاصل کرنا چاہتے ہیں، پنجاب یونیورسٹی کے لا گریجویٹ گرپتونت سنگھ پنوں 2007 میں بننے والے سکھ فار جسٹس کی قیادت کر رہے ہیں۔
گرپتونت سنگھ پنوں امریکا میں بطور اٹارنی پریکٹس کر رہے ہیں، 2018 میں گروپ نے ریفرنڈم 2020 کا اعلان کیا تھا۔
خالصتان کے قیام کی بنیاد 1984 میں بھارت نے سکھوں کے مذہبی مقام گولڈن ٹیمپل پر حملہ کرکے رکھ دی تھی، بھارتی مظالم سے بچنے کے لیے سکھوں کی بڑی تعداد نے برطانیہ، کینیڈا، اٹلی اور امریکا میں پناہ لی تھی۔
مودی حکومت میں بھی بھارت میں سکھوں کی نسل کشی اور ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ جاری ہے، بھارتی مظالم کے خلاف سکھ فار جسٹس جیسی تنظیمیں دنیا کے مختلف ممالک میں آواز بلند کرتی رہتی ہیں۔
جمہوری اقدار کے مطابق بھارت کو سکھ ریفرنڈم کے نتائج کو تسلیم کرنا ہوگا، تاکہ سرکاری ریفرنڈم کی راہ ہموار ہوسکے، بھارت آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والی اقلیتوں کے حقوق تسلیم کرنے اور انہیں حق خودارادیت دینے سے مسلسل انکاری ہے۔
Comments are closed.