کیا نتن یاہو پر بڑھتی تنقید اور امریکی دباؤ، غزہ میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ روکنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں؟،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, ہیوگو بچیگا
  • عہدہ, نامہ نگار مشرق وسطی، یروشلم
  • 2 گھنٹے قبل

غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کبھی بھی آسان نہیں رہی اور کئی ہفتوں تک جاری رہنے والی بات چیت کے بعد بھی کوئی معاہدہ نہیں ہو پایا لیکن بین الاقوامی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔اس ضمن میں شاید سب سے بڑی پیشرفت بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے سی آئی اے کے سربراہ ولیم برنز کو قاہرہ میں مذاکرات کے تازہ ترین دور کے لیے بھیجنا ہے۔حماس بظاہر مستقل جنگ بندی، اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا اور بے گھر فلسطینیوں کی بغیر کسی پابندی کے علاقے کے شمالی حصوں میں واپسی کے اپنے ابتدائی مطالبات پر قائم ہے۔دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کا اصرار ہے کہ جب تک حماس کو تباہ نہیں کر دیا جاتا اور یرغمالیوں کو آزاد نہیں کیا جاتا، اسرائیل جنگ جاری رکھے گا۔

سنہ 2011 میں اسرائیلی فوجی گیلاد شالت کی رہائی کے لیے حماس کے ساتھ معاہدہ کرانے میں مدد کرنے والے صحافی گیرشون باسکن کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے اسرائیل، مصر اور قطر پر حماس پر دباؤ ڈالنے کے لیے بہت زیادہ زور لگایا جا رہا ہے۔انھوں نے کہا کہ ’در حقیقت سی آئی اے کے سربراہ کی آمد نے یہ ظاہر کیا ہے کہ تمام اعلیٰ سطح کے مذاکرات کاروں کا وہاں پر ہونا ضروری ہے اور یہ امریکی دباؤ میں اضافے کا اشارہ ہے۔‘لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ معاہدہ بس ہونے ہی والا ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesبہرحال اسرائیلی حکام نے امریکہ سمیت اپنے اہم اتحادیوں میں موجود شدید مایوسی کی وجہ سے کچھ رعایتیں دینے پر آمادگی کا اشارہ دیا ہے۔ رواں ہفتے کے شروع میں اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ نے یہ کہا تھا کہ اب جنگ بندی کے لیے صحیح وقت ہے۔کسی بھی معاہدے کے تحت اسرائیلی جیلوں میں قید بہت سے فلسطینی قیدیوں کے بدلے میں حماس کے حملوں میں پکڑے گئے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کی توقع کی جاتی ہے اور گذشتہ سال نومبر میں یہی چیز اسرائیلی حملے میں عارضی وقفے کا باعث بنی تھی۔ اسرائیلی حکام کے مطابق غزہ میں 133 افراد کو قید رکھا گیا ہے جبکہ ان میں سے کم از کم 30 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔تازہ ترین امریکی تجویز کے مطابق چھ ہفتے کی جنگ بندی کے ابتدائی مرحلے میں حماس زندہ بچ جانے والوں میں سے 40 یرغمالیوں کو رہا کرے گا اور ان میں خواتین، فوجیوں، 50 سال سے زائد عمر کے مرد اور سنگین طبی سہولیات کی ضروت والے قیدیوں کی رہائی کو ترجیح دی جائے گی۔اس کے بدلے میں اسرائیل کم از کم 700 فلسطینیوں کو رہا کرے گا جن میں تقریباً 100 افراد ایسے ہیں جو اسرائیلی شہریوں کو قتل کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں اور ان کی رہائی ماضی میں اسرائیل میں متنازع رہی ہے۔لیکن حماس نے مبینہ طور پر مذاکرات کاروں کو بتایا ہے کہ وہ 40 افراد کی رہائی پر بات نہیں کر سکتے کیونکہ یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے زیادہ تر یرغمالی ہلاک ہو چکے ہیں یا وہ فلسطینی اسلامی جہاد جیسے دیگر مسلح گروہوں کے پاس ہو سکتے ہیں۔،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشنغزہ کے بڑے حصے تباہ ہو گئے ہیں اور ایک بہت بڑی آبادی قحط کے دہانے پر پہنچ چکی ہے
یہ بھی پڑھیے

دوسری جانب اسرائیل میں سوسائٹی اور سیاست کے مختلف حلقوں کے دباؤ کی وجہ سے نتن یاہو کے پاس چیزوں کو اپنے طرز سے کرنے کی گنجائش کم ہوتی جا رہی ہے۔ اسرائیلی عوام کی جانب سے یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے پر رضامندی کے مطالبات بڑھ رہے ہیں۔یرغمالیوں کے لواحقین نے بڑے احتجاجی مظاہرے کیے ہیں وزیر اعظم پر الزام لگایا کہ انھوں نے قیدیوں کی واپسی کو ترجیح نہیں دی اور یہ کہ وہ اپنی سیاسی بقا کے لیے زیادہ فکر مند ہیں۔ اسی دوران نتن یاہو سے مستعفی ہونے کے مطالبات بھی بڑھ رہے ہیں۔نتن یاہو کے حکومتی اتحاد کے اندر بھی اختلافات شدید ہوتے جا رہے ہیں۔ وزیر خزانہ بزلال سموٹرچ نے وزیر اعظم کو بتایا کہ حماس پر دباؤ بڑھانا ہی یرغمالیوں کو واپس لانے اور گروپ کو تباہ کرنے کا واحد راستہ ہے جبکہ قومی سلامتی کے وزیر اتمامر بن گیور نے واضح طور پر دھمکی دی تھی کہ اگر نتن یاہو وعدے کے مطابق غزہ کے شہر رفح پر حملے کے لیے آگے نہیں بڑھتے تو وہ خود نتن یاہو کی حکومت کو گرا دیں گے۔اسرائیلی حکام کا اصرار ہے کہ رفح میں داخل ہونا ضروری ہے کیونکہ ان کے مطابق وہاں حماس کے چار آپریشنل بریگیڈ ہیں اور اس کے سینیئر رہنما وہاں چھپے ہو سکتے ہیں۔لیکن عملی طور پر اسرائیل سے باہر ہر کوئی شہر پر جارحانہ کارروائی کے خلاف ہے کیونکہ وہاں تقریباً 15 لاکھ فلسطینی خیموں، عارضی پناہ گاہوں اور کھچا کھچ بھرے کیمپوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ایسے میں اگر رفح پر کوئی کارروائی کی جاتی ہے تو شہریوں پر تباہ کن اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے۔،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشنکچھ اسرائیلی یرغمالیوں کو فروری میں رہا کیا گیا تھا
تنقید کا مقابلہ کرنے کی کوشش میں پیر کو نتن یاہو نے تفصیلات بتائے بغیر کہا کہ رفح آپریشن کے لیے ایک تاریخ پہلے ہی سے مقرر ہے۔صحافی گیرشون باسکن کے مطابق ’اس وقت حکومت اور نتن یاہو کی پارٹی کے اندر وزیراعظم کی جانب سے کسی بھی ایسا معاہدہ کرنے کے خلاف بغاوت جاری ہے جو ان کے خیال میں نہیں کیا جانا چاہیے۔‘ان کے مطابق ’نتن یاہو بھی مکمل طور پر آزاد نہیں بلکہ وہ خود اپنی حکومت میں یرغمالی بنے ہوئے ہیں۔‘حماس کی جانب سے تازہ ترین تجویز پر ابھی تک کوئی باضابطہ جواب نہیں دیا گيا لیکن اس نے کہا ہے کہ وہ ایک ایسے معاہدے میں دلچسپی رکھتا ہے جس سے ’ہمارے لوگوں کے خلاف جارحیت کا خاتمہ ہو۔‘حماس نے ایک بیان میں کہا کہ ’اسرائیلی موقف بدستور تضادات کا شکار ہے۔‘وائٹ ہاؤس نے حماس کے ردعمل کو ’بہت حوصلہ افزا‘ نہیں کہا۔حتمی فیصلہ ممکنہ طور پر غزہ میں حماس کے رہنما یحیٰی السنوار کریں گے جن کے بارے میں خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ محافظوں سے گھری ہوئی سرنگوں میں کہیں چھپے ہوئے ہیں لیکن ان کے ساتھ بات چیت مشکل ہے اور کہا جاتا ہے کہ ان تک بات پہنچانے کے لیے بیچ میں کئی ثالث ہوتے ہیں اور ایسا کرنے میں کئی دن لگ جاتے ہیں۔صحافی گیرشون باسکن نے کہا کہ حماس فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے سے متعلق مزید چیزوں کا بھی مطالبہ کر رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ان قیدیوں میں سے کسی کو بھی کسی دوسرے ملک بھیجے جانے سے اتفاق نہیں کرے گا اور یہ وہ مسائل ہیں جو مذاکرات کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کر سکتے ہیں۔،تصویر کا ذریعہReuters
،تصویر کا کیپشنحتمی فیصلہ ممکنہ طور پر غزہ میں حماس کے رہنما یحیٰی السنوار کریں گے جن کے بارے میں خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ محافظوں سے گھری ہوئی سرنگوں میں کہیں چھپے ہوئے ہیں
حماس کا یہ بھی ماننا ہے کہ مستقل جنگ بندی کی ضمانت کے بغیر ایسا عین ممکن ہے کہ یرغمالیوں کی رہائی کے بعد اسرائیل حملے جاری رکھے گا۔نتن یاہو کی قیادت میں اسرائیل پر بڑھتی ہوئی بین الاقوامی تنقید جاری ہے اور اسے یقین ہے کہ غزہ کی تباہ حال شہری آبادی کی شدید اور فوری ضرورتوں کے باوجود رعایتیں حاصل کرنے کے لیے ان کے پاس وقت ہے۔غزہ میں جنگ سات اکتوبر کو حماس کے حملوں کا اسرائیلی ردعمل ہے۔ حماس کے حملے میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں اب تک 33,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان حملوں میں علاقے کے بڑے حصے تباہ ہو گئے ہیں اور ایک بہت بڑی آبادی قحط کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔صحافی باسکن نے کہا کہ ان چیزوں سے نمٹنے کے میرے تجربے میں سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ دونوں طرف کے اہم فیصلہ ساز معاہدے کے لیے تیار ہیں یا نہیں اور یہ ابھی واضح نہیں۔‘’یہ واضح نہیں کہ نتن یاہو کسی معاہدے کے لیے تیار ہیں یا نہیں، یہ واضح نہیں کہ (غزہ میں حماس کے سیاسی رہنما یحیٰی السنوار) معاہدے کے لیے تیار ہیں یا نہیں لیکن جب وہ ہوں گے تو درمیانی راستہ تلاش کر لیا جائے گا۔‘اس ساری صورتحال میں حماس کے ایک ترجمان نے رفح پر حملے کی تاریخ مقرر کرنے کے بارے میں نتن یاہو کے تبصروں پر یہ کہا کہ اس سے اسرائیل سے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے مقصد پر سوالات اٹھتے ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}