کینیا میں معمر افراد کو جادوگر قرار دے کر قتل کیوں کیا جا رہا ہے؟
،تصویر کا کیپشنکسان تمبالا جفوا کی ایک حملے کے باعث صرف ایک آنکھ باقی بچی ہے

  • مصنف, نجیری موانگی کلیفی کاؤنٹی میں اور تماسن فورڈ لندن میں
  • عہدہ, بی بی سی افریقہ آئی
  • ایک گھنٹہ قبل

بی بی سی افریقہ آئی کی تحقیق کے مطابق جادو ٹُونے کے الزامات پر عمر رسیدہ افراد کی ایک بڑی تعداد کو کینیا کی کلیفی ساحلی پٹی کے گرد قتل کیا جا رہا ہے۔ اس تحقیق کے دوران ان ہلاکتوں کے پیچھے اصل وجوہات کے بارے میں بھی معلوم ہو سکا ہے۔تمبالا جیفوا جن کی عمر 74 برس ہے ان کی ایک آنکھ کی بینائی نہیں ہے جبکہ وہ دوسری آنکھ سے سامنے دیکھ رہے ہیں جبکہ ان کی اہلیہ سڈی آرام سے ان کی قمیض اتار رہی ہیں۔ ’انھوں نے ان کے جسم میں خنجر گھونپا اور پھر باہر نکال دیا۔‘ سڈی نے یہ بات کہتے ہوئے تمبالا کی چھاتی پر موجود نشان کی جانب اشارہ کیا جو ان کی ہنسلی کی ہڈی سے نیچے کی جانب موجود تھا۔

وہ ایک اور حملے کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے اپنے سر کو اپنے ہاتھوں میں تھام لیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’انھیں ان کے سر کے زخمی حصے پر ٹانکے لگائے گئے ہیں۔‘تمبالا پر ایک جادوگر ہونے کا الزام عائد کر کے ان کے گھر پر دو مرتبہ حملہ کیا جا چکا ہے جو مالندی کے ساحلی ٹاؤن سے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ ان پر ہوئے پہلے حملے میں ان کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی تھی جبکہ دوسرا حملہ جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا تھا تاہم تمبالا جیفوا بال بال بچے۔ دونوں میاں بیوی کی ملکیت میں 30 ایکڑ زمین موجود ہے جہاں وہ مکئی اگاتے ہیں اور اپنی کچھ مرغیاں پالتے ہیں۔ اس اراضی کی ملکیت کو لے کر خاندان میں اختلافات موجود ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ ہی تمبالا جیفوا پر حملے کی اصل وجہ ہیں اور ایسا نہیں تھا کہ لوگ واقعی مانتے تھے کہ وہ بھوت یا جادوگر ہیں۔ جیفوا کہتے ہیں کہ ’مجھے مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا۔ میرا بہت زیادہ خون بہہ چکا تھا۔ مجھے یہ معلوم نہیں ہے کہ انھوں نے مجھ پر حملہ کیوں کیا، لیکن یہ صرف زمین کا معاملہ ہی ہو سکتا ہے۔‘

،تصویر کا کیپشنسڈی جفوا اپنے شوہر کو آنے والے زخموں کے بعد جسم پر موجود نشانات کی نشاندہی کر رہی ہیں
جادو ٹونے اور توہم پرستی پر یقین بہت سے ممالک میں عام ہے۔ لیکن کینیا، ملاوی، تنزانیہ اور جنوبی افریقہ کے کچھ حصوں میں، اسے ان کی زمین پر قبضہ کرنے کے لیے معمر افراد کو قتل کرنے کا جواز پیش کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔کینیا کی انسانی حقوق کی تنظیم ہاکی یتو کی جانب سے ’دی ایجڈ آن ایج‘ نامی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہر ہفتے کیلیفی کے ساحل پر جادو ٹونے کے نام پر ایک معمر شخص کو قتل کر دیا جاتا ہے۔تنظیم کے پروگرام آفیسر جولیس وانیاما کا کہنا ہے کہ بہت سے خاندانوں کا کہنا ہے کہ یہ ان کا اپنا ایک شخص ہے جو اس قتل کا حکم دیتا ہے۔وہ جادو ٹونے کا لفظ جواز کے طور پر استعمال کرتے ہیں تاکہ انھیں عوامی ہمدردی ملے گی اور لوگ کہیں گے کہ اگر وہ جادوگر تھا تو اچھا ہے کہ تم نے اسے قتل کر دیا۔اس علاقے کے بہت کم لوگوں کے پاس اپنی زمین کے مالکانہ حقوق ہیں۔ یہ بغیر کسی وصیت کے روایتی طور پر خاندان میں منتقل کرنے پر بھروسہ کرتے ہیں۔وانیاما کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے 10 میں سے سات عمر رسیدہ افراد ہیں کیونکہ زمین کی ملکیت اور وراثت ان کے پاس ہے۔’تاریخی طور پر یہاں کیلیفی کے لوگوں کے پاس (زمین) کی دستاویزات نہیں ہیں۔ ان کے پاس واحد دستاویز ان بزرگوں کا بیانیہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر مرد مارے جا رہے ہیں کیونکہ ایک بار جب آپ انھیں مار دیتے ہیں تو آپ رکاوٹ دور کر دیتے ہیں۔‘
،تصویر کا کیپشندونوں میاں بیوی کا ماننا ہے کہ دونوں حملوں کے پیچھے ان کے اپنے خاندان کا ہاتھ ہے۔
جیفوا خاندان کی زمین سے تقریبا ایک گھنٹے کی مسافت پر، مالندی ڈسٹرکٹ ایسوسی ایشن، کے تحت بزرگوں کے لیے ایک امدادی مرکز قائم ہے۔یہ تقریبا 30 بزرگ افراد کا گھر ہے جن پر حملہ کیا گیا ہے اور وہ اپنی زمین پر واپس جانے سے قاصر ہیں۔تریسٹھ سالہ کٹانا چارا جو اپنے عمر سے کہیں زیادہ بوڑھے نظر آتے ہیں تقریباً 12 مہینے سے یہاں ہیں۔ اپریل 2023 میں ان کے بیڈروم میں چاقو سے حملہ کرنے کے بعد انھیں مرکز میں منتقل ہونا پڑا تھا۔ان کا ایک ہاتھ کلائی سے کٹا ہوا تھا اور دوسرا کہنی کے اوپر۔ وہ اب کام نہیں کر سکتے اور انھیں بنیادی کاموں کے لیے مدد کی ضرورت ہوتی ہے، کھانا کھلانے اور دھونے سے لے کر خود کپڑے پہننے تک۔‘وہ کہتے ہیں ’میں اس شخص کو جانتا ہوں جس نے میرے ہاتھ کاٹے لیکن اس کے بعد سے ہم کبھی آمنے سامنے نہیں ملے۔‘چارا پر ایک اور شخص کے بچے کی موت کے بعد جادوگر ہونے کا الزام عائد کیا گیا تھا لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان پر حملے کی اصل وجہ ان کی چھ ایکڑ زمین تھی۔’میرا جادو ٹونے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ میرے پاس زمین کا ایک ٹکڑا ہے اور وہ سمندر کے کنارے ہے۔ یہ کافی بڑی زمین ہے۔‘
،تصویر کا کیپشنکٹانا چارا اب ایک شیلٹر میں رہتے ہیں کیونکہ وہ اب اپنا خیال نہیں رکھ سکتے۔
چارا کے خاندان کے بہت سے افراد سے اس حملے کے بارے میں پوچھ گچھ کی گئی تھی لیکن کسی پر کبھی مقدمہ نہیں چلایا گیا تھا۔سماجی کارکن وانیاما ان کے لیے انصاف حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ’بزرگوں کے قتل کے الزام میں بہت کم لوگوں پر فرد جرم عائد کی گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ قتل میں ملوث اہم لوگ بھی محسوس کرتے ہیں کہ وہ آزاد ہیں۔‘کئی ماہ کی تحقیقات کے بعد بی بی سی افریقہ آئی ایک سابق ہٹ مین کا سراغ لگانے میں کامیاب رہا جس کا دعویٰ ہے کہ اس نے تقریبا 20 افراد کو ہلاک کیا تھا۔ان کا کہنا ہے کہ انھیں ہر قتل کے لیے کم از کم 50 ہزار کینیائی شلنگ یعنی 400 ڈالر ادا کیے جاتے تھے۔انھوں نے بی بی سی افریقہ آئی کو بتایا کہ ’اگر کوئی کسی بوڑھے شخص کو قتل کرتا ہے تو جان لو کہ اس کے گھر والوں نے اس کی قیمت ادا کی ہے۔ یہ ان کا خاندان ہوتا ہے۔‘جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کس طرح اور کیوں کسی کی جان لیتے ہیں تو ان کا جواب تھا ’ہو سکتا ہے کہ میں نے کچھ برا کیا ہو کیونکہ مجھے نوکری دی گئی تھی اور میں نے قتل کیا لیکن قوانین کے مطابق، خدا کے مطابق، جس شخص نے مجھے بھیجا ہے وہ مجرم ہے۔‘کینیا کے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے فروری 2023 میں اقوام متحدہ میں ایک دستاویز پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا ’مغربی کینیا میں کیسی اور ساحلی کینیا کی کیلیفی کاؤنٹی جیسے علاقوں میں جادوگروں کو جلانے، قتل کرنے اور جسمانی حملے بہت زیادہ ہیں۔اس میں مزید کہا گیا ہے کہ خاندان کی زمین حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے خاندان کے نوجوان افراد قتل کے پیچھے ایک اہم محرک عنصر ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قحط کے دوران جب آمدنی کے ذرائع نایاب ہو جاتے ہیں تو حملوں اور ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔وانیاما کا کہنا ہے کہ زمین پر قبضے کو جائز ٹھہرانے کے لیے جادو ٹونے کے الزامات کو استعمال کرنے والے قتل ایک ’قومی تباہی‘ بن چکے ہیں۔انھوں نے کہا ’یہ ایک علاقائی مسئلے کے طور پر شروع ہوا تھا، لیکن اب یہ بڑھ گیا ہے۔۔۔ اگر ہم اس پر توجہ نہیں دیتے ہیں تو ہم بزرگوں کے اپنے آرکائیوز کھو رہے ہیں۔ یہ واحد زندہ آرکائیو ہیں جن پر ہم یقین کر سکتے ہیں۔‘روایتی افریقی ثقافت میں بزرگوں کا ان کی حکمت اور علم کے لیے احترام کیا جاتا ہے۔ کیلیفی میں یہ اس کے برعکس ہے۔بوڑھے لوگ ہدف بننے سے اس قدر ڈرتے ہیں کہ بہت سے لوگ جوان نظر آنے کی کوشش میں اپنے بالوں کو رنگتے ہیں۔جادو ٹونے کا الزام لگنے کے بعد اس علاقے میں کسی کا زندہ رہنا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔اگرچہ چارا اب محفوظ ہیں لیکن وہ بزرگوں کے ریسکیو سینٹر میں رہتے ہیں، لیکن جیفوا جیسے مردوں کے لیے حقیقی خوف ہے کہ جس نے بھی انھیں قتل کرنے کی کوشش کی وہ دوبارہ بھی آ سکتا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}