کیا مبینہ نسل کشی پر اکسانے کے عمل کی روک تھام کے لیے اسرائیل کی کوششیں کافی ہیں؟،تصویر کا ذریعہEPA

  • مصنف, نیٹلی مرزوگی اور ماریہ راشد
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، عربی
  • 4 منٹ قبل

’اب غزہ کو جلا دو، اس سے کم کچھ نہیں!‘جب اسرائیلی پارلیمان کے ڈپٹی سپیکر نے ایکس پر یہ تبصرہ شائع کیا تو سوشل میڈیا پلیٹ فارم نے انھیں بلاک کر دیا اور ان سے اسے حذف کرنے کو کہا۔نسیم وتوری نے ان کی بات مان لی اور اس کے بعد ان کا اکاؤنٹ دوبارہ فعال ہو گیا تاہم انھوں نے معافی نہیں مانگی۔ان کا تبصرہ ایسے کئی متنازع تبصروں میں سے ایک ہے جو اسرائیل کے کچھ ہائی پروفائل شخصیات نے کیے ہیں جب سے ملک کی مسلح افواج غزہ میں فضائی حملے اور زمینی آپریشن کر رہی ہے جو کہ حماس کی جانب سے اسرائیل پر سات اکتوبر کا رد عمل ہے۔جس دن حملے ہوئے، اس دن انھوں نے پوسٹ کیا کہ ’اب ہم سب کا ایک ہی مقصد ہے غزہ کی پٹی کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا۔‘یہ پوسٹ، جو ابھی بھی ایکس پر نظر آ رہی ہے، جنوبی افریقہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں دائر مقدمے میں شامل کی گئی ہے جس میں جنوبی افریقہ نے اسرائیل پر غزہ جنگ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔اسرائیل نے اس مقدمے کو ’مکمل طور پر بے بنیاد‘ اور ’جانب داری اور جھوٹے دعوؤں‘ پر مبنی قرار دیا ہے۔جنوری میں عالمی عدالت انصاف نے اپنے عبوری فیصلے کے ایک حصے میں کہا ہے کہ اسرائیل کو نسل کشی پر اکسانے والے عوامی بیانات کو روکنا چاہیے۔ویسے تو عدالت کے پاس یہ طاقت نہیں ہے کہ فیصلہ لاگو کر سکے تاہم اسرائیل نے حامی بھری ہے کہ وہ ایک رپورٹ جمع کروائے گا جس میں وہ یہ بتائے گا کہ اس نے نسل کشی پر اکسانے کے ممکنہ واقعات کی تحقیقات اور اس حوالے سے اس کی روک تھام کے بارے میں کیا اقدامات کیے۔عدالت نے تصدیق کی ہے کہ یہ رپورٹ اسے فروری میں موصول ہوئی لیکن اس کا مواد تاحال پبلک نہیں کیا گیا ہے۔ کچھ قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ اسرائیل نسل کشی کے مبینہ واقعات کی تحقیقات کے لیے کوشش نہیں کر رہا۔ انسانی حقوق سے متعلق مقدمات پر کام کرنے والے اسرائیلی وکیل مائیکل سفارڈ کا کہنا ہے کہ ’ایسے اسرائیلی جو نسل کشی پر اکساتے ہیں یا نسل کشی سے متعلق بیانیے کا استعمال کرتے ہیں انھیں کسی بھی قسم کے احتساب کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔‘نسل کشی پر اکسانے کے عمل کو ثابت کرنا جو عالمی اور اسرائیلی قانون کے مطابق جرم ہے بہت مشکل سمجھا جاتا ہے۔ نسل کشی کا مطلب ہے کسی قومی، لسانی، نسلی یا مذہبی گروہ کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنے کے ارادے سے کارروائیاں کرنا۔ لیکن نسل کشی پر اکسانے اور تشدد یا نسل پرستی پر اکسانے میں فرق سمجھنا اور یہ کہ بولنے کی آزادی میں کیا کچھ آتا ہے تھوڑا پیچیدہ ہے۔ بی بی سی نے عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلے کے بعد سے متعدد ایسے واقعات کا جائزہ لیا ہے جو فیصلے کی خلاف ورزی کر سکتے ہیں اور اس بارے میں قانونی ماہرین سے بھی بات کی ہے۔ حالانکہ یہ فیصلہ اسرائیل کے بارے میں تھا، ہم نے حماس کے رہنماؤں کی جانب سے تقریروں میں متعدد مرتبہ استعمال کی گئی زبان کا بھی جائزہ لیا ہے جس میں وہ سات اکتوبر کے حملے کو دہرانے کا اعادہ کر رہے ہیں۔ ،تصویر کا ذریعہEPAایک فلسطین نواز انسانی حقوق کی تنظیم ’لا فار فلسطین‘ جس کے محققین کا نیٹ ورک دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے اور جو اس تنازع کی نگرانی کرتے ہیں نے ایسے واقعات کا جائزہ لیا جن میں اس کا ماننا ہے کہ اسرائیلی حکام اور عوامی رہنماؤں نے نسل کشی پر اکسایا ہے۔ اس فہرست میں اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے وزیر برائے قومی سلامتی اتامار بین گویر کے بیانات بھی شامل ہیں۔بین گویر ایک ایسی پالیسی کی حوصلہ افزائی کرتے آ رہے ہیں جس کے مطابق فلسطینیوں کو غزہ چھوڑ دینا چاہیے اور اسرائیلیوں کو وہاں آباد ہو جانا چاہیے۔ وہ قوم پرست جماعت کے سربراہ ہیں جس پر نسلی امتیاز اور عرب مخالف پالیسیوں کی حمایت کرنے پر کڑی تنقید کی جاتی ہے۔ انھیں اسرائیلی عدالتوں سے ماضی میں نسل پرستی پر اکسانے اور دہشتگردی کی حمایت کرنے پر سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔ یہ ان کے حکومت میں بطور وزیر کام کرنے سے پہلے کی بات ہے۔ جنوری میں عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلے کے دو روز بعد انھوں نے ایک ایسی پالیسی کی حوصلہ افزائی کی جس میں فلسطینیوں کو غزہ چھوڑنے اور اسرائیلیوں کے وہاں آباد ہونے کے بارے میں بات کی گئی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’اگر حماس کے اسرائیل پر حملے کو دہرانے سے روکنا ہے تو ’ہمیں گھر واپس جانا ہو گا اور علاقے (غزہ) پر قبضہ کرنا ہو گا۔۔۔ وہاں منتقلی کی حوصلہ افزائی کرنی ہو گی اور دہشتگردوں کو سزائے موت دینی ہو گی۔‘انھوں نے یہ بھی تجویز دی کہ ’کسی قسم کی منتقلی رضاکارانہ ہونی چاہیے۔‘لا فار فلسطین کے بانی احسان عدل کا کہنا ہے کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ غزہ کی آبادی کو وہاں سے ہٹانے کی حوصلہ افزائی کرنا غزہ میں نسل کشی کا حصہ ہے جو اس وقت غزہ میں ہو رہی ہے۔‘ ان کا ماننا ہے کہ ایسے بیانات کو نسل کشی پر اکسانے کے مترادف سمجھنا چاہیے اور نسل کشی ہو رہی ہے، تاہم اسرائیل اس الزام کی تردید کرتا ہے۔تاہم ہر کوئی ان کے اس تجزیے سے متفق نہیں ہے۔ مانیٹر نامی غیر سرکاری ادارے میں قانونی مشیر این ہیرزبرگ جو اسرائیل نواز نقطۂ نظر سے بین الاقوامی اقدامات کو دیکھتی ہیں کا کہنا ہے کہ ’میں ایسے بیانات کا دفاع تو نہیں کروں گی لیکن میرا نہیں خیال یہ نسل کشی کے معیار تک جاتے ہیں۔‘نہ ہی بین گویر اور نہ ہی وتوری نے بی بی سی کی جانب سے سوالات کا جواب دیا ہے۔اسرائیلی سیاست دانوں اور اسرائیلی فوجیوں کی باتوں میں تعلق ہی جنوبی افریقہ کے عالمی عدالتِ انصاف میں مقدمے کا مرکز تھا۔سنہ 2023 کے اواخر میں ایک یوٹیوب ویڈیو میں اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے فوجیوں کو یہ نعرے لگاتے سنا جا سکتا ہے کہ ’قبضہ کرو، نکالو، آباد کرو‘۔ اور فوجیوں نے جنوری میں عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلے کے بعد مزید ویڈیوز بھی بنائی ہیں جس میں غزہ میں تباہی پر طنز کیا گیا ہے اور اس پر انھیں خوشی مناتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اسرائیلی فوج نے ہمیں بتایا کہ وہ آن لائن ویڈیوز اور رپورٹس کا جائزہ لیتی ہے اور اگر کسی جرم کے ارتکاب کا خدشہ ہو تو ملٹری پولیس اس پر تحقیقات کرتی ہے اور ’کچھ تجزیہ کیے گئے معاملات میں ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ ویڈیو میں فوجیوں کا لہجہ یا رویہ غیر مناسب تھا اور پھر اس پر مناسب کارروائی کی گئی ہے۔‘،تصویر کا ذریعہReutersاس دوران توجہ کا مرکز اسرائیل کے مذہبی رہنما بھی رہے ہیں۔ یہودی عالم ایلیاہو مالی پر توجہ اس وقت مرکوز ہوئی جب انھوں نے رواں برس مارچ میں اسرائیل کے صیہونی یشیواس، یعنی ایسے یہودی مذہبی سکول جو اسرائیل کی ریاست پر اعتقاد رکھتے ہیں، کی کانفرنس سے خطاب کیا۔یہودی عالم مالی ایک ایسے یشیوا کے سربراہ ہیں جو ایک ایسے نیٹ ورک کا حصہ ہے جسے اسرائیل کی وزارتِ دفاع سے فنڈنگ ملتی ہے۔ اس میں پڑھنے والے طلبا تورات کی پڑھائی کے ساتھ فوجی سروس بھی کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنی تقریر کو ’غزہ میں جنگ کے دوران عام شہریوں کے ساتھ سلوک‘ سے متعلق بتایا جس کا ایک کلپ آن لائن بھی شیئر کیا گیا۔ 12ویں صدی کے ایک یہودی عالم کے مذہبی جنگوں (متزوا وارز) کے بارے میں بیان کو بنیاد بنا کر انھوں نے کہا کہ ’(اگر ایسا ہے) تو جو بنیادی اصول ہمارے سامنا ہے جب ہم ایک مذہبی جنگ لڑ رہے ہوں، جیسا کہ غزہ، تو وہ مذہبی کتابوں کے مطابق یہ ہے کہ ’تمھیں کسی روح کو زندہ نہیں رہنے دینا‘ اس کا مطلب بہت واضح ہے، اگر تم کسی کو قتل نہیں کرو گے، وہ تمھیں قتل کر دے گا۔‘یہودی مذہب میں متزوا وارز کا مطلب یہودیوں کی جان اور خودمختاری کا تحفظ ہے اور اسے لازمی سمجھا جاتا ہے نہ کہ رضاکارانہ۔ہم نے یہودی عالم مالی سے جب اس حوالے سے پوچھا تو ان کی طرف سے ملنے والے ایک جواب میں کہا گیا کہ ان کے الفاظ کو ’بہت غلط انداز میں تشریح کی گئی ہے اور کچھ حصوں کو غلط سیاق و سباق میں پیش کیا گیا۔‘جواب میں کہا گیا کہ تقریر کے متن میں صرف پرانے دور میں اس حوالے سے رائے کا ذکر کیا گیا تھا لیکن انھوں نے ’واضح کیا تھا کہ جو بھی آج ان احکامات پر عمل کرے گا وہ فوج اور پوری قوم کو شدید نقصان پہنچانے کا باعث بنے گا‘ ملکی قانون کے تحت ’کسی بھی عام شہری چاہے وہ چھوٹا بچہ ہو یا بوڑھا شخص اسے نقصان پہنچانے کی ممانعت کی گئی ہے۔‘ہم نے ان کی مکمل تقریر سنی ہے اور کچھ موقعوں پر وہ سننے والوں کو اوپر بتائی گئی باتوں کے حوالے سے یاد دہانی کرواتے دکھائی دیے، اور آخر میں بھی اور شروع میں بھی انھوں نے کہا کہ ’آپ کو وہ کرنا ہے جیسا فوج آپ کو حکم دے۔‘تاہم تقریر کے دوران انھوں نے غزہ کے لوگوں کا خاص طور پر ذکر کیا اور کہا کہ ’میرے خیال میں دوسری جگہوں پر عام شہریوں میں اورغزہ میں عام شہریوں میں فرق ہے‘ پھر وہ ایک غیر مصدقہ دعویٰ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’غزہ کی 95 سے 98 فیصد آبادی ہماری ہلاکت چاہتی ہیں، یہ ایک اکثریت ہے، یہ حیران کن ہے۔‘ان سے جب مجمع میں سے کسی شخض نے بچوں کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے جواب دیا کہ ’ان کے لیے بھی یہی کہا گیا ہے ۔۔۔ تورات کہہ رہی ہے کہ ’آپ نے ایک روح بھی زندہ نہیں چھوڑنی‘۔۔۔ آج وہ بچہ ہے کل وہ ایک لڑکا بن جائے، اس کے بعد ایک جنگجو۔‘اس تقریر میں مذہبی عالم نے یہ بھی یاد کیا کہ انھوں نے اپنے بیٹے سے جو سات اکتوبر کے حملوں کے بعد جنگ پر گیا تھا کہا تھا کہ ’جو بھی چیز حرکت کرے اسے مار دو۔‘ انھوں نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بیٹے کے کمانڈر نے بھی انھیں یہ احکامات دیے تھے اور انھوں نے اپنے بیٹے سے ’کمانڈر کے احکامات ماننے کا کہا تھا۔‘بعد میں انھوں نے اس بات کو دہرایا کہ وہ فوجیوں سے یہ امید نہیں رکھتے کہ وہ تورات کے احکامات کے مطابق کارروائی کریں۔ انھوں نے کہا کہ اگر ریاست کا قانون تورات کے قانون سے متصادم ہو تو ریاستی قانون کو مانا جانا چاہیے اور ’ریاست کے قوانین صرف دہشتگردوں کو مارنا چاہتے ہیں، عام شہریوں کو نہیں۔‘ایٹے میک اسرائیلی گروپ ٹیگ میئر کے ساتھ کام کرنے والے ایک وکیل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے پولیس کو مذہبی عالم کی جانب سے مبینہ طور پر نسل کشی، تشدد اور دہشتگردی پر اکسانے کے خدشے کی تحقیقات کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ اب بھی اس انتظار میں ہیں کہ ان کی جانب سے جن تحقیقات کا ذکر کیا گیا تھا وہ کب شروع ہوں گی۔

،تصویر کا ذریعہEPAعالمی عدالتِ انصاف کے سامنے سنے جانے والے کیس کی ایک سماعت میں جنوبی افریقہ کی طرف سے ایک اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’اسرائیلی میڈیا پر نسل کشی سے متعلق بیانیہ تسلسل کے ساتھ نشر کیا جا رہا ہے اور ایسا بغیر کسی روک ٹوک یا پابندی کے کیا جا رہا ہے۔‘فروری میں دائیں بازو کے چینل 14 کے صحافی یاکی ادامکر نے کہا کہ ’غزہ کے لوگ میری بلا سے بھوک سے مر جائیں۔ میں کیوں ان کے بارے میں فکر کروں۔‘اپریل میں ملک میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والے ٹی وی چینل، چینل 12 پر ایک اسرائیلی صحافی یہودا شلیسنگر نے بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’غزہ کی پٹی میں کوئی بے گناہ نہیں، کوئی بھی نہیں۔ انھوں نے حماس کو ووٹ دیا، وہ حماس کے ساتھ ہیں۔‘این جی او مانیٹر سے تعلق رکھنے والی این ہرزبرگ کے مطابق یہ ’غزہ کے لوگوں کے لیے ہمدردی کی ایک پریشان کن کمی ہے اور وہ جس مشکل سے گزر رہے ہیں اس کا اظہار ہو سکتا ہے‘ لیکن ’یہ نسل کشی کا مطالبہ نہیں۔‘بی بی سی نے دونوں براڈکاسٹرز سے رابطہ کیا لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ یہودا شلیسنجر نے ہمارے سوالات کے جواب میں سات اکتوبر کے مظالم پر زور دیا۔جب بات آتی ہے کہ آیا حکام کو نشر ہونے والی چیزوں کو زیادہ سختی سے کنٹرول کرنا چاہیے، تو اسرائیلی انسانی حقوق کے وکیل مائیکل سفارڈ نے خبردار کیا کہ ’ریگولیٹرز، جو کہ ریاست ہے کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ اشتعال انگیز تبصرے کرنے والے لوگوں کی طرف سے عوامی نشریات کا استحصال نہ ہو۔‘جہاں نسل کشی پر اکسانے سے روکنے سے متعلق عالمی عدالت انصاف کے فیصلہ میں اسرائیل کا ذکر تھا وہیں حماس پر بھی ’نسل کشی کے ارادے‘ سے بیانات دینے کا بھی الزام لگایا گیا ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesاسرائیل کی وزارت خارجہ کے قانونی مشیر تال بیکر کا کہنا ہے کہ ’حماس کے چارٹر کو جس زبان میں لکھا گیا ہے جس میں مکمل تباہی کی بات کی گئی ہے وہ تنظیم کے رہنما باقاعدگی سے دہراتے ہیں۔‘2021 میں یحییٰ السنوار، جو حماس کے موجودہ رہنما ہیں نے کہا تھا کہ ’ہم جہاد اور مسلح جدوجہد کے ذریعے اسرائیل کے خاتمے کی حمایت کرتے ہیں، یہ ہمارا نظریہ ہے۔‘اور حال ہی میں حماس کے کچھ عہدیداروں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ سات اکتوبر کے حملوں کو دہرانا چاہتے ہیں۔ ان حملوں کے دوران تقریباً 1200 لوگ ہلاک ہو گئے تھے جن میں زیادہ ترعام شہری شامل تھے اور 251 کو یرغمال بنایا گیا تھا۔گذشتہ نومبر میں حماس کے سیاسی بیورو کے ایک رکن غازی حمد نے کہا تھا کہ ’ہمیں اسرائیل کو سبق سکھانا چاہیے اور ہم بار بار ایسا کریں گے۔‘اسی دوران حماس کے بیرون ملک رہنما خالد مشعل نے کہا کہ سات اکتوبر نے ’اسرائیل کو ختم کرنے کی طرف ایک راستہ کھول دیا ہے۔‘حماس نے بی بی سی کے سوالات پر کوئی جواب نہیں دیا۔ بہت سے لوگ اس گروپ کا احتساب چاہتے ہیں جسے امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین اور دیگر ممالک نے ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر کالعدم قرار دیا ہوا ہے۔این جی او مانیٹر سے این ہرزبرگ کہتی ہیں کہ ’یہ بالکل واضح ہے کہ وہ نسل کشی کا ارادہ رکھتے ہیں، اور ہم حماس کی تحقیقات کے بارے میں بہت کم سنتے ہیں، اور میرے خیال میں اس پورے تنازع میں یہ اس پر بات نہیں ہوتی۔‘مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانی جن کی جانب سے اسرائیلی کارروائیوں پر سخت تنقید پر اسرائیل اور امریکہ میں اعتراضات لگائے گئے ہیں متفق ہیں کہ حماس کے رہنماؤں کو جوابدہ ہونا چاہیے۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ ’نسل کشی کا اندازہ لگاتے وقت نہ صرف رہنماؤں کی طرف سے کہے گئے الفاظ کا جائزہ لینا ہے، بلکہ نسل کشی کرنے کی صلاحیت کو بھی دیکھا جانا چاہیے، جو حماس کے پاس بظاہر نہیں ہے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Imagesاسرائیل کے برعکس حماس کو عالمی عدالت انصاف میں نہیں لے جایا جا سکتا کیونکہ وہ ریاست نہیں ہے۔ تاہم ایک مختلف ادارہ، بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) میں افراد کا احتساب کیا جا سکتا ہے۔ مئی میں اس کے پراسیکیوٹر نے انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم کے الزام میں حماس کے رہنماؤں یحییٰ سنوار، محمد دیف اور اسماعیل ہنیہ (حنیہ کو ایران میں مارا گیا ہے اور اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے غزہ میں دیف کو ہلاک کیا ہے) کے وارنٹ گرفتاری کے لیے درخواست دی تھی۔ انھوں نے اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو اور وزیر دفاع یوو گیلانٹ کے وارنٹ بھی مانگے۔ حماس اور اسرائیل دونوں نے اس بارے میں غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔جہاں تک بات ہے کہ اسرائیلی حکام تشدد پر اکسانے والے مشتبہ لوگوں کو روکنے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے کیا کر رہے ہیں، ملک کے اٹارنی جنرل اور ریاستی اٹارنی نے تسلیم کیا ہے کہ شہریوں کو جان بوجھ کر نقصان پہنچانے کا مطالبہ کرنے والا کوئی بھی بیان مجرمانہ جرم کے مترادف ہو سکتا ہے، بشمول اشتعال انگیزی کا جرم۔ جنوری میں آئی سی جے کی سماعت سے پہلے انھوں نے کہا تھا کہ کئی معاملات کی جانچ کی جا رہی ہے۔تاہم حال ہی میں، اسرائیلی اخبار ہاریٹز نے رپورٹ کیا کہ ریاستی پراسیکیوٹر نے سفارش کی ہے کہ سینیئر عوامی شخصیات کے خلاف کوئی مجرمانہ تحقیقات نہ کی جائیں، بشمول وزرا اور پارلیمان کے ارکان، جنھوں نے ’غزہ کی پٹی میں شہریوں کو نقصان پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے۔‘ حتمی فیصلہ اٹارنی جنرل پر منحصر ہے۔بی بی سی نے تبصرے کے لیے اسرائیل کے ریاستی اٹارنی، پولیس کمشنر اور وزارت انصاف سے رابطہ کیا۔ صرف وزارت انصاف نے جواب دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’آزادی اظہار کے آئینی حق میں توازن رکھنا ہو گا۔۔۔ نقصان دہ اشتعال انگیزی سے بچتے ہوئے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’قانون نافذ کرنے والے حکام اشتعال انگیزی کے جرائم کو کم کرنے کے لیے مسلسل کارروائیاں کرتے ہیں اور حالیہ مہینوں میں اسرائیل کے اٹارنی جنرل کی طرف سے ایسی کارروائیوں کو ترجیح دی گئی ہے۔‘ایک طرف آئی سی جے اس کیس میں حتمی فیصلے کے لیے کام رہا ہے تو دوسری جانب لوگ ہلاک ہوتے جا رہے ہیں۔ حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق، اکتوبر2023 سے اب تک غزہ میں 40 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔

نسل کشی سے کیا مراد ہے؟

  • نسل کشی: ایسی کارروائیاں جن کا مقصد کسی قومی، لسانی، نسلی یا مذہبی گروہ کو جسمانی طور پر، مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنا ہے۔ جسمانی نقصان اور جان بوجھ کر ایسے حالات پیدا کرنا کہ معمولاتِ زندگی کو نقصان پہنچے۔ سنہ 1946 سے بین الاقوامی قانون کے تحت اسے جرم کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔
  • نسل کشی پر اکسانا: اقوام متحدہ کے جینوسائڈ کنونشن میں کہا گیا ہے کہ عوامی طور پر نسل کشی کے لیے اکسانا بھی قابل سزا ہو گا۔
  • نسلی کلینزنگ: ایک نسلی یا مذہبی گروہ کی طرف سے کسی دوسرے گروہ کی شہری آبادی کو کسی خاص علاقے سے طاقت یا دھمکی کے ذریعے ہٹانے کا عمل۔

ذریعہ: اقوام متحدہ کی جینوسائڈ کنونشن اور یورپی کمیشن
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}