کیتھی کلینر روبن، امریکہ کے خطرناک ترین سیریل کِلر ’ٹیڈ بنڈی‘ کے حملے سے کیسے بچ نکلیں،تصویر کا ذریعہKATHY KLEINER RUBIN
،تصویر کا کیپشنکیتھی نے موت کو تین بار انتہائی قریب سے دیکھا ہے
24 منٹ قبلآپ نے شاید کیتھی کلینر روبن کے بارے میں نہ سنا ہو لیکن عین ممکن ہے کہ آپ نے اس شخص کے بارے میں سنا ہوگا جس نے انھیں قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔ اگر اس دنیا میں کوئی ایسا شخص ہے جو بار بار زندہ بچ نکلا تو وہ کیتھی ہیں۔موت کے ساتھ ان کی پہلی ملاقات 12 سال کی عمر میں ہوئی تھی جب ان میں آٹو امیون جیسی دائمی بیماری لیوپس کی تشخیص ہوئی تھی اور انھیں کیموتھراپی کے علاج سے گزرنا پڑا۔صحت یاب ہونے کے بعد جب وہ سنہ 1978 میں فلوریڈا سٹیٹ یونیورسٹی میں اپنی زندگی سے لطف اندوز ہو رہی تھیں تو ایک رات ایک اجنبی ان کی ڈورمیٹری میں داخل ہوا۔ وہ اجنبی کوئی اور نہیں بلکہ اپنے زمانے کا بدنام زمانہ سیریل کلر ٹیڈ بنڈی تھا۔

اس کے بعد جو ہوا وہ ایک خوفناک حملہ تھا جس میں ان کے کمرے کی دو ساتھی ماری گئیں جبکہ کیتھی اور ان کی ایک روم میٹ شدید زخمی ہوگئیں۔اس سانحے کے بعد کیتھی نے ایک عام زندگی گزارنے کے لیے اس قدر عزم کا مظاہرہ کیا کہ ان کے بیٹے کو 37 سال کی عمر تک یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ان کی والدہ پر بونڈی نے حملہ کیا تھا۔کیتھی نے اپنی زندگی کے بارے میں ایمیلی لی بیو لوچیسی کے ساتھ ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ’اے لائٹ ان دی ڈارک: سروائیونگ موور دین ٹیڈ بنڈی‘ ہے۔انھوں نے بی بی سی ورلڈ سروس کے آؤٹ لک پروگرام کے ساتھ ان واقعات کے بارے میں بات کی۔،تصویر کا ذریعہKATHY KLEINER RUBIN

،تصویر کا کیپشنکیتھی کی والدہ سخت تھیں لیکن ان کا اثر کیتھی پر تا عمر رہا

خوشگوار بچپن سے پراسرار بیماری تک

کیتھی کلینر روبن امریکی ریاست فلوریڈا کے میامی میں ایک کیوبن خاتون کے ہاں پیدا ہوئیں۔ وہ ایک بڑے خاندان والے ماحول میں بہت سے کزنز کے ساتھ پلی بڑھیں۔ لیکن جب وہ پانچ سال کی تھیں تو دل کا دورہ پڑنے سے ان کے والد کی موت ہو گئی۔اور پھر ان کی ماں نے ایک جرمن نژاد شخص سے دوبارہ شادی کر لی، اپنے نئے والد کے ساتھ کیتھی کے خوشگوار تعلقات تھے۔ ان کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ ‘وہ پرکشش تھے۔ وہ بہترین والد تھے جیسا وہ چاہتی تھیں اور اسی لیے میں انھیں سوتیلے باپ کے بجائے اپنا والد کہتی تھی۔’اگرچہ ان کی والدہ بہت سخت تھیں لیکن ان کی ماں کا ان کی زندگی میں بڑا اثر تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے کیتھی اور ان کے بہن بھائیوں پر پابندیاں عائد کرتیں اور انھیں اسے ماننا پڑتا تھا۔ انھیں رات دیر سے گھر آنے کی اجازت نہیں تھی۔لیکن 12 سال کی عمر میں کیتھی اچانک اور پراسرار طور پر بیمار رہنے لگیں۔ ’یہ چھٹی کلاس کا اختتام تھا اور میں سستی اور تھکاوٹ محسوس کرنے لگی تھی اور کچھ کرنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔‘سکول کے بعد وہ گھر جاتیں تو بخار کے ساتھ بستر پر گر پڑتیں۔ ایک ماہر اطفال ڈاکٹر نے انھیں میامی چلڈرن ہسپتال میں داخل کرنے کی سفارش کی۔ وہ وہاں تین ماہ تک رہیں لیکن ڈاکٹر ان کے مرض کی تشخیص کرنے سے قاصر تھے۔وہ جانتے تھے کہ کوئی چیز ان کے جسم پر حملہ آور ہو رہی ہے لیکن انھیں پتا نہیں تھا کہ اس کا علاج کیسے کیا جائے۔ انھوں نے مشورہ دیا کہ وہ اسے گھر واپس لے جائیں، کیونکہ وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کب تک زندہ رہیں گی۔کیتھی کو لیوپس نامی ایک لاعلاج بیماری تھی جس میں جسم کا مدافعتی نظام صحت مند خلیوں پر حملہ کرتا ہے۔ اس کی علامات کو ایک ایسے علاج سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے جو اس وقت تجرباتی مراحل میں تھا۔ اس کے ڈاکٹر نے کیموتھراپی آزمانے کا مشورہ دیا جو ایک 12 سالہ لڑکی کے لیے کافی مشکل امر تھا۔،تصویر کا ذریعہKATHY KLEINER RUBIN

تنہائی کا سال

وہ کہتی ہیں: ’میرے بال گرنے لگے اور میں گنجی ہو گئی۔ میں ساتویں جماعت میں تھی، گھر میں ایک ٹیچر کے ساتھ قید تھی اور صرف کھڑکی سے باہر دوسرے بچوں کو کھیلتے کودتے دیکھ سکتی تھی۔‘وہ خود کو اتنا تنہا محسوس کرنے لگیں تھیں کہ کبھی کبھی وہ فون پر آپریٹر کے لیے زیرو ڈائل کردیتیں اور لائن کے دوسرے سرے پر انھیں ایک آواز سنائی دیتی۔لیکن وہ ہار نہیں ماننا چاہتی تھی۔ بستر پر کافی وقت گزارنے کے باوجود وہ اپنے والدین کے گھر پہنچنے سے پہلے کپڑے پہن کر ٹیلی ویژن دیکھنے کے لیے نیچے کمرے میں جاتیں اور یہ دکھاوا کرتیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔سال کے آخر میں وہ بہتر ہونے لگیں اور ڈاکٹروں کی منظوری سے انھوں نے زندگی کو معمول پر لانا شروع کر دیا۔ ’وہ جینا چاہتی تھی کیونکہ اسے زندگی سے پیار تھا۔ وہ لیوپس کو پیچھے چھوڑنے جا رہی تھی کیونکہ وہ ذہنی طور پر بیمار نہیں رہنا چاہتی تھی اور اب وقت آگیا تھا کہ سکول واپس جائیں، وہ تمام چیزیں کریں جو لڑکیاں کرتی ہیں اور شاپنگ کریں۔‘،تصویر کا ذریعہKATHY KLEINER RUBIN

،تصویر کا کیپشنکیتھی پہلی قطار میں دائیں سے پہلی ہیں

یونیورسٹی کی نئی زندگی

ہائی سکول سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد انھوں نے گینزویلے کی فلوریڈا اسٹیٹ یونیورسٹی (ایف ایس یو) جانے کا انتخاب کیا۔ اگرچہ وہ کیمپس میامی سے سب سے دور تھا لیکن انھیں وہاں رہنے پر رعایت مل سکتی تھی۔’ انھوں نے اعتراف کیا کہ وہ اپنے والدہ کے دائرہ اختیار سے دور جانا چاہتی تھیں۔’میں پارٹیوں میں جانا چاہتی تھی اور تھوڑا سا مطالعہ اور نئے دوست بنانا چاہتی تھی اور بس اس سے لطف اندوز ہونا چاہتی تھی کہ جب ایک نئی لڑکی کالج جاتی ہے تو کیا کرتی ہے۔‘کیتھی کا ایف ایس یو میں پہلا سال بہت اچھا گزرا، اور وہ کالج کی لڑکیوں کے لیے ایک سماجی کلب میں شمولیت کے لیے مدعو کیے جانے پر پرجوش تھیں۔ان کے گروپ کا نام چی اومیگا (سب یونانی حروف ہیں) اور گھر تقریباً ایک حویلی تھا۔وہ بتاتی ہیں کہ یہ ایک بڑا گھر تھا۔ ہمارے پاس کھانے کا ایک پورا کمرہ، ایک رہنے کا کمرہ، اور ایک بہت بڑا ڈرائنگ روم تھا جس میں ایک بڑا صوفہ اور ٹیلی ویژن تھا۔ خوبصورت کھدی ہوئی لکڑی کی ایک سیڑھی تھی جو ایک دالان کی طرف جاتی تھی جہاں تقریباً 30 بیڈ رومز تھے۔وہ اپنا سونے کا کمرہ اپنی ایک ’بہن‘ کے ساتھ شیئر کرتی تھیں۔ وہاں کھڑکیاں تھیں جو گھر کے پارکنگ ایریا میں کھلتی تھیں بستروں کے ہیڈ بورڈ ان کی طرف ہوتے تھے۔ ’جب سورج ان کھڑکیوں سے جھانکتا تھا تو کمرہ اتنا روشن اور خوبصورت ہو جاتا تھا کہ ہم نے پردے کھلے چھوڑنے کا فیصلہ کیا تاکہ کمرہ ہمیشہ روشن رہے۔‘یہ ایک خوشگوار، گرم اور محفوظ جگہ تھی سوائے سامنے والے دروازے پر ٹوٹے ہوئے تالے کے۔اسی زمانے میں امریکہ کی کئی ریاستوں، خاص طور پر مغربی ساحلی ریاستوں میں خواتین کے قتل کی لہر سے پورا ملک گھبرایا ہوا تھا۔ یہ سب خواتین ایک سیریل کلر کا شکار بنی تھیں جس کی شناخت بعد میں ٹیڈ بنڈی کے نام سے ہوئی۔لیکن یہ سب کچھ اس سکون اور مزے سے بہت دور ہو رہا تھا جس میں کیتھی رہ رہی تھیں اور انھیں کوئی اندازہ نہیں تھا کہ ملک کے دوسری طرف کیا ہو رہا ہے یا ٹیڈ بنڈی کون ہے۔کم از کم 14 جنوری سنہ 1978 کی رات تک انھیں اس کا علم نہیں تھا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنٹیڈ بنڈی نے تقریبا 30 لوگوں کے قتل کا اعتراف کیا تھا

حملہ

اس سنیچر کو کیتھی ایک جاننے والے کے ریسپشن میں دوسرے لوگوں کے ساتھ شریک ہوئی تھیں۔ سوموار کو ان کا کیلکولس (ریاضی) کا امتحان تھا، اس لیے وہ اپنے بیڈروم میں پڑھنے کے لیے واپس آگئیں جہاں ان کی روم میٹ بھی پڑھ رہی تھی۔رات ساڑھے گیارہ بجے کے قریب وہ دونوں سونے چلی گئیں۔ چند گھنٹوں بعد کوئی ٹوٹے ہوئے تالے والے دروازے سے ہال میں داخل ہوا اور سیڑھیاں چڑھتا ہوا اوپر آ گیا۔ اس نے ایک لکڑی کا ٹکڑا پکڑا ہوا تھا جو اسے داخلی دروازے پر ملا تھا اور سونے کے کمرے کے گرد گھومنے لگا۔کیتھی بتاتی ہیں: ’وہ اس کمرے میں داخل ہوا جہاں مارگریٹ بومن تھی۔ اس نے اس پر لکڑی کے ٹکڑے سے حملہ کیا، اور گلا گھونٹ کر اسے مار ڈالا۔‘پھر وہ لیزا لیوی کے کمرے کی طرف بڑھا۔ اس کا دروازہ کھلا تھا۔ اس نے اسی لکڑی کے ٹکڑے سے اس پر حملہ کیا، اسے دانت سے کاٹ کر مار ڈالا۔ کیتھی بتاتی ہیں کہ دانت کا کاٹنا انگلیوں کے نشانات کی طرح ہیں اور یہ دانتوں کے نشان بعد میں قاتل کی شناخت کے لیے اہم تھے۔لیکن حملہ آور وہیں نہیں رکا۔ وہ دالان عبور کر کے اس کمرے میں داخل ہوا جہاں کیتھی اور ان کی روم میٹ میٹھی نیند سو رہے تھے۔ تاہم قالین پر دروازے کے رگڑنے کی آواز نے انھیں جگا دیا۔کیتھی یاد کر کے کہتی ہیں کہ ’میں (بستر پر) بیٹھی دیکھ رہی تھی اور مجھے سمجھ نہیں آیا کہ یہ کیا ہے، لیکن مجھے ایک ہیولہ سا نظر آیا جیسے میرے بستر کے بالکل پاس کسی کا سایہ ہے۔ ابھی وہ کچھ کرتی کہ اس نے اپنا بازو اس کے سر کے اوپر اٹھایا اور اس کے ہاتھ میں لکڑی کا ٹکڑا تھا۔‘،تصویر کا ذریعہKATHY KLEINER RUBIN

،تصویر کا کیپشنکیتھی نے سکاٹ سے دوبارہ شادی کی
یہ وہی لکڑی کا ڈنٹھل تھا جس سے اس نے مارگریٹ اور لیزا کو مارا تھا۔ اس لکڑی سے اس نے کیتھی کے چہرے پر اتنا زور سے مارا کہ اس کا جبڑا تین جگہ سے ٹوٹ گیا۔ اس نے دوسرے بستر پر سونے والی اس کی ساتھی پر حملہ کرنے کے لیے اسے چھوڑ دیا۔ کیتھی نے چیخنے کی کوشش کی، لیکن اس کا منھ پھٹا تھا اور وہ بمشکل تھوک سکی۔حملہ آور کیتھی کو مارنے کے لیے دوبارہ اس کی طرف مڑا، لیکن جیسے ہی اس نے مارنے کے لیے بازو اٹھایا بغیر پردوں والی کھڑکیوں سے ایک تیز روشنی آئی جس نے پورے کمرے کو روشن کر دیا۔کیتھی بتاتی ہیں: وہ ایک کار کی بتیاں تھیں جو ’بہنوں‘ میں سے ایک کو ڈیٹ سے گھر لا رہی تھی۔ حملہ آور ایک لمحے کے لیے ہچکچاتے ہوئے بیڈ روم سے باہر، سیڑھیوں سے نیچے ہال کے اس پار بھاگا، اور سامنے والے دروازے سے غائب ہو گیا۔ لیکن ڈیٹ سے واپس آنے والی نے اسے دیکھ لیا۔اسی دوران کیتھی اپنی چوٹوں کے باوجود مدد حاصل کرنے کے لیے اٹھنے میں کامیاب ہو گئی۔ ’میں نے اپنے چہرے پر خنجر اور چھریوں کی طرح محسوس کیا اور مجھے اپنی ٹھوڑی کو پکڑنا پڑا۔‘ جب ان کی ساتھیوں نے اسے خون میں لت پت دیکھا تو ان میں سے ایک نے ایمرجنسی نمبر پر کال کی۔کیتھی یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ انھوں نے مجھے سٹریچر پر بٹھایا اور مجھے لکڑی کی سیڑھیوں سے نیچے اتارا۔ بے ہوش ہونے سے پہلے میں نے پولیس کروزر کی روشنیاں، فائر ٹرک کی سرخ بتیاں، ایمبولینس کی سرخ اور سفید روشنیاں اور پولیس ریڈیوز کا شور سنا۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے میں کسی میلے میں ہوں۔انھوں نے زخموں کا علاج کیا اور خون بہنا بند کیا۔ اس کے بعد انھیں سیدھا آپریٹنگ روم میں لے جایا گیا، جہاں ان کے جبڑے میں تار لگایا گيا، چھ ہفتے تک ہسپتال میں منہ بند کرکے رہنا پڑا جہاں انھیں نلکی سے کھانا کھلایا جاتا تھا۔

،تصویر کا ذریعہKATHY KLEINER RUBIN

،تصویر کا کیپشنکیتھی کے کمرے کی کھڑکی سے روشنی آتی تھی

مقدمے کی سماعت کے دوران

اپنی ہولناک چوٹوں کے باوجود، کیتھی جسمانی اور جذباتی طور پر صحت یاب ہونے کے لیے پرعزم تھیں۔ لیکن اس سے پہلے انھیں جولائی 1979 میں مقدمے کے دوران اپنے حملہ آور کا سامنا کرنا تھا۔مارگریٹ بومن اور لیزا لیوی کو قتل کرنے اور کیتھی اور ان کی روم میٹ کو شدید زخمی کرنے کے فوراً بعد ٹیڈ بنڈی وسطی فلوریڈا کی طرف نکل گیا جہاں اس نے 12 سالہ سکول کی طالبہ کمبرلی لیچ کو اغوا کر کے قتل کر دیا۔ ایک یا دو ماہ بعد بالآخر اسے حکام نے حراست میں لے لیا۔کٹگھرے سے کیتھی نے حملے کی پوری کہانی سنائی۔ اس نے مشاہدہ کیا کہ بونڈی ان کے سامنے میز پر بیٹھا تھا اور ایسا معلو ہوا کہ ’جیسے وہ بچ نکلنے والا ہے۔‘اگرچہ وہ بونڈی کو پورے وثوق کے ساتھ شناخت نہیں کرسکیں لیکن ان کی گواہی اور دوسروں کی گواہی، فرانزک شواہد کے ساتھ عدالت قاتل کو سزا دینے میں کامیاب ہوگئی۔’میں نے اس پر اچھا محسوس کیا اور پھر میں کمرہ عدالت سے پچھلے دروازے سے نکلی اور تقریباً الٹی کرنے والی تھی۔‘،تصویر کا ذریعہKATHY KLEINER RUBINجیوری کو ٹیڈ بنڈی کو دو قتل اور تین اقدام قتل کا مجرم قرار دینے کے لیے سات گھنٹے سے بھی کم وقت لگے۔ بعد میں اس پر دوسرے جرائم کا مقدمہ چلایا گیا اور اسے سزا سنائی گئی۔اس کی سزائے موت پر عمل درآمد میں تقریباً ایک دہائی لگ گئی۔ اس دوران کیتھی نے شادی کی اس کے ہاں بیٹا مائیکل پیدا ہوا۔ انھوں نے طلاق لے لی اور دوبارہ سکاٹ سے شادی کر لی اور وہ ابھی ان کے موجودہ شوہر ہیں۔ٹیڈ بنڈی کو جنوری سنہ 1989 میں فلوریڈا میں الیکٹرک چیئر کے ذریعے پھانسی دی گئی۔ کیتھی نے پھانسی میں شرکت کی دعوت کو مسترد کر دیا، لیکن سکاٹ کے ساتھ اپنے گھر سے ٹیلی ویژن کی خبروں میں اس کی کوریج دیکھی۔وہ کہتی ہیں ’مجھے اس وقت تک یقین نہیں آیا جب تک کہ میں نے جیل کے سامنے سے سفید ہیرس کو گزرتے نہیں دیکھا۔ میں رونے لگی اور بس میں روئے چلی جا رہی تھی اور اس کے تمام متاثرین کے لیے روئی، ان تمام خواتین کے لیے جنھیں اس نے مارا اور اتنی جلدی ہم سے چھین لیا۔‘اس کے بعد سے ٹیڈ بنڈی کچھ معنوں میں ایک کلٹ شخصیت بن گیا ہے: وہ کتابوں، دستاویزی فلموں اور فلموں میں امر ہو گیا ہے اور اسے ایک دلکش، ذہین آدمی کے طور پر پیش کیا گیا جس نے اپنی زندگی برباد کرلی۔لیکن کیتھی کے لیے بنڈی دلکش نہیں تھا بلکہ ایک تنہا بیمار آدمی تھا، جس کا رویہ ایک نوجوان کے طور پر ان جرائم کی پیشن گوئی کرتا تھا جو وہ بالغ ہونے پر کرے گا۔ اس نے جانوروں کو مار ڈالا، اس نے دوسرے بچوں کے ساتھ گھناؤنا کام کیا۔ یہ نارمل نہیں تھا اور وہ جانتا تھا کہ یہ نارمل نہیں ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنٹیڈ بنڈی درمیان میں مقدمے کی سماعت کے دوران

معمول پر واپسی

کیتھی کے لیے یہ ایک راحت دینے والی بات تھی کہ اب بنڈی کسی اور کو تکلیف نہیں پہنچا سکے گا۔ وہ کئی سالوں تک حملوں کے بارے میں خاموش رہیں کیونکہ وہ صرف معمول پر واپس آنا چاہتی تھیں۔انھوں نے اپنے بیٹے کو بھی نہیں بتایا کہ وہ اس قاتل کا شکار رہی تھیں یہاں تک کہ ان کے بیٹے مائیکل کی عمر 37 سال ہو گئی ہے۔ کیتھی کے رولنگ سٹون میگزین کو انٹرویو دینے کے بعد ہی مائیکل نے اس کے بارے میں جانا۔’اس نے مجھ سے کہا: ماں، مجھے ان سب کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ آپ کتنی نارمل تھیں۔‘ اس کے نارمل والے ردعمل کے بارے کیتھی نے کہا کہ اس لفظ نے انھیں سکون بخشا۔ انھیں ایسا لگا جیسے بنڈی کے ہاتھوں ان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ختم ہو گیا ہے۔ وہ نارمل بننا چاہتی تھی، ن=ا صرف اس کے (مائیکل) لیے بلکہ پورے خاندان کے لیے۔کیتھی صرف امریکی تاریخ کے سب سے بے رحم قاتلوں کے ہاتھوں سے زندہ نہیں بچی تھیں بلکہ وہ 12 سال کی عمر میں لیوپس اور 34 سال کی عمر میں چھاتی کے کینسر سے بچ پائی ہیں۔’میں نے ہمیشہ کہا کہ آپ کو دوڑ میں آگے بڑھتے رہنا ہ وگا۔ اب جب کہ میں بوڑھی ہو گئی ہوں، میں کہتی ہوں کہ آپ کو بہت تیز چلنا ہوگا اور رکاوٹوں سے آگے دیکھنا ہو گا کیونکہ اس کے آگے کچھ اچھا ہونے والا ہے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}