کیا چین فوجی مشقوں سے تائیوان اور امریکہ کو بیک فُٹ پر لانے میں کامیاب ہو گیا ہے؟

china

،تصویر کا ذریعہHANDOUT

  • مصنف, گریس سوئی
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

حالیہ دنوں میں چین نے ایک بار پھر تائیوان کے گرد و نواح میں فوجی مشقوں کا انعقاد کیا ہے لیکن اس کے پسِ پردہ عوامل خاصے دلچسپ ہیں۔

بعض ماہرین کے نزدیک چین نے ان مشتقوں کی شدت میں نرمی کی ہوئی ہے جس کا تعلق تائیوان میں عنقریب صدارتی انتخابات کا انعقاد سے ہے۔

ماہرین کے مطابق نو ماہ بعد ہونے والے ان انتحابات میں چین اپنے مفاد کے پیش نظر تائیوان کی حزب اختلاف کی جماعت کومینتانگ یعنی کے ایم ٹی کی جیت کا خواہاں ہے۔

مشقوں کے دوران تائیوان کے قریب کوئی میزائل فائر نہیں کیا گیا اور یہ مشقیں صرف تین دن تک جاری رہیں جبکہ تائیوان کی صدر سائی انگ وین سے ملاقات کرنے والے امریکی سیاست دان ہاؤس سپیکر کیون مکارتھی پر پابندی بھی نہیں لگائی گئی۔

سابق سپیکر نینسی پیلوسی نے گذشتہ اگست میں تائی پے کا دورہ کیا تھا تو چین کا ردِعمل اس سے زیادہ سخت تھا۔

تائیوان کی نیشنل چینگ شی یونیورسٹی کے پروفیسر چن شین یین کا کہنا ہے کہ ’چین کی یہ مشقیں نینسی پیلوسی کے دورے کے بعد سے چین کے آپریشنل طریقہ کار کا ایک لازمی حصہ بن گئی ہیں۔

انھیں اپنی پوزیشن سے آگاہ رہنے کی ضرورت ہے تاہم ان کا ردِعمل اس انتہا پر نہیں جانا چاہیے۔‘

چینی کمیونسٹ پارٹی نے 1949 میں ختم ہونے والی خانہ جنگی میں کے ایم ٹی کو شکست دی اور پھر اسے تائیوان فرار ہونے پر مجبور کر دیا تاہم حالیہ دہائیوں میں سابقہ حریفوں نے 1992 کے اتفاقِ رائے سے مشترکہ بنیاد بنائی جس میں (مبہم الفاظ میں) کہا گیا ہے کہ صرف ’ون چائنہ‘ ہے جس میں تائیوان بھی شامل ہے۔

پروفیسر یین کے مطابق اگر بیجنگ کی سخت گیر بیان بازی جاری رہی تو اسے انتخابات میں آزادی کی طرف جھکاؤ رکھنے والی ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی کی کامیاب انتخابی مہم کا سامنا کرنا پڑے گا۔

گذشتہ برس ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں کے ایم ٹی نے بڑی کامیابی حاصل کی تھی تاہم تجزیہ کار کہتے ہیں کہ چین کی پالیسیاں صدارتی انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔

تائیوان کی سوچو یونیورسٹی کے پروفیسر فانگ یوچن کا کہنا ہے کہ چین نے دوہری حکمت عملی اپنائی ہوئی ہے جس میں وہ ایک ہاتھ سے گاجر دے کردوسرے ہاتھ سے چھڑی مار رہا ہے۔

ایک طرف چین تائیوان کے ’ون چین‘ کے اصول کو ماننےکی صورت میں اس کے ساتھ اقتصادی اور ثقافتی تعاون پر متقفق ہے ساتھ ساتھ اس کی اپنی فوجی مشقیں بھی جاری ہیں۔

فانگ یوچن کہتے ہیں کہ ’چین تائیوان کی عوام کو بتانا چاہتا ہے کہ اگر وہ ڈی پی پی کو ووٹ دیتے ہیں تو جنگ اور کے ایم ٹی کو ووٹ دیتے ہیں تو امن ہو گا۔

’اس حکمت عملی میں توازن کا فقدان ہے تاہم دوسری جانب چین کو تائیوان کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے لیے شدید اندرونی دباؤ کا بھی سامنا ہے خصوصاً ایسی صورتحال میں جب چین خود اپنے شہریوں میں قوم پرستی کو بڑھاوا دے رہا ہے۔‘

china

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اگر چین کی فوجی مشقوں کا مقصد امریکہ اور تائیوان کے سیاست دانوں کو اس خوف میں مبتلا کرنا تھا کہ چین اہداف کے مزید قریب تر ہے تو انھیں اس میں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

اس کے ردِ عمل میں تائیوان نے سائی مکارتھی میٹنگ کے گرد موجود تناؤ میں کمی لانے کی کوشش کی ہے۔

گذشتہ جولائی کو مکاراتھی نے کہا تھا کہ کہ اگر وہ کانگریس کے سپیکر بنے تو وہ یہاں کانگریس اراکین کو لانے والے وفد کی سربراہی کریں گے۔

جریدے فائننشل ٹائمز کی خبر کے مطابق انھیں ذرائع سے یہ خبر ملی ہے کہ سائی انتظامیہ نے انھیں یہ ملاقات امریکہ میں ہی کرنے پر آمادہ کر لیا کیونکہ تائیوان میں سکیورٹی خدشات تھے۔

امریکہ کی جانب سے بھی اس ملاقات کو زیادہ اجاگر نہیں کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ سائی کا اقتدار میں آنے کے بعد سے امریکہ کا ساتواں دورہ ہے۔ امریکہ اور تائیوان دونوں نے ہی اسے ’ٹرانزٹ‘ یا ’سٹاپ اوور‘ قرار دیا ہے یعنی کسی اور ملک کے سفر کے دوران ایک تیسرے ملک میں کچھ وقت گزارنے کا عمل، لیکن دونوں نے ہی اسے ’دورہ‘ نہیں کہا۔

پروفیسر شین کہتے ہیں کہ ’امریکہ اور تائیوان نے یہ سبق سیکھ لیا ہے کہ انھیں اپنے رشتے کو زیادہ اجاگر نہیں کرنا۔‘

تاہم وہ کہتے ہیں کہ یہ تائیوان کے لیے فتح ہے کیونکہ مکارتھی امریکی انتظامیہ کے سب سے اعلیٰ منصب پر فائض افسر تھے جس سے 1979 کے بعد سے کسی بھی تائیوانی صدر کی ملاقات ہوئی ہے۔ خیال رہے کہ 1979 میں امریکہ نے تائیوان سے سفارتی تعلقات ختم کر دیے تھے۔

تائیوان کا مسئلہ امریکہ چین تعلقات میں سب سے بڑا ’فلیش پوائنٹ‘ سمجھا جاتا ہے۔ چین کا ماننا ہے کہ تائیوان اس کا حصہ ہے اور اس کا کنٹرول واپس لینے کے لیے وہ طاقت کا استعمال بھی کرنے کو تیار ہے۔

تاہم امریکہ کی جانب سے تائیوان کی زیادہ سے زیادہ حمایت کی جا رہی ہے اور چین نے الزام عائد کیا ہے کہ امریکہ اس کی ’ون چائنہ پالیسی‘ میں شگاف ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اس پالیسی کے تحت امریکہ چین کی حیثیت تسلیم کرتا ہے نہ کہ تائیوان کے جزیرے کی۔ چین تائیوان کو ایک جزیرے کے طور پر دیکھتا ہے جو اس سے علیحدہ تو ہو گیا لیکن ایک دن واپس اس میں شامل ہو جائbbے گا۔

china

تاہم یہ ’ون چائنہ‘ کے اصول سے مختلف ہے جس کے تحت چین کا ماننا ہے کہ تائیوان ’ون چائنہ‘ کا انتہائی اہم حصہ ہے اور ایک دن اس کا الحاق اس کے ساتھ ہو جائے گا۔

امریکی پالیسی بیجنگ کے مؤقف کی کسی صورت بھی توثیق تو نہیں ہے لیکن امریکہ تائیوان سے ’فعال رشتہ‘ بحال رکھتا ہے جس میں جزیرے کو اسلحہ دینے کا عمل بھی شامل ہے تاکہ وہ اپنا دفاع کر سکے۔

گذشتہ برس صدر جو بائیڈن نے بارہا اس بات کو دہرایا تھا کہ اگر چین نے تائیوان پر حملہ کیا تو امریکہ مداخلت کرے گا۔ یہ بیان امریکہ کی سرکاری موقف کے خلاف دیکھی جا سکتی ہے۔

ایشیا میں اپنی فوج کو دوبارہ منظم کرنے کے لیے امریکہ فلپائن کے ساتھ مل کر اگلے منگل سے مشترکہ بحری مشکوں کا آغاز کرے گا۔

امریکہ نے فلپائن میں چار مزید فوجی اڈوں کو اپنے کنٹرول میں رکھا ہوا ہے جو بحیرہ جنوبی چین میں واقع ہیں اور ان میں سے تین تائیوان سے قدرے قریب ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

تائیوان میں لوگ چین کی جانب سے ان مشقوں کے دوران خاصے پرسکون دکھائی دیے جن اہداف کو نشانہ بنانے کی مشقیں اور جزیرے کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی پریکٹس کی گئی۔ خیال رہے کہ چین کی جانب سے یہ عمل گذشتہ برس اگست میں بھی کیا گیا تھا۔

تاہم پروفیسر یین پریشان ہیں کہ جزیرے پر سلامتی کے جھوٹے احساس کا راج نہ ہو جائے۔

تازہ ترین جارحیت میں چین کے جنگی طیارے اور بحری جہاز اس ’میڈین لائن‘ کو کراس کر گئے ہیں جو غیر سرکاری طور پر تائیوان اور چین کو تقسیم کرتی ہے اور گذشتہ 70 سالوں سے اس کا احترام کیا جا رہا تھا۔

پروفیسر یین کہتے ہیں کہ ’چین مستقبل میں بھی ایسی مشقیں کرتا رہے اور جب وہ ایک دن تائیوان پر حملہ کرے گا تو اس کے پاس اس کا جواب نہیں ہو گا۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ