’دی فائیو آئیز الائنس‘: کیا پانچ بڑے ممالک کا انٹیلیجنس اتحاد چین کی وجہ سے خطرے میں ہے؟
- فرینک گارڈنر
- بی بی سی ، سکیورٹی نامہ نگار
فائیو آئیز گروپ نے کئی عشروں سے مغربی طاقتوں کے مابین کامیابی کے ساتھ انٹیلیجنس کا تبادلہ کیا ہے
’دی فائیو آئیز الائنس‘ نامی اتحاد پانچ انگریزی بولنے والے جمہوری ممالک یعنی امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے مابین انٹیلیجنس شیئرنگ کا ایک معاہدہ ہے۔
یہ سرد جنگ کے دوران سوویت یونین کی نگرانی اور کلاسیفائیڈ انٹیلیجنس کے تبادلے کے ایک طریقہ کار کے طور پر شروع ہوا تھا۔ اسے اکثر دنیا کا سب سے کامیاب انٹیلیجنس اتحاد کہا جاتا ہے۔ لیکن حال ہی میں اس اتحاد کوسخت شرمندگی اٹھانا پڑی ہے۔
اس اتحاد کے چار ممبران نے مشترکہ طور پر چین کے صوبے سنکیانگ میں اویغور آبادی کے ساتھ چین کی جانب سے کیے جانے والے سلوک کی مذمت کی۔ انھوں نے چین کی جانب سے بحیرہ جنوبی چین پر فوجی قبضے، ہانگ کانگ میں جمہوریت پر دباؤ اور تائیوان کی جانب اس کی دھمکی آمیز پیشرفت پر بھی تشویش کا اظہار کیا، جس میں چین نے تائیوان کو 2049 تک ‘واپس لینے’ کا عزم کیا تھا۔
مگر اتحاد میں شامل ایک ملک نے چین کے بارے میں اس مسئلے پر بات نہیں کی اور وہ ملک ہے نیوزی لینڈ۔
یہ بھی پڑھیے
حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ قوم جو اس بات پر فخر کرتی ہے کہ وہ انسانی حقوق کا احترام کرتی ہے اُس ملک کی وزیر خارجہ نانیا مہوتہ نے بیجنگ کے اقدامات کی مغربی ممالک کی جانب سے مذمت میں شامل ہونے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ (نیوزی لینڈ) اتحاد کے کردار کو پھیلا کر چین پر اس طرح دباؤ ڈالنے میں ’بے چینی محسوس‘ کرتا ہے۔
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جسینڈا آرڈرن نے پیر کو اعتراف کیا کہ حالانکہ چین کے ساتھ اختلافات پر ’سمجھوتہ کرنا مشکل’ ہوتا جا رہا ہے مگر ان کا ملک بیجنگ کے ساتھ اپنی پالیسی کے تحت تعلقات کو دو طرفہ بنیادوں پر آگے بڑھانے کو ترجیح دیتا ہے۔
نیوزی لینڈ کی وزیر خارجہ نانیا مہوتہ نے دیگر انگریزی بولنے والے جمہوری ممالک کی طرف سے بیجنگ کی مذمت میں شریک ہونے سے انکار کر دیا ہے
چین کے سرکاری میڈیا نے اس بات کو اچھالا، اور یہ کہا کہ دونوں پڑوسی ممالک اور اتحادیوں، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے درمیان دراڑیں پڑ گئی ہے۔
چین نیوزی لینڈ کی سب سے بڑی برآمدی مارکیٹ ہے۔ نیوزی لینڈ اپنی برآمدات کا تقریباً 30 فیصد، زیادہ تر دودھ سے بنی، مصنوعات کے لیے چین پر انحصار کرتا ہے۔ آسٹریلیا بھی ایسا ہی کرتا ہے، لیکن یہ ہمسایہ ممالک چین سے متعلق پالیسیوں کو بالکل مختلف طرح دیکھتے ہیں۔
کینبرا میں آسٹریلیا کی وفاقی حکومت نے ریاست وکٹوریہ میں ایک بڑی چینی سرمایہ کاری کو ویٹو کیا جو بیجنگ کے ‘بیلٹ اینڈ روڈ’ مہم کا حصہ بننا تھی اور جو سرمایہ کاری چین کے دنیا بھر میں معاشی اثاثوں کے حصول کا ایک حصہ تھی۔
دریں اثنا چین نے گذشتہ ایک سال کے دوران آسٹریلیا پر تجارتی پابندیاں عائد کی ہیں جو آسٹریلیا کے لیے نقصان دہ ہیں۔
چونکہ دونوں ممالک کے مابین تجارتی جنگ بدتر ہوتی جا رہی ہے، کچھ رپورٹس کے مطابق چین میں آسٹریلیائی شراب کی برآمدات اس سال کی پہلی سہ ماہی میں 2020 کی پہلی سہ ماہی کے مقابلے میں 96 فیصد کم ہوئی ہیں یعنی 325 ملین آسٹریلین ڈالر سے گھٹ کر 12 ملین آسٹریلین ڈالر تک چلی گئی ہے۔ دوسری جانب بیجنگ نے بدلے کے طور پر نیوزی لینڈ کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھائے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اس سب کا انٹیلیجنس شیئرنگ کے ساتھ دراصل کیا تعلق ہے؟ اس کا جواب ہے، بہت کم۔
گذشتہ سال فائیو آئیز الائنس کے اتحاد کے عہدیداروں نے سمجھا کہ چونکہ پانچوں ممالک وسیع پیمانے پر ایک ہی جیسے عالمی نظریات رکھتے ہیں اس لیے ان کا اطلاق چین پر بھی ہو گا۔ مئی 2020 میں اس اتحاد نے سکیورٹی اور انٹیلیجنس کے معاملوں کے علاوہ انسانی حقوق اور جمہوریت کے احترام کے بارے میں عوامی سطح پر اتحاد کے کردار کو بڑھانے پر اتفاق کیا۔
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جسینڈا آرڈرن نے آسٹریلیائی وزیر اعظم سکاٹ ماریسن سے چین کے بارے میں مختلف موقف اختیار کیا ہے
نومبر میں اس اتحاد نے چینی حکومت پر ہانگ کانگ میں جمہوریت کا گلا گھونٹنے پر تنقید کی تھی جب بیجنگ نے ایسے نئے قانون متعارف کرائے تھے جن سے اس سابق برطانوی کالونی میں منتخب قانون سازوں کو نااہل قرار دیا گیا تھا۔ چینی حکومت کے ترجمان نے رد عمل میں کہا تھا کہ ’جن لوگوں نے چین کی خودمختاری کو نقصان پہنچانے کی ہمت کی وہ اپنی آنکھیں پھوڑی ہوئی پائیں گے۔‘
اب چھ ماہ بعد چین کے بارے میں نیوزی لینڈ کا پارٹی لائن سے علیحدگی کا مطلب یہ ہوا کہ اس کا موقف ’فائیو آئیز‘ کے کردار کو پھیلانے کی کوشش میں رکاوٹ نظر آتی ہے، جس سے کچھ لوگ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا یہ اتحاد مشکل میں ہے۔
لیکن یہ مبالغہ آرائی ہو گی۔ یہ سیاست کا معاملہ تھا، انٹیلیجنس کا نہیں۔ نیوزی لینڈ اتحاد نہیں چھوڑ رہا ہے، یہ صرف دونوں باتوں کے درمیان فرق کر رہا ہے۔ اس اتحاد کے پس منظر میں یہ نئی کوشش ’فائیو آئیز‘ کے کردار سے جو دراصل رازوں کا تبادلہ تھا، کہیں آگے بڑھ گئی تھی۔
نیوزی لینڈ کی انٹیلیجنس کمیونٹی میں یقینی طور پر ایسے لوگ بھی ہوں گے جو عوامی سطح پر اس دھچکے پر شرمندگی محسوس کرتے ہوں گے۔ ابھی تک اتحاد کے اندر زیادہ تر انٹیلیجنس واشنگٹن سے آتی رہی ہے۔ اگلا سب سے بڑا حصہ برطانیہ ڈالتا ہے، جس میں GCHQ ،MI6 اور MI5 کی جانب سے معلومات آتی ہیں۔ کینیڈا اور آسٹریلیا اس میں نسبتاً بہت کم انٹیلیجنس فراہم کرتا ہے۔
جب نیوزی لینڈ کا ذکر ہو تو 2017 میں کیے گئے انٹیلیجنس کے جائزے سے معلوم ہوا کہ اتحاد کے توسط سے نیوزی لینڈ کو انٹیلیجنس کی ملنے والی ہر 99 معلومات کے بدلے نیوزی لینڈ کی جانب سے صرف ایک فراہم کی گئی۔ لہذا اگر نیوزی لینڈ اس اتحاد سے علیحدہ ہوا تو اسے واضح طور پر بہت کچھ کھونا پڑے گا۔
تو کیا یہ اتحاد کسی متفقہ سفارتی یا ایسے گروہ میں تبدیل ہو گا جو سیاسی دباؤ ڈال سکے؟ اس موقع پر یہ ناممکن لگتا ہے۔ کیا رکن ممالک کے مابین انٹیلیجنس شیئرنگ کرنے والے اس اتحاد کے ٹوٹنے کا خطرہ ہے؟ نہیں۔
Comments are closed.