کینیا: ’مذہب کے نام پر فاقہ کشی‘ کی تحقیقات کے دوران 47 لاشیں برآمد

keneya

،تصویر کا ذریعہREX/SHUTTERSTOCK

کینیا میں پولیس کو ساحلی قصبے مالندی کے قریب سے ایک گروہ کی تفتیش کے دوران 47 لاشیں ملی ہیں۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق ایک مذہبی رہنما نے مبینہ طور پر اپنے پیروکاروں کو تبلیغ کے دوران فاقہ کشی سے مرنے کی ہدایات کی تھیں۔

پولیس کے مطابق بھوک سے ہلاک ہو کر مرنے والوں میں بچے بھی شامل ہیں جبکہ اس وقت بھی لاشیں نکالے جانے کا عمل جاری ہے۔

ان افراد کی قبریں شکاہولا نامی جنگل سے ملی ہیں جہاں سے گزشتہ ہفتے گڈ نیوز انٹرنیشنل چرچ کے 15 ارکان کو ریسکیو کیا گیا تھا۔

چرچ کے رہنما پال میکنزی نتھینگ کو پلولیس نے حراست میں لے لیا ہے اور عنقریب ان کو عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

کینیا کے سرکاری نشریاتی ادارے کے بی سی نے انھیں ایک ’گروہی لیڈر‘ کے طور پر بیان کرتے ہوئے کہا کہ اب تک 58 قبروں کی شناخت ہو چکی ہے۔

تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ایک قبر میں ایک ہی خاندان کے پانچ افراد کی لاشیں پائی گئی ہیں جن میں تین بچے اور ان کے والدین شامل ہیں۔

دوسری جانب نتھینگ نے ان الزامات سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے 2019 میں اپنا چرچ بند کر دیا تھا تاہم ان کی تاحال ضمانت نہیں ہو سکی۔

ان پر الزام ہے کہ انھوں نے اپنے پیروکاروں سے کہا تھا کہ وہ ’حضرت عیسیٰ سے ملنے‘ کے لیے خود کو فاقہ کشی میں رکھیں۔

کینیا کے روزنامہ دی سٹینڈرڈ کا کہنا ہے کہ مرنے والوں کے ڈی این اے سیمپل لیے جائیں گے، جس میں اس بات کا تعین کیا جائے گا کہ آیا متاثرین کی موت بھوک سے ہوئی۔

چار افراد کی لاشیں ملنے کے بعد نیتھنگ کو 15 اپریل کو گرفتار کیا گیا تھا۔

مالندی کے سوشل جسٹس سینٹر کے وکٹر کواڈو نے سٹیزن ٹی وی کو اپنے بیان میں بتایا کہ ’اس جنگل میں جب ہم ایک ایسے علاقے میں داخل ہوئے جہاں ہمیں ایک بڑا اور لمبا کراس نظر آتا ہے تو ہمیں معلوم ہوا کہ وہاں پانچ سے زیادہ لوگ دفن ہیں۔‘

کینیا کے وزیر داخلہ کیتھورے کنڈیکی نے کہا ہے کہ 800 ایکڑ پر محیط جنگل کو کرائم سین قرار دے کر سیل کر دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ کینیا ایک مذہب پسند ملک ہے اور یہاں پہلے بھی لوگوں کو خطرناک، غیر منظم گرجا گھروں یا فرقوں کی طرف راغب کیے جانے کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ