برٹش ایئر ویز کی پرواز 149: کیا کویت پہنچنے والی فلائیٹ خفیہ ’ملٹری انٹیلیجنس مشن‘ پر تھی؟
- گورڈن کوریرا
- نمائندہ سکیورٹی
مسافروں اور عملے کے اتر جانے کے بعد طیارے کو رن وے پر تباہ کر دیا گیا تھا
سنہ 1990 میں کویت پر عراقی قبضے کے دوران برٹش ایئرویز کی پرواز بی اے 149 کی کویت میں لینڈنگ کئی برسوں تک متنازع اور معمہ بنی رہی ہے کیونکہ اس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس پرواز کو برطانوی حکومت نے ایک خفیہ مشن کے لیے استعمال کیا تھا جس کے نتیجے میں مسافروں اور عملے کے ارکان کو پانچ ماہ تک قید اور بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
فلائٹ 149 یکم اگست 1990 کی شام لندن سے براستہ کویت ایشیا کے لیے اپنے شیڈول کے مطابق روانہ ہوئی تھی۔
پرواز نے دو اگست کو کویت میں لینڈ کیا، اس حقیقت سے قطع نظر کہ کویت پر عراقی افواج کا حملہ اسی رات شروع ہو چکا تھا اور دوسری ایئرلائنز نے کویت میں لینڈنگ کے بجائے اپنی پروازوں کے رُخ نزدیکی ممالک کی جانب موڑ دیے تھے۔
اینتھنی پیئس کو سنہ 1988 میں کویت میں تعینات کیا گیا تھا۔ اُن کے بقول ’سیاسی انٹیلیجنس کے فرائض‘ اُن کے سپرد کیے گئے تھے، وہ اس سے قبل برطانوی خفیہ ادارے ادارے ’ایم آئی سِکس‘ کے افسر کی حیثیت سے برطانوی سفارتخانے میں تعینات رہ چکے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ وہ آفیشیل سکریٹس ایکٹ (سرکاری رازوں کے قانون) کی وجہ سے ’جھوٹے الزامات اور ناانصافیوں‘ کے معاملے پر پہلے اپنی زبان کھولنے سے قاصر تھے، مگر اب وہ اس فلائٹ پر سوار متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے کے لیے کُھل کر بات کرنا چاہتے ہیں۔
پیئس کا کہنا ہے کہ ’میں اس بات کا قائل ہو چکا ہوں کہ برٹس ایئرویز کی فلائٹ 149 کو فوجی جاسوسی کے لیے استعمال کیا گیا تھا، حالانکہ سرکاری طور پر اس کا بارہا انکار کیا جاتا رہا ہے۔‘
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اُن کے خیال میں ان کے اور سفیر کے علم میں لائے بغیر ملٹری اور سپیشل فورسز نے ’وہاں (کویت) پر جلدی میں جاسوسوں کو اتارنے کی ایک کوشش کی تھی۔‘
صدام حسین فلائیٹ پر سوار ایک یرغمالی بچے کے ہمراہ۔ اس تصویر کو جاری کرنے کا مقصد دنیا کو یہ بتانا تھا کہ عراق مسافروں سے اچھا سلوک کر رہا ہے
انھوں نے بتایا کہ ’ہمیں اس بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔‘
پیئس پر الزام تھا کہ وہ اس آپریشن میں ملوث تھے اور یہ کہ انھوں نے برٹش ایئرویز کو فلائٹ کی ممکنہ لینڈنگ کے بارے میں گمراہ کیا تھا۔ وہ اِن الزامات کو غلط قرار دیتے ہیں۔
پیئس کا کہنا ہے کہ انھوں نے برٹش ایئرویز کے نمائندے سے یکم اگست کی شام بات کی تھی اور بتایا تھا کہ عراق اور کویت کے مابین لاوا پک رہا مگر اُس وقت تک حملہ شروع نہیں ہوا تھا۔
اپنی گفتگو کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’اگر آدھی رات کو آپ کی کوئی پرواز ہے تو وہ شاید نکل جائے گی۔‘
ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے خبردار کیا تھا کہ حملہ علی الصبح ہو سکتا ہے اور اس کے اگلے روز طیارہ کویت میں لینڈ نہیں کر سکے گا۔
انسانی ڈھال
برٹش ایئرویز کی اس فلائٹ پر کیبن سروسز کے ڈائریکٹر، کلائیو اردی، کو یاد ہے کہ کویت پہنچنے کے بعد برطانوی فوجی وردی میں ملبوس ایک شخص نے جہاز کے دروازے پر اُن کا خیرمقدم کیا تھا۔
اُس شخص نے کہا کہ وہ لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ پر جہاز میں سوار ہونے والے دس مسافروں سے ملنا چاہتے ہیں۔ ان مسافروں کو جہاز کے اگلے حصے میں لایا گیا، وہ اُترے اور اس کے بعد انھیں کسی نے نہیں دیکھا۔
اردی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ان لوگوں (جنھیں طیارے سے اتار لیا گیا تھا) کو کویت پہنچانے کے لیے دیگر مسافروں، مردوں، عورتوں اور بچوں پر ترجیح دی گئی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد جو ہوا اس کے لیے وہ حکومت کو ذمہ دار سمجھتے ہیں کیونکہ دوسرے مسافروں اور عملے کو عراقیوں نے یرغمال بنا لیا تھا۔ بعض کو تو رہا کر دیا گیا مگر دوسروں کو بدسلوکی، جنسی حملوں اور فاقہ کشی کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ بھی پڑھیے
عراقیوں نے بہت سے مسافروں کو اہم فوجی تنصیبات پر بطور انسانی ڈھال کے استعمال کیا تاکہ مغربی فورسز وہاں پر بمباری نہ کریں۔ ان یرغمالیوں کو پانچ ماہ کے بعد رہائی ملی تھی۔
فلائٹ پر موجود وہ پُراسرار شخص کون تھا؟
’آپریشن ٹروجن ہارس‘ نامی کتاب کے مصنف سٹیون ڈیویس کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس ٹیم کے بعض ارکان اور اس مشن کے منصوبہ سازوں سے نام ظاہر نہ کرنے پر بات کی ہے۔
اُن کا خیال ہے کہ اس مشن کا مقصد نگرانی کرنے والے جاسوسوں کو وہاں پہنچانا تھا تاکہ وہ انٹیلیجنس معلومات جمع کر کے بھیج سکیں۔ اُن کا یہ بھی خیال ہے کہ برطانوی حکام کو توقع نہیں تھی کہ کویت ایئر پورٹ پر اتنی جلدی عراقی فوج کا قبضہ ہو جائے گا۔ بلکہ انھیں امید تھی کہ جاسوس کویت میں اتر جائیں گے اور جہاز اپنی اگلی منزل کی طرف روانہ ہو جائے گا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ جہاز کا کرایہ فوجی اکاؤنٹ سے ادا کیا گیا تھا اور ان کا خیال ہے کہ برٹش ایئرویز کو اس آپریشن کے بارے میں پتہ تھا۔
بی اے فلائٹ 149 کی لینڈنگ کے بارے میں تحقیقات صحافی اور مصنف سٹیو ڈیویس کی نئی کتاب کا موضوع ہیں
اس کے جواب میں وزارت دفاع نے برطانوی پارلیمان کے ایوان نمائندگان میں دیے گئے ایک سابقہ بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’2007 میں برطانوی حکومت نے واضح طور پر پارلیمنٹ میں تصدیق کی تھی کہ سنہ 1990 میں حکومت نے کسی طور فوجی عملے کے لیے پرواز کا ناجائز استعمال نہیں کیا تھا۔‘
برٹش ایئرویز نے حکومت کی سابقہ تردیدوں کا حوالہ دیتے ہوئے کسی بھی تبصرے سے انکار کیا ہے۔
معذرت کا مطالبہ
اٹھارہ سالہ جِنی جِل جہاز کے عقبی حصے میں اپنی بہن کے ساتھ اسی پرواز میں بیٹھے ہوئے تھے۔ انھیں یاد ہے کہ ان کے برابر میں بیٹھے ہوئے دو آدمی راستے بھر خاموش رہے۔ ان کا خیال ہے کہ ان آدمیوں کا تعلق سپیشل فورس سے تھا۔
انھیں یاد ہے کہ جب پرواز نے لینڈ کیا تو بڑا غیر حقیقی سا منظر تھا، ایئرپورٹ سے گراؤنڈ سٹاف غائب تھا اور ماسوائے کویت ایئرویز کے کوئی دوسرا جہاز وہاں پر نہیں تھا۔ انھوں نے آرام کرنے کے لیے ٹانگیں پھیلائیں تو انھیں ایئرپورٹ کے قریب سے دھماکوں کی آوازیں آئیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس وقت ہمیں پتا چلا کہ یقیناً کچھ گڑبڑ ہے۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ کہاں جائیں اور کیا کریں۔‘
مزید پڑھیے
انھوں نے اپنے برابر بیٹھے ہوئے دو آدمیوں کو پھر کبھی نہیں دیکھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں چاہتی تھی کہ جیسے ہم واپس برطانیہ پہنچیں تو سچ سامنے آئے مگر کچھ پتا نہیں چلا۔ ہم پر تمام دروازے بند کر دیے گئے۔‘
ڈیویس کی کتاب کی رونمائی اس جہاز کی لینڈنگ کی 31ویں برسی کے موقع پر ایک پریس کانفرس میں ہوئی اور اس میں بعض یرغمال بنائے جانے والوں کے بارے میں معلومات اور خود پیئس کا موقف پہلی مرتبہ پیش کیا گیا ہے۔
پیئس کا کہنا ہے کہ مسافروں کو اب تک اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا کہ ’انھیں ایسی خطرناک صورتحال سے کیوں دوچار کیا گیا‘ اور یہ کہ اس سلسلے میں وہ معذرت کے حقدار ہیں۔
Comments are closed.