10 ڈاؤنگ سٹریٹ میں کرسمس پارٹی کا معاملہ: کیا یہ ویڈیو لیک بورس جانسن کی حکومت کا تختہ الٹ سکتا ہے؟
ویسے تو برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کے لیے تنازعے کوئی نئی چیز نہیں تاہم حالیہ دنوں میں وہ اوں ان کی کابینہ ایک نئے سکینڈل کے زد میں آ گئے ہیں۔
اس بار ان کے لیے چیلنج وہ ویڈیو بن گئی ہے جس میں ان کی اپنی پریس سیکریٹری یہ انکشاف کر رہی ہیں کہ گذشتہ برس دسمبر میں کووڈ 19 کے باعث لاگو پابندیوں کے باوجود وزیر اعظم آفس میں ایک پارٹی کا انعقاد کیا گیا۔
لیک ہونے والی ویڈیو کے مطابق اس پارٹی میں 40 سے 50 افراد شریک تھے اور یہ ویڈیو برطانیہ کے آئی ٹی وی چینل نے نشر کی ہے۔ اس فرضی نیوز کانفرنس میں پارٹی کے انکشاف کے ساتھ ساتھ لطائف اور قہقوں کا تبادلہ ہوا۔
معاملہ کچھ یوں ہے کہ وزیر اعظم کی اُس وقت کی پریس سیکریٹری الیگرا سٹریٹن ایک نیوز کانفرنس کی تیاری کے لیے وزیر اعظم ہاؤس میں 22 دسمبر کو ایک فرضی نیوز کانفرنس کا انعقاد کرتی ہیں۔ اس نیوز کانفرنس میں کوئی صحافی موجود نہیں ہے اور وزیر اعظم ہاؤس کا عملہ ہی ان سے سوال پوچھتا ہے اور پھر وہ ہنسی مذاق میں جواب دے رہی ہوتی ہیں۔
ویڈیو میں وزیر اعظم کی پریس سیکریٹری کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک نیوز کانفرنس کی ریہرسل یا مشق کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی دوران ان کے ساتھی ان سے 10 ڈاؤننگ سٹریٹ یعنی وزیر اعظم ہاؤس میں کرسمس کی محفل کے انعقاد کے حوالے سے خبر کی تصدیق کے لیے سوال پوچھتے ہیں۔
آئی ٹی وی کو حاصل ہونے والی ویڈیو کلپ
وزیر اعظم کی پریس سیکریٹری مذاق مذاق میں اپنے ساتھیوں کو جواب دیتی ہیں جیسے وہ سچ مچ کسی نیوز کانفرنس میں منجھے ہوئے صحافیوں کے مشکل سوالات کا جواب دے رہی ہوں۔
وزیر اعظم کے ایک مشیر انھیں بتاتے ہیں کہ انھیں اس حوالے سے سوال آنے پر صرف یہ کہنا چاہیے کہ یہ پارٹی نہیں بلکہ ’چیز اینڈ وائن‘ (چند افراد کی نجی محفل) تھی، جس پر پریس سیکریٹری ہنس کر کہتی ہیں کہ کیا ایسی چھوٹی محفل کا انعقاد قابل قبول ہے؟
اس کے بعد وہ اس جواب پر انحصار کرنے کے بجائے کہتی ہیں کہ ’یہ فرضی محفل دراصل ایک بزنس میٹنگ تھی اور اس میں سماجی فاصلے کا قطاً خیال نہیں رکھا گیا تھا۔‘
خیال رہے کہ اس فرضی نیوز کانفرنس کے ایک ہی دن بعد وزیر اعظم بورس جانسن نے یہ اعلان کیا تھا کہ ملک بھر میں کسی بھی قسم کی کرسمس پارٹی پر پابندی عائد رہے گی۔ اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ لوگ اس مذہبی تہوار پر اپنے پیاروں سے بھی نہیں مل سکتے۔
یہ بھی واضح رہے کہ وزیر اعظم ہاؤس نے بار بار اس بات کی تردید کی ہے کہ ان کے ہاں کوئی ایسی محفل منعقد ہوئی۔
تاہم ذرائع نے بی بی سی کو تصدیق کی ہے کہ گذشتہ برس 18 دسمبر کو واقعی ایک پارٹی کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں درجنوں افراد شریک ہوئے تھے۔
اس پارٹی کا انعقاد ایک ایسے وقت پر کیا گیا ہے جب ملک میں کسی بھی قسم کی کرسمس پارٹی پر پاپند عائد تھی۔ لندن میں بغیر کسی ضروری وجہ کہ دو یا اس سے زائد لوگوں کے اجتماع پر پابندی عائد تھی۔
روزنامہ ’دی مِرر‘ کے مطابق پابندیوں کی وجہ سے یہ پارٹی منسوخ کر دی گئی تھی تاہم وزیر اعظم ہاؤس کے عملے نے غیر سرکاری طور پر ایک پارٹی کا انعقاد کیا تھا۔
وزیر اعظم بورس جانسن سے جب صحافی اس پارٹی سے متعلق سوال کرتے ہیں تو وہ واضح جواب نہیں دیتے ہیں اور جرائم پر قابو پانے کی کوششوں سمیت دیگر اقدامات پر بات کرتے ہیں، جیسے صحافی ان سے ممنوعہ پارٹی سے متعلق نہیں بلکہ ان کی ’شاندار کارکردگی‘ کی وجوہات جاننے کی کوشش کر رہے ہوں۔
بار بار سوال پوچھے جانے پر برطانوی وزیر اعظم نے کہا کہ ’ایسی کوئی کرسمس پارٹی منعقد نہیں کی گئی۔ کووڈ قواعد کی ہمیشہ پابندی کی گئی ہے۔‘
وزیر اعظم ہاؤس میں محفل سجانے کی خبروں پر سیاسی ردعمل
وزیر اعظم ہاؤس میں پارٹی کے انعقاد سے متعلق مختلف حلقوں کی طرف سے وزیر اعظم پر جہاں تنقید کی جا رہی ہے، وہیں کچھ رہنما ان سے معافی مانگنے اور استعفی دینے تک کا مطالبہ کرتے نظر آ رہے ہیں۔
کنزرویٹو پارٹی کے ایک سینیئر رہنما کے مطابق ’ایسا لگ رہا ہے کہ وزیر اعظم کو نہیں لگتا کہ قواعد ان کے دوستوں پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔‘
لیبر پارٹی کے رہنما کیئر سٹارمر کا کہنا ہے کہ ’حکمرانوں کی طرف سے عوام کے ساتھ یہ ہنسی مذاق اور جھوٹ بہت شرمناک حرکت ہے، خاص طور پر ایک ایسے وقت پر جب کورونا وائرس کی وجہ سے عائد پابندیوں پر عمل کرتے ہوئے لوگ اپنے خاندان والوں سے جدا ہونے پر مجبور ہوئے اور اپنے پیاروں کو تدفین تک نہ دے سکے۔‘
ایک ایسے وقت پر لوگ تو یہی امید لگائے بیٹھے تھے کہ حکومت بھی ان قواعد پر من و عن عمل پیرا ہو گی۔
انھوں نے مطالبہ کیا اب وزیر اعظم کو اس معاملے پر اپنی صفائی پیش کرنی چائیے اور قوم سے معافی مانگنی چائیے۔ ان کے مطابق یہ کنزریٹو پارٹی سے تعلق رکھنے والوں کے لیے دیگر عوام سے مختلف قواعد نہیں ہو سکتے ہیں۔
ویسٹ منسٹر میں سکاٹش نیشنل پارٹی کے رہنما ایئن بلیک فورڈ کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم وزیر اعظم کو مستعفی ہو جانا چائیے۔
یہ بھی پڑھیے
ایک خاتون نے بی بی سی کو بتایا کہ جس رات وزیر اعظم ہاؤس میں پارٹی کا انعقاد کیا جا رہا تھا اس رات ہی ان کی والدہ کی کورونا وائرس کی وجہ سے برطانیہ کے ایک ہسپتال میں موت واقع ہوئی۔
کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کے لواحقین پر مشتمل جسٹس گروپ کے جیکی گرین نے کہا کہ یہ ویڈیو قابل مذمت ہے۔ ان کے مطابق اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کے اندر بڑا مسئلہ یہ ہے کہ حکمران اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں اور وہ ہر وہ کام کر سکتے ہیں جو وہ کرنا چاہیں۔
برطانوی پولیس کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود کے ماضی میں ضوابط کی خلاف ورزی پر تحقیقات نہیں کی جاتیں مگر وہ اس فوٹیج کا جائزہ لے رہی ہے۔
Comments are closed.