سپریم کورٹ آف پاکستان میں نیب ترامیم کے خلاف پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال اٹھایا کہ کیا کوئی رہ گیا ہے جسے نیب قانون سے استثنیٰ نہ ملا ہو؟
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ تحصیل کونسل چیئرمین اور وائس چیئرمین کے فیصلے بھی مستثنیٰ ہو گئے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ مالی فائدہ ثابت کیے بغیر کسی فیصلے کو غلط قرار نہیں دیا جا سکتا، بظاہر افسران اور عوامی عہدے داران کو فیصلہ سازی کی آزادی دی گئی ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ایسے فیصلہ سازوں سے ہی ماضی میں 8 ارب روپے سے زائد ریکوری ہوئی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا ریکوری عوامی عہدے داروں سے ہوئی تھی؟
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ عوامی عہدے داروں کے لیے پیسے پکڑنے والوں سے ریکوری ہوئی تھی۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ ہر سرکاری فیصلے کا کسی نہ کسی طبقے کو فائدہ ہوتا ہی ہے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ جب تک پہنچایا گیا فائدہ غیر قانونی نہ ہو تو کوئی قباحت نہیں، مخصوص افسر کو غیر قانونی فائدہ پہنچانے پر کارروائی نہ ہونا غلط ہے، کسی ریگولیٹری اتھارٹی اور سرکاری کمپنی پر نیب ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ نئی ترامیم کے بعد نیب قانون سے بچ نکلنے پر دوسرے قانون میں پھنس جائے گا، آپ کے دلائل سے ایسا لگتا ہے احتساب صرف نیب کر سکتی ہے، احتساب کے لیے دیگر ادارے بھی موجود ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اختیارات کے ناجائز استعمال کا جرم کسی دوسرے قانون میں نہیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ نیب ترامیم میں نجی افراد کو جرائم سے نکال دیا گیا ہے، آمدن سے زائد اثاثوں کا جرم نیب کا ہے، آمدن سے زائد اثاثوں پر اس وقت کارروائی ہو گی جب کرپشن ثابت ہو۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ترامیم سے کئی جرائم کو ڈی کرمنلائز کر دیا گیا ہے، ریمانڈ کتنا ہو؟ ضمانت کیسے ہو گی؟ ان ترامیم پر آپ کا اعتراض نہیں؟
خواجہ حارث نے کہا کہ یہ اچھی ترامیم ہیں، ان پر اعتراض نہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ نیب ترامیم سے کون سے جرائم حذف کر دیے گئے؟
خواجہ حارث نے جواب دیا کہ آمدن سے زائد اثاثوں اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے جرائم کو حذف کر دیا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نیب قانون میں آمدن سے زائد اثاثوں کا جرم آج بھی نیب قانون میں موجود ہے، کیا عدالت اب قانون کے ڈیزائن کا جائزہ بھی لے گی؟
پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ نیب ترامیم میں یہی تو ایکسر سائز ہوئی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدالت پارلیمنٹ کے ساتھ چالاکی کو کیسے منسوب کر سکتی ہے؟
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پاکستان جیسے ملک میں درست ٹیکس ریٹرنز جمع نہیں کرائے جاتے، اثاثوں کا آمدن سے محض زائد ہونا کافی نہیں، آمدن سے زائد اثاثوں میں کرپشن کا ہونا بھی ضروری ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کل کو کوئی عدالت آ کر کہے کہ آمدن سے زائد اثاثوں پر پھانسی ہونی چاہیے، جرم ثابت کرنے کا بوجھ کس پر اور کتنا ہو گا؟ یہ بحث عدالت میں نہیں بلکہ قومی اسمبلی میں ہونی چاہیے، نیب کے قانون کے مطابق ججز کو استثنیٰ نہیں۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ بنیادی انسانی حقوق کے بارے میں بھی توازن ہوتا ہے، عام شہری کے حقوق ہیں تو قومی مفاد اور معاشرے کے بھی بنیادی حقوق ہیں، آپ انفرادی افراد کو فائدہ ملنے کو معاشرے کے حقوق کے ساتھ لنک کر رہے ہیں، اگر دیگر فورمز پر کیسز جائیں تو کیا ہو گا؟ ہمیں اس پر معاونت درکار ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے خواجہ حارث سے سوال کیا کہ آپ کو اپنے دلائل مکمل کرنے کے لیے مزید کتنا وقت درکار ہے؟
پی ٹی آئی کے وکیل نے جواب دیا کہ میں 4 سماعتوں میں دلائل مکمل کر لوں گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نیب قانون عوامی مفاد کے لیے نقصان دہ کیسے ہے؟ یہ سوال اہم ہے۔
خواجہ حارث نے جواب دیا کہ 50 کروڑ روپے کی کرپشن پر نیب کی کارروائی کی حد کم کر کے 10 کروڑ بھی ہو سکتی ہے، ہمارا مدعا نیب کے قانون کا اطلاق ماضی سے کرنے پر اعتراض ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ پاک فوج کو نیب قانون سے استثنیٰ کیوں دیا گیا ہے؟ سارا پیسہ اور کاروبار تو فوج کے پاس ہے، کیا فوج احتساب سے بالاتر ہے؟ ملک میں سب سے بڑا کاروبار فوج کرتی ہے، عمران خان نے فوج کے احتساب کا نقطہ درخواست میں کیوں نہیں اٹھایا؟
Comments are closed.