بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

کیا یوکرین جنگ عالمی معاشی بحران کا سبب بن سکتی ہے؟

یوکرین روس تنازع: کیا یہ جنگ عالمی معاشی بحران کا سبب بن سکتی ہے؟

  • پابلو اوچوا
  • بی بی سی ورلڈ سروس

A woman walks by an electronic screen displaying the Hang Seng Index on March 4, 2022 in Hong Kong

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

یوکرین میں جنگ کی وجہ سے عالمی منڈیوں میں تنزلی دیکھی گئی ہے

ماہرین کا خیال ہے کہ یوکرین اور روس کے درمیان جاری جنگ کے باوجود عالمی معیشت رواں برس ترقی کرے گی لیکن اس جنگ کے اثرات دنیا بھر میں محسوس کیے جائیں گے۔

اس جنگ کے کتنے بُرے اثرات مرتب ہوں گے، اس کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ یہ جنگ کتنی دیر تک جاری رہتی ہے۔

یہ مدت اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ عالمی منڈی میں حالیہ مہنگائی عارضی دھچکا ہے یا یہ مستقل طور پر رہے گی۔

ہم نے اس مضمون میں یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ یہ جنگ عالمی معیشت کو کیسے متاثر کر رہی ہے اور کیا یہ عالمی معاشی بحران کی وجہ بن سکتی ہے۔

مختلف ممالک میں مختلف اثرات

People who have arrived from war-torn Ukraine wait for specially chartered trains that will take them to other cities in Poland and Europe on a platform at the main train station on March 07, 2022 in Przemysl, Poland.

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

یوکرین کے ہمسایہ ملک پولینڈ کا شمار بھی ان ملکوں میں ہوتا ہے جو اس جنگ کی بدولت معاشی طور پر سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں

برطانیہ میں قائم کنسلٹینسی ادارے آکسفورڈ اکنامکس کے مطابق یوکرین اور روس کے لیے اس جنگ کے معاشی نتائج ‘سنگین’ ہوں گے لیکن دنیا کے دیگر ممالک کے لیے یہ اثرات مختلف ہوں گے۔

مثال کے طور پر ترکی اور پولینڈ کے روس کے ساتھ اہم تجارتی روابط ہیں اور ان ممالک کے لیے جنگ کے اثرات دیگر معیشتوں سے زیادہ سخت ہوں گے۔

پولینڈ اپنی ضرورت کا 50 فیصد تیل روس سے درآمد کرتا ہے جبکہ ترکی اپنی ضرورت کا ایک تہائی حصہ روس سے حاصل کرتا ہے۔ لیکن امریکہ کی روس سے تجارت کا حجم اس کے جی ڈی پی کا صرف 0.5 فیصد ہے جبکہ چین کا 2.5 فیصد ہے لہذا ان ممالک پر اس جنگ کے بہت محدود اثرات مرتب ہوں گے۔

آکسفورڈ اکنامکس میں گلوبل میکرو ریسرچ کے ڈائریکٹر بین مے کا کہنا ہے کہ یوکرین اور روس کے درمیان جنگ سے امکان ہے کہ یہ عالمی معشیت کی ترقی میں 0.2 فیصد کمی لائے یعنی رواں برس متوقع چار فیصد ترقی کی بجائے یہ ہدف 3.8 فیصد رہے۔

مگر یہ اس بات سے مشروط ہے کہ یہ تنازع طوالت اختیار نہیں کرتا۔ صاف ظاہر ہے کہ اگر یہ جنگ طویل عرصے تک جاری رہتی ہے تو اس کے اثرات زیادہ سنگین ہوں گے۔

Long queues form at a petrol station on February 25, 2022 in Istanbul, Turkey. Brent oil prices, which have increased after the tension between Russia and Ukraine, were reflected as a hike in fuel prices in Turkey.

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

یوکرین میں جاری روسی مداخلت اور تیل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ترکی میں پیٹرول پمپ کے باہر گاڑیوں کی قطار

بڑھتی مہنگائی، بے روزگاری اور تیل کی قیمتیں

اس جنگ کا ایک اور اہم عنصر جسے ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے وہ تیل کی قیمتوں پر پڑنے والا اثر ہے۔ جو پہلے ہی عالمی منڈی میں ہلچل مچا رہا ہے۔

امریکہ کے سرکاری ادارے انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے مطابق روس امریکہ اور سعودی عرب کے بعد تیل پیدا کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔

اس نے سنہ 2020 میں 10.5 ملین بیرل تیل یومیہ نکالا تھا اور پانچ سے چھ ملین بیرل یومیہ فروخت کیا جس میں سے آدھے سے زیادہ یورپ کو درآمد کیا گیا۔

سات مارچ کو امریکہ اور یورپ کی جانب سے روسی تیل کی درآمد پر پابندی کا عندیہ دینے کے بعد برینٹ خام تیل کی قیمت تاریخی بلند سطح پر تھی۔

گذشتہ ہفتے 21 فیصد قیمت بڑھنے کے بعد اس میں مزید 18 فیصد اضافہ دیکھا گیا اور فی بیرل کی قیمت 140 امریکی ڈالر تک پہنچ گئی۔

آٹھ مارچ کو امریکہ اور برطانیہ نے روسی تیل کی درآمد پر پابندی کا اعلان کر دیا۔

ایک ریسرچ ادارے تھنڈر سیڈ انرجی کے سربراہ روب ویسٹ نے فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ ‘یہ ہلچل تیل کی قیمت کو 200 ڈالر فی بیرل سے بھی اوپر لے جائے گی۔’

آٹھ مارچ کو ہی روس کے ڈپٹی وزیر اعظم الیگزینڈر نواک نے اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے بیان دیا کہ ‘تیل کی قیمتوں میں اضافہ غیر متوقع ہو گا اور یہ تین سو ڈالر فی بیرل تک جا سکتا ہے۔’

انھوں نے اپنے ٹیلی ویژن خطاب میں کہا کہ ‘یہ واضح ہے کہ روسی تیل پر پابندی عالمی منڈی پر سنگین اور تباہ کن نتائج مرتب کرے گی۔’

تیل کی قیمتوں میں اضافے نے نہ صرف ایندھن کی قیمت کو مہنگا کیا بلکہ اس نے باقی تمام چیزوں کو بھی متاثر کیا ہے۔

مہنگائی بڑھنے کی وجہ یہ ہے کہ ایندھن اور توانائی وہ بنیادی اخراجات ہیں جو سامان کی تیاری اور نقل و حرکت کے وقت برداشت کیے جاتے ہیں۔

بارکلے کے معاشی ماہرین کے مطابق تیل کی بڑھتی قیمتیں اور مہنگائی کا ملاپ ‘بے روزگاری، مندی اور رسد سے زیادہ طلب’ کے بحران کو جنم دے سکتا ہے۔

انھوں نے یوکرین-روس جنگ کے سبب پہلے ہی عالمی معیشت کی ترقی کے تخمینے کو ایک فیصد کم کر دیا ہے۔

ماہرین اس ممکنہ بحران کو ‘سٹیگ فلیشن’ کا نام دیتے ہیں اور اس سے مراد یہ ہے کہ یہ بحران تب جنم لیتا ہے جب کسی ملک میں مسلسل بڑھتی مہنگائی اور معاشی جمود ہو۔

An Egyptian man sells bread outside the al-Azhar mosque in Cairo on December 8, 2017

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ڈبل روٹی کی قیمت میں اضافے نے عام آدمی کے روزمرہ کے اخراجات کو بڑھایا ہے

اشیا خوردو نوش کی بڑھتی قیمتیں

یوکرین اور روس کے درمیان جاری جنگ عالمی سطح پر اشیا خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بھی بن سکتی ہے، کیونکہ روس اور یوکرین دونوں ہی خوراک کی پیدوار کرنے والے بڑے ملک ہیں۔

سٹیلن بوش یونیورسٹی اور جے پی مورگن میں زرعی معاشیات کے سینیئر محقق وانڈائل سہلوبو کے مطابق، روس اور یوکرین عالمی گندم کا 14 فیصد پیدا کرتے ہیں اور عالمی برآمدات میں ان کا 29 فیصد حصہ ہے۔

اس کے علاوہ دونوں ممالک بڑے پیمانے پر مکئی اور سورج مکھی کے تیل کی پیداوار بھی کرتے ہیں۔

اجناس کی رسد میں کوئی بھی رکاوٹ مشرق وسطیٰ، افریقہ اور ترکی میں خریداروں کو مشکل میں ڈال سکتی ہے اور متاثر کر سکتی ہے۔

لبنان، مصر اور ترکی اپنی ضرورت کی گندم کا زیادہ تر حصہ روس یا یوکرین سے حاصل کرتا ہے۔

line

روس کا یوکرین پر حملہ: ہماری کوریج

line

سوڈان، نائجیریا، تنزانیہ، الجیریا، کینیا اور جنوبی افریقہ کا انحصار بھی روسی اور یوکرینی اجناس پر ہے۔

دنیا کی بڑی فرٹیلائزر کمپنیوں میں سے ایک یارا کے سربراہ سیون ٹور ہولیستھر کہتے ہیں کہ ‘میرے لیے یہ اہم نہیں ہے کہ ہم عالمی خوراک کے بحران کی جانب بڑھ رہے ہیں مگر یہ اہم ہے کہ یہ بحران کتنا بڑا اور طویل ہو سکتا ہے۔’

فرٹیلائزر یعنی کھاد کی قیمتیں پہلے ہی گیس کی قیمتوں کے باعث آسمان پر ہیں۔ ایسے میں روس کھاد برآمد کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘ہم جنگ سے پہلے ہی ایک مشکل صورتحال میں تھے۔’

وہ کہتے ہیں دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی کو کھانا صرف کھاد کے استعمال کے نتیجے میں ملتا ہے اور اگر کھیتوں میں اس کا استعمال بند کر دیا جائے تو چند ایک فصلوں کی پیداوار پچاس فیصد تک کم ہو جائے گی۔

Combines harvest wheat in a field near the village of Suvorovskaya in Stavropol Region, Russia July 17, 2021. REUTERS/Eduard Korniyenko/File Photo

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

روس کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ اناج اور فرٹیلائزر برآمد کرتے ہیں

شرح سود میں اضافہ

گلوبل اکنامکس سروس کی سربراہ جینیفر میکیون کا کہنا ہے کہ توانائی اور اشیا خور و نوش کی بڑھتی قیمتوں کے باعث ترقی پذیر ممالک میں ایک فیصد تک مہنگائی بڑھنے کی توقع ہے۔

وسطی یورپ اور لاطینی امریکہ کے چند ممالک میں جو پہلے ہی مہنگائی سے لڑ رہے ہیں، ان کے مرکزی بینک اس کا مقابلہ شرح سود میں اضافے سے کرنے کی کوشش کریں گے۔

جینیفر میکیون نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ ان ممالک کی معیشت پر مزید بوجھ ڈالے گا۔

دریں اثنا مشرقی یورپ کے چند علاقے، جرمنی، اٹلی اور ترکی جن کا روسی گیس پر بہت زیادہ انحصار ہے، میں روزمرہ کے اخراجات میں اضافہ ہو گا۔

A freight train carrying food and medical supplies arrives in Moscow Region from China, February 2022

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

عالمی صارفین کی قوت خرید میں کمی کے باعث ایشیائی معیشتوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے

صارفین کی طلب و رسد کا مسئلہ

میکیون کے مطابق عالمی سطح پر صارفین کی قوت خرید میں کمی سے ایشیائی معیشتیں متاثر ہوسکتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مثلاً اگر ہم دیکھتے ہیں کہ یورو زون میں (جنگ کی وجہ سے) طلب بہت کم ہوجاتی ہے اور تیل کی قیمتوں کی وجہ سے قوت خرید کو نقصان پہنچتا ہے تو اس سے ایشیائی برآمدات شدید متاثر ہوسکتی ہیں۔‘

معاشی بحالی میں مشکلات کیوں؟

A stockbroker talks on his mobile phone as he monitors the latest share prices at the Pakistan Stock Exchange (PSX) in Karachi on March 7, 2022

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ اگر یہ جنگ طویل عرصے تک جاری رہتی ہے تو اس سے عالمی معیشت میں مندی آسکتا ہے

ماہرین رواں سال مضبوط پیداوار کی پیشگوئی کر رہے ہیں کیونکہ معیشتیں عالمی وبا سے قبل کی سطح پر پہنچ رہی ہے۔

مے کا کہنا ہے کہ معاشی ترقی کے اعتبار سے معمول پر واپسی ہی ایک بڑی ’جیت‘ ہے۔

اب تک جنگ کی وجہ سے پیداوار کو خطرات درپیش ہیں لیکن یہ اثر اس بات پر منحصر ہوگا کہ جنگ کب تک جاری رہتی ہے اور اس میں صورتحال کس حد تک خراب ہوتی ہے۔

مے کہتے ہیں کہ ’یہ کوئی ایسی چیز نہیں جو عالمی معیشت کو بحران یا مندی کی جانب دھکیل رہی ہے۔‘

مگر انھوں نے تسلیم کیا ہے کہ اس سے ’عموماً غیر یقینی‘ صورتحال پیدا ہوتی ہے کہ کیونکہ یہ کسی کو معلوم نہیں ہے کہ آیا یہ صورتحال ’مزید سنگین‘ ہوسکتی ہے یا نہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.