بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

کیا چین سے بڑھتی قربت بنگلہ دیش پر امریکی پابندیوں کی وجہ بنی؟

بنگلہ دیش امریکہ تعلقات: بنگلہ دیشی پیرا ملٹری فورس راب پر امریکی پابندیاں چین کو ڈرانے کی کوشش ہیں؟

  • سلمان راوی
  • بی بی سی کے نامہ نگار

بائیڈن حسینہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

امریکہ کی طرف سے بنگلہ دیش پر پابندیاں عائد ہونے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں سرد مہری دیکھنے میں آ رہی ہے۔

ایک طرف امریکہ سفارتی سطح پر بنگلہ دیش کو نظر انداز کر رہا ہے تو دوسری طرف خود اسے چین کے قریب کرنے کی ٹھوس وجوہات کا سبب بھی بن رہا ہے۔

بی سی سی نے اس معاملے پر بین الاقوامی امور کے ماہرین سے بھی تفصیل سے بات کی ہے مگر پہلے بنگلہ دیش پر عائد ہونے والی نئی امریکی پابندیوں کے پس منظر پر ایک نظر دوڑاتے ہیں۔

بنگلہ دیش سے امریکی دوری کا پس منظر

یہ معاملہ سال 2010 کا ہے جب بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے رہنما چودھری اسلم اچانک لاپتہ ہو گئے۔

اچانک لاپتہ ہونے کا الزام بنگلہ دیش کی سب سے مقبول پیرا ملٹری فورس ’ریپڈ ایکشن بٹالین‘ یعنی ’راب‘ پر لگایا گیا۔ چودھری اسلم ایک بہت ہی باکمال رہنما تھے، لیکن آج تک ان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔

دوسرا بڑا مقدمہ عوامی لیگ کے بڑے ناقد الیاس علی کا ہے، جو سنہ 2012 میں اپنی گاڑی کے ڈرائیور سمیت لاپتہ ہو گئے تھے۔ اس واقعہ کا الزام بھی ’راب‘ پر عائد کیا گیا۔

امریکہ نے راب پر سیاسی رہنماؤں کو جعلی مقابلوں میں ہلاک کرنے کا الزام عائد کیا ہے اور کہا ہے کہ سنہ 2009 سے اب تک سینکڑوں اہم افراد کی پراسرار گمشدگی کے پیچھے اسی نیم فوجی دستے کا ہاتھ ہے۔

لیکن جمعے کو امریکہ نے نہ صرف اس نیم فوجی دستے پر پابندی لگا دی بلکہ بنگلہ دیش پولیس کے سات اعلیٰ افسران کے امریکہ میں داخلے پر بھی پابندی لگا دی۔ یہ سب انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر ہوا۔

دفاعی امور کے ماہرین اس بات پر حیران نظر آتے ہیں کہ بنگلہ دیش کی فوج کے سربراہ نے چند ماہ قبل ہی امریکہ کا دورہ کیا تھا اور دونوں ممالک کی افواج نے باہمی تعاون بڑھانے کے معاہدے پر دستخط بھی کیے تھے۔

اسی دوران فروری میں امریکی محکمہ خارجہ کے نمائندے نے بھی بنگلہ دیش کا دورہ کیا تھا۔

گذشتہ ہفتے امریکی صدر جو بائیڈن نے ’ورچوئل ڈیموکریسی سمٹ‘ کا انعقاد کیا، جس میں انڈیا سمیت 110 ممالک کے سربراہانِ مملکت نے شرکت کی، لیکن بنگلہ دیش کو اس میں مدعو نہیں کیا گیا۔

یہ ایک ایسی پیش رفت تھی، جس پر جنوبی ایشیا کے امور پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین بھی حیرت میں ڈوبے رہ گئے۔

امریکی صدر جو بائیڈن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

حیرت کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ امریکہ نے پاکستان کو اس تقریب میں شرکت کی دعوت دی تھی لیکن پاکستان نے اس میں شرکت سے معذرت کر لی تھی۔ تاہم امریکہ نے اس کانفرنس میں شرکت کے لیے چین اور بنگلہ دیش کو مدعو نہیں کیا۔

بنگلہ دیش نے امریکی سفیر کو طلب کر کے ان واقعات پر برہمی کا اظہار کیا۔ بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ ابوالکلام مومن نے ایک طنزیہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’امریکہ نے اس تقریب میں صرف کمزور جمہوری ممالک کو مدعو کیا ہے۔‘ جبکہ بنگلہ دیشی وزارت داخلہ کا الزام ہے کہ ’امریکہ نے ’راب‘ پر پابندی صرف سنسنی خیز اور مبالغہ آمیز میڈیا رپورٹس کی بنیاد پر لگائی۔‘

دونوں ممالک کے درمیان بگاڑ کیسے پیدا ہوا؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ ہمیشہ بنگلہ دیش کے ساتھ بہتر تعلقات کا خواہاں رہا ہے تاکہ وہ جنوبی ایشیا میں چین کے منصوبوں کو روک سکے۔ تو دونوں ممالک کے تعلقات میں اچانک ایسا موڑ کیسے آ گیا؟ اس کی وضاحت مختلف طریقوں سے کی جا رہی ہے۔

کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ بنگلہ دیش کی چین کے ساتھ بڑھتی ہوئی قربت ہے لیکن کچھ کا خیال ہے کہ اگر امریکہ ایسا کر رہا ہے تو وہ بنگلہ دیش کو چین کے مزید قریب کر دے گا۔

ماہرین اس بات پر بھی حیران ہیں کہ بنگلہ دیش امریکہ کو بڑے پیمانے پر ’ریڈی میڈ ملبوسات‘ برآمد کرتا ہے اور یہ بھی کہ وہ بنگلہ دیش کی پولیس اور فوج کے افسران کو تربیت دیتا رہا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ افغانستان اور پاکستان کے بعد سب سے زیادہ امریکی امداد بنگلہ دیش کو دی گئی ہے۔

راب پر پابندی کا اعلان کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے واضح کیا کہ انسانی حقوق ان کی خارجہ پالیسی کا اہم حصہ رہیں گے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ان کا ملک انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو روکنے کے لیے وقتاً فوقتاً اقدامات کرتا رہے گا، چاہے یہ دنیا کے کسی کونے میں ہو رہا ہو۔

بنگلہ دیشی حکام

امریکہ ان پابندیوں سے کیا پیغام دینا چاہتا ہے؟

خارجہ امور کے ماہر اور سینیئر صحافی منوج جوشی کا خیال ہے کہ بنگلہ دیش پر پابندی ایک طرح سے ایک ‘سگنل’ ہے جو امریکہ ان ممالک کو دینا چاہتا ہے، جن پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی یا جمہوری اقدار کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے جوشی کا کہنا تھا کہ ‘چین میں ایک کہاوت ہے کہ بندر کو مار کر بھی شیر کو ڈرایا جا سکتا ہے۔ امریکہ بھی ایسا ہی کچھ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ کسی کو اشارہ دینا چاہتا ہے لیکن کان کسی اور کا مروڑ رہا ہے‘۔

جوشی کے مطابق امریکہ کی بنگلہ دیش میں اتنی سٹریٹجک دلچسپی نہیں ہے یا اس کے پاس اتنا سٹریٹجک عزم نہیں ہے۔ اس لیے اس نے آسانی سے بنگلہ دیش کو نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پابندی کا مطلب یہ نہیں کہ بنگلہ دیش کو دی جانے والی امریکی امداد میں کوئی کٹوتی ہو گی۔

’صرف ایک پیغام جو امریکہ ان ممالک کو کھلے عام نہیں دے سکتا، جہاں جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات لگائے جاتے ہیں کیونکہ امریکہ کے وسیع تر سٹریٹجک مفادات ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

سٹریٹیجک امور کے ماہر اور لندن کے کنگز کالج کے پروفیسر ہرش وی پنت اسے امریکہ کی ’سفارتی غلطی‘ سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر پیرا ملٹری فورس ’راب‘ پر پابندی لگانی تھی تو ایسا بیک ڈور مذاکرات کے ذریعے کیا جا سکتا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ڈیموکریسی سمٹ میں مدعو کرنا اور بنگلہ دیش کو مدعو نہ کرنا اس بات کی علامت ہے کہ امریکہ اپنی خارجہ پالیسی کے بارے میں ایک بنیادی مخمصے کا شکار ہے۔

ان کے مطابق چین بنگلہ دیش میں بھی بہت پیسہ خرچ کر رہا ہے اور وہاں بھی بہت سے منصوبے چلا رہا ہے۔ ان کے خیال میں امریکہ کے اس فیصلے میں کوئی پختگی نہیں ہے۔

راب

راب کیا ہے؟

یہ نیم فوجی دستہ سال 2004 میں وزیر اعظم خالدہ ضیا کی قیادت میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے دور میں قائم کیا گیا تھا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس فورس پر گذشتہ 20 برسوں میں 1,200 سے زیادہ جعلی مقابلے کروانے کا الزام عائد کیا ہے۔ یہ بھی الزامات ہیں کہ تقریباً 500 افراد لاپتہ بھی کیے گئے ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ نے ’راب‘ کے بارے میں وقتاً فوقتاً مختلف رپورٹس جاری کی ہیں، جن میں راب پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک کارکن نور خان کے مطابق ان تمام معاملات سے متعلق دستاویزات موجود ہیں۔ ایک بیان میں انھوں نے کہا کہ وہ بنگلہ دیش کی حکومت سے مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ ان تمام الزامات کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد کمیشن قائم کیا جائے۔

اسی لیے ان کا کہنا ہے کہ امریکہ نے جو کچھ کیا ہے اس پر کوئی تعجب کی بات نہیں ہونی چاہیے۔

بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم اودھیکار نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سال 2004 سے 2020 تک تقریباً 1200 فرضی انکاؤنٹرز درج کیے گئے ہیں۔

سنہ 2017 میں اسی طرح کے ایک مقدمے میں ڈھاکہ کی ایک عدالت نے راب کے تین اہلکاروں کو موت کی سزا سنائی تھی۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.