کیا چین کی ’سست‘ معیشت ’ایک ٹائم بم‘ کی طرح پھٹ سکتی ہے؟

چینی معیشت

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشن

اگرچہ یہ امکان بہت کم ہے کہ معیشت تباہ ہو جائے یا کوئی بڑا عمل اسے غیر مستحکم کرے، لیکن یہ ضرور ہے کہ چین کو اس وقت چند بڑے پیمانے کے معاشی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے

  • مصنف, نک مارش
  • عہدہ, ایشیا بزنس نامہ نگار

گذشتہ چھ ماہ چین کی معیشت کے لیے بری خبریں لے کر آئے ہیں: چین کو سست ترقی، نوجوانوں میں بے روزگاری کی ریکارڈ سطح، کم غیر ملکی سرمایہ کاری، کمزور برآمدات اور کرنسی، اور رئیل سٹیٹ سیکٹر کے بحران کا سامنا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت کی غیر یقینی صورت حال کو ’ٹکنگ ٹائم بم‘ یا ایک ایسے بم سے تشبیہ دی ہے کہ جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔

تاہم چین کے صدر شی جن پنگ نے ملکی معیشت سے متعلق امریکی صدر کے بیان کا جواب یہ کہہ کر دیا کہ ’چین کی معشیت ’مضبوط، ہر قسم کے چیلنج کا سامنا کرنے کی زبردست صلاحیت رکھنے والی اور پر جوش انداز میں آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔‘

تو اب ان دو بڑے رہنماؤں میں کون صحیح ہے، صدر بائیڈن یا صدر شی؟ یہاں بھی معاملہ وہی ہے جو اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ اس سوال کا جواب شاید ہوا میں ہی کہیں ہو۔

اگرچہ یہ امکان بہت کم ہے کہ معیشت تباہ ہو جائے یا کوئی بڑا عمل اسے غیر مستحکم کرے، لیکن یہ ضرور ہے کہ چین کو اس وقت چند بڑے پیمانے کے معاشی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ریئل اسٹیٹ کا شعبہ اور غریب گھرانے

چین کے معاشی مسائل کا مرکز اس کی ریئل اسٹیٹ مارکیٹ ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک، ریئل اسٹیٹ چینی معشیت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا کیونکہ یہ مُلک کی کل دولت کا ایک تہائی حصہ تھا۔

سنگاپور میں بزنس سکول ’انسیڈ‘ (INSEAD) سے تعلق رکھنے والے معاشی ماہر پروفیسر انتونیو فاتاس کہتے ہیں، کہ ’یہ بات بالکل بے معنی ہے، جس کا کوئی جواز ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘

دو دہائیوں تک، اس شعبے میں تیزی آئی جب اس میں نجکاری کے عمل کو پروان چڑھایا گیا۔ لیکن 2020 کا وہ وقت جب کورونا کی وبا نے دُنیا بھر کو ہی متاثر کیا اور چین میں بھی رئیل سٹیٹ انڈسٹری سُکڑنا شروع ہو گئی، جس کی وجہ سے یہ شعبہ شاید دوبارہ اب تک سنبھل ہی نہیں پایا۔

چینی حکومت، امریکی طرز کے سنہ 2008 کے معاشی بحران سے خوفزدہ دکھائی دی، جس کے بعد ایک حد مقرر کر دی گئی کہ ڈویلپر کتنا قرض لے سکتے ہیں۔ جلد ہی ان پر اربوں کا وہ قرض چڑھ گیا جسے وہ اُتارنے میں ناکام رہے۔

مکانات کی مانگ میں شدید کمی آئی اور پراپرٹی کی قیمتیں بھی تنزلی کا شکار ہوئیں، اُس مُشکل وقت اور کورونا کی پابندیوں سے چینی لوگوں کو نکلنے اور سنبھلے میں تین سال کا عرصہ لگا۔

چینی معیشت

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

ایلیسیا گارسیا-ہیریرو، ویلتھ مینجمنٹ فرم نیٹیکسس کی چیف ایشیا اکانومسٹ کے مطابق ’چین میں، پراپرٹی آپ کے لیے بچت کا بہترین ذریعہ ہے،‘

اُن کا کہنا ہے کہ ’حال ہی میں، یہ آپ کے پیسے کو غیر یقینی کی صورت حال سے دو چار سٹاک مارکیٹ یا کم شرح سود والے بینک اکاؤنٹ میں ڈالنے سے بہتر عمل ہے۔‘

اس کا مطلب یہ ہے کہ مغربی ممالک کے برعکس، وبائی امراض کے بعد اخراجات میں کوئی تیزی یا کسی بھی بڑے معاشی بحران کا سامنا نہیں ہے۔

گارسیا ہیریرو نے کہا کہ ’یہ خیال تھا کہ چینی لوگ کورونا وبا کے بعد اپنے پیسے کے استعمال یا خرچ میں بہت آگے نکل جائیں گے۔‘

اُن کے مطابق ’وہ (چینی لوگ) دُنیا گھمنے جائیں گے، وہ پیرس جائیں گے، اور ایفل ٹاور بھی دیکھیں گے، لیکن درحقیقت وہ یہ جانتے تھے کہ ملکی معیشت اور وہاں اشیا کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ اُن پر بوجھ ثابت ہو سکتا ہے اس لیے انھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ان کے پاس جو نقد رقم ہے، اسے وہ آنے والے مُشکل وقت کے لیے بچا رکھیں گے۔‘

بعض اقتصادی ماہرین کے مطابق پراپرٹی کی موجودہ صورت حال اور حالات سے نکلنے میں برسوں لگیں گے۔

ایک ناقص معاشی ماڈل

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

چین کے معاشی اقدامات اور اس کے کام کرنے کے انداز میں موجود مسائل کی ایک جھلک پراپرٹی سیکٹر میں بھی بڑے واضع انداز میں دکھائی دیتی ہے۔

گذشتہ 30 سالوں میں ملک کی حیران کن انداز میں ترقی ہوئی اور اس نے معیشت کو سنبھالا دیا، سڑکوں، رابطہ پلوں اور ریلوے لائن سے لے کر فیکٹریوں، ہوائی اڈوں اور مکانات تک ہر چیز میں یہ عنصر نظر آیا۔

تاہم، کچھ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نقطہ نظر علامتی اور لفظی طور پر ہی نظر آ رہا ہے۔

چین کی عمارت سازی کی ایک اور عجیب مثال میانمار کی سرحد کے قریب صوبہ یونان میں دیکھی جا سکتی ہے۔ جہاں حکام نے حیران کُن طور پر اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’وہ لاکھوں ڈالر کی مدد سے ایک قرنطینہ سینٹر بنانے جا رہے ہیں جہاں ضرورت پڑنے پر بڑی تعداد میں کورونا کے مریضوں کو رکھا جا سکے گا۔

اہم بات یہ ہے کہ چین پیسے کے ضیاع کو روکنے کے لیے کُچھ اور بھی کر سکتا ہے۔ ملک کو اپنے لوگوں کے لیے خوشحالی پیدا کرنے کا کوئی اور راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

پروفیسر فاتاس کا کہنا ہے کہ ’ہم ایک اہم مقام پر ہیں‘، اُن کے مطابق ’پرانا ماڈل کام نہیں کر پا رہا، لیکن سوچ کے محور کو تبدیل کرنے کے لیے آپ کو سنجیدہ سے تنظیمی اور ادارہ جاتی اصلاحات کی ضرورت ہے۔‘

مثال کے طور پر، پروفیسر فاتاس دلیل دیتے ہیں کہ ’اگر چین چاہتا ہے کہ کوئی مالیاتی شعبہ اپنی معیشت کو تیز کرے اور امریکہ یا یورپ کا مقابلہ کرے، تو حکومت کو سب سے پہلے ضابطے کو کافی حد تک ڈھیل دینے کی ضرورت پڑے گی۔‘

لیکن حقیقت میں اس کے برعکس ہوا ہے۔ چینی حکومت نے فنانس سیکٹر پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے، ’مغربی‘ بینکرز پر دباؤ بڑھایا اور علی بابا جیسی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا ہے۔

اس کی ایک جھلک تو ہمیں بڑی تعداد میں نوجوانوں کی بے روزگاری کی صورت میں دکھائی دیتی ہے۔ پورے چین میں، لاکھوں پڑھے لکھے گریجویٹس شہری علاقوں میں وائٹ کالر نوکریاں تلاش کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

چینی معیشت

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

جولائی میں، اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 16 سے 25 سال کی عمر کے درمیان ملازمت کے متلاشیوں کی شرح 21.3 فیصد ہے۔ تاہم اس کے بعد سے حکام نے اعلان کیا کہ وہ اس بارے میں اعداد و شمار شائع کرنا بند کر دیں گے۔

پروفیسر فاتاس کے مطابق ’یہ مرکزی معیشت کے نظام میں اُس سختی کو ظاہر کرتا ہے جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں اب تک نوجوانوں کی موجودگی کے باوجود انھیں نظام کا حصہ نہیں بنایا جا سکا ہے یا اس عمل میں مُشکلات کا سامنا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

اب حکومت کیا کرے گی؟

معاشی سمت کی تبدیلی کے لیے سیاسی نظریے کی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کی حال ہی میں سخت گرفت اور صدر شی کی سی سی پی پر توجہ کو دیکھتے ہوئے، ایسا لگتا نہیں ہے۔ قیادت دلیل دے سکتی ہے مگر یہ ضروری بھی نہیں ہے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے چین اپنی کامیابی کی بھینٹ چڑھ رہا ہے۔ ترقی کی موجودہ شرح کا اگر گذشتہ سالوں سے موازنہ کیا جائے تو اسے ’سست‘ کہا جا سکتا ہے کیونکہ گذشتہ برسوں میں چین میں ترقی کی شرح حیران کن حد تک تیز رہی۔

سنہ 1989 کے بعد سے، چین کی اوسط شرح نمو تقریباً نو فیصد سالانہ رہی ہے۔ تاہم سنہ 2023 میں یہ اعداد و شمار تقریباً 4.5 فیصد ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

یہ ایک بڑی گراوٹ ہے، لیکن پھر بھی امریکہ، برطانیہ اور بیشتر یورپی ممالک کی معیشتوں سے بہت زیادہ ہے۔ کچھ لوگوں نے دلیل دی ہے کہ یہ چین کی قیادت کے لیے بالکل ٹھیک ہے۔

مغربی معیشتیں لوگوں کے اخراجات سے چلتی ہیں، لیکن بیجنگ اس ماڈل سے محتاط ہے۔ اسے نہ صرف فضول سمجھا جاتا ہے بلکہ یہ انفرادیت پسند بھی ہے۔

صارفین کو نیا ٹی وی خریدنے، سٹریمنگ سروسز کو سبسکرائب کرنے یا چھٹیوں پر جانے کے لیے با اختیار بنانا معیشت کو متحرک کرنے میں مددگار ہو سکتا ہے، لیکن یہ چین کی قومی سلامتی یا امریکہ کے ساتھ اس کے مقابلے کے لیے ناکافی ہے۔

بنیادی طور پر صدر شی ترقی چاہتے ہیں اور سیمی کنڈکٹرز، مصنوعی ذہانت اور گرین ٹیکنالوجی جیسی جدید صنعتوں میں حالیہ تیزی کے پیچھے یہ عوامل ہوسکتے ہیں، یہ سب چین کو عالمی سطح پر مسابقتی رکھتے ہیں اور اسے دوسروں پر کم انحصار کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

یہ نظریہ گرتی ہوئی معیشت پر حکومت کے محدود ردعمل کی وضاحت بھی کر سکتا ہے۔ چین میں غیر ملکی سرمایہ کار پریشان ہیں اور چاہتے ہیں کہ حکومت جلد ایکشن لے لیکن حکام طویل کھیل کھیلتے نظر آتے ہیں۔

وہ جانتے ہیں کہ کاغذات کی حد تک، چین میں اب بھی زیادہ ترقی کی بڑی صلاحیت موجود ہے۔ یہ ایک اقتصادی پاور ہاؤس ہو سکتا ہے، لیکن اوسط سالانہ آمدنی اب بھی صرف $12,850 ہے۔ تقریباً 40 فیصد لوگ اب بھی دیہی علاقوں میں رہتے ہیں۔

معیشیت

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

شی جن پنگ نے اس سال کے شروع میں ملک کے رہنما کی حیثیت سے تیسری مدت کے لیے منصب سنبھالا۔

زیادہ تر لوگوں کے لیے یہ ٹھیک ہے جب معیشت اچھی طرح چل رہی ہو۔ لیکن جیسا کہ چین تین سال کے کورونا کے وبا کے دور سے نکلنے کی کوشش میں ہے، بہت سے لوگوں کو نوکری تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے۔

یہ ہمیں صدر بائیڈن کے ’ٹکنگ ٹائم بم‘ کی وضاحت پر واپس لے جاتا ہے، جو شہری بدامنی یا اس سے بھی زیادہ سنجیدگی سے معاشرے پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ اس کے جواب میں کسی قسم کی خطرناک خارجہ پالیسی بھی تجویز دی جا سکتی ہے۔

اگرچہ، اس وقت یہ قیاس آرائیاں ہیں۔ چین ماضی میں جتنے بھی بحرانوں سے نکلا ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کی قیادت کو اب ایک منفرد چیلنج کا سامنا ہے۔

پروفیسر فاتاس کہتے ہیں کہ ’کیا وہ موجودہ صورتحال کے بارے میں فکر مند ہیں؟ یقیناً، وہ فکر مند ہیں‘ کیونکہ وہ اس پر نظر رکھتے ہیں۔ اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’کیا وہ (صدر شی) سمجھتے ہیں کہ اب اس صورت میں کیا کرنے کی ضرورت ہے؟‘

وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے یقین نہیں ہے لیکن میرا اندازہ ہے کہ وہ کچھ ایسی چیزیں کھو رہے ہیں جو چین کے مستقبل کے لیے بنیادی اور نہایت اہمیت رکھتی ہیں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ