کینیا: برقعے میں ملبوس ایک مرد کی خواتین کے شطرنج مقابلے میں شرکت کی ’دلیرانہ چال‘

اومونڈی
،تصویر کا کیپشن

سٹینلے اومونڈی نے خود کو ملیسینٹ اوور کے نام سے رجسٹر کرایا تھا

کینیا کے ایک 25 سالہ شطرنج کھلاڑی نے خاتون کا بھیس بدل کر اپنے ملک کی خواتین کی اوپن شطرنج ٹورنامنٹ میں حصہ لینے کے لیے ایک دلیرانہ چال چلی۔

سر سے پاؤں تک برقع میں ملبوس اور آنکھو پر عینک ڈال کر سٹینلے اومونڈی نے خود کو ملیسینٹ اوور کے نام سے رجسٹر کرایا تھا۔

لیکن اومونڈی کی جرات مندانہ حرکت بے نقاب ہو گئی کیونکہ منتظمین کو نامعلوم کھلاڑی کی کامیابی پر شک ہو گیا۔

بعد میں اپنے دفاع میں انھوں نے ایک معذرت خواہانہ خط لکھا جسے بی بی سی نے دیکھا ہے۔ اس میں انھوں نے لکھا کہ انھوں نے ’مالی مجبوریوں‘ کے تحت ایسا کیا تھا۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ’ہر سزا قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘ لیکن اومونڈی نے تبصرہ کے لیے بی بی سی کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

کینیا میں چیس کینیا کے صدر برنارڈ ونجالا نے کہا کہ اگرچہ ان پر ’کئی سال کی پابندی‘ لگنے کا امکان ہے، لیکن انھیں شطرنج سے ہمیشہ کے لیے باہر نہیں کیا جا سکتا۔

ونجالا نے بی بی سی سپورٹ افریقہ کو بتایا: ’ہمیں پہلے تو کوئی شک نہیں ہوا تھا، کیونکہ حجاب پہننا معمول کی بات ہے۔

’لیکن وقت کے ساتھ ہم نے دیکھا کہ اس نے بہت مضبوط کھلاڑیوں کے خلاف کامیابی حاصل کی۔۔۔ اور کسی نئے شخص کے لیے جس نے کوئی ٹورنامنٹ نہ کھیلا ہو یہ ممکن نہیں (کہ وہ اتنا مضبوط ہو۔)‘

اومونڈی

،تصویر کا کیپشن

حکام کا کہنا ہے کہ یہ اس قسم کا پہلا معاملہ ہے جو ان کے سامنے آیا ہے

جوتے اور نہ بولنے نے شبہات پیدا کیے

اس کے جوتے اور حقیقتا اس کے بات نہ کرنے نے تشویش میں اضافہ کیا۔

ونجالا نے کہا: ’ہم نے خطرے کے نشان کے طور پر یہ محسوس کیا کہ انھوں نے زنانہ سے زیادہ مردانہ جوتے پہنے ہوئے تھے۔

’ہم نے یہ بھی دیکھا کہ وہ بات نہیں کر رہا تھا، یہاں تک کہ جب وہ اپنا ٹیگ لینے آیا تو اس نے بات نہیں کی۔ عام طور پر جب آپ کھیل رہے ہوتے ہیں تو آپ اپنے مخالف سے بات کرتے ہیں۔۔۔ کیونکہ شطرنج کا کھیل دوستی ہے جنگ نہیں۔

تحفظات اور خدشات کے باوجود، عہدیداروں نے انھیں کھیلنا جاری رکھنے کی اجازت دی۔ انھیں یہ بھی خوف تھا کہ اگر وہ کچھ کرتے ہیں تو ان پر مذہبی لباس کی وجہ سے حرکت کرنے کا الزام لگایا جائے گا لیکن پھر چوتھے دور میں انھیں نکال دیا گیا۔‘

ونجالا کے مطابق: ’جب بہت مضبوط میچ جیت کر وہ اگلے راؤنڈ کی جانب بڑے تو ہم نے انھیں بلایا، تو وہ حیران نہیں ہوئے۔’

یہ بھی پڑھیے

’انھوں نے تسلیم کیا کہ واقعی وہ ایک مرد ہیں۔ جو کچھ ہوا انھیں اس پر افسوس ہے، انھوں نے معافی مانگی اور کہا کہ وہ انھوں نے ایسا صرف اس لیے کیا ہے کہ انھیں مالی مشکلات کا سامنا تھا اور سوچا کہ ٹائٹل جیتنے سے اس پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔‘

کینیا اوپن گذشتہ ہفتے منعقد ہوا اور یہ کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں ہونے والا ایک سالانہ مقابلہ ہے۔

رواں سال کے ایڈیشن میں 22 ممالک کے 400 سے زیادہ کھلاڑی شامل ہوئے۔ خواتین کے زمرے میں ننانوے رجسٹرڈ تھے جہاں فاتح کو 3,000 امریکی ڈالر سے زیادہ کی رقم گھر لے جانا تھی۔

اومونڈی شطرنج کے ایک معروف کھلاڑی ہیں، لیکن ونجالا کا خیال ہے کہ ٹورنامنٹ کے مردوں کے حصے میں کھیل کے اعلیٰ معیار کے پیش نظر خواتین کے زمرے میں ان کی مشکلات کم ہوں گی۔

اب جبکہ کینیا کی شطرنج فیڈریشن اس سے پہلے بھی عمر کے معاملے میں دھوکہ دہی کے معاملات سے نمٹ چکی ہے یہ اس قسم کی دھوکہ دہی کا اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔

یہ معاملہ اس تنظیم کی انضباطی کمیٹی کے پاس بھیج دیا گیا ہے جو کہ آئندہ چند روز میں فیصلہ سنائے گی۔

ونجالا نے وضاحت کی کہ ’یہ ایک انتہائی قسم کا معاملہ ہے، فیصلے میں پابندی بھی شامل ہو سکتی ہے۔ میں تاحیات پابندی کو مسترد کرتا ہوں، لیکن ان پر شطرنج کھیلنے پر کئی سال کی پابندی لگ سکتی ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ اس معاملے کو بین الاقوامی فیڈریشن کے سامنے بھی بھیجا جائے گا۔

BBCUrdu.com بشکریہ