کیا مالی مراعات پر مبنی جاپان کا اربوں ڈالر کا منصوبہ کم شرح پیدائش کے مسئلے کو حل کر پائے گا؟
جاپان کے وزیر اعظم نے اپنے ملک میں شرح پیدائش میں تیزی سے کمی کا حوالہ دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ’اب نہیں تو کبھی نہیں‘ یعنی اگر ابھی نہیں کیا گیا تو بہت دیر ہو جائے گی۔
وزیر اعظم فومیو کیشیدا نے چند ہفتے قبل کہا تھا کہ ان کا ملک تاریخی طور پر کم شرح پیدائش کی وجہ سے ایک معاشرے کے طور پر ختم ہو جانے کے دہانے پر ہے۔ سرکاری اندازوں کے مطابق گذشتہ سال ایک صدی سے زائد عرصے میں پہلی بار جاپان میں پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد 800,000 سے نیچے آگئی ہے۔
سنہ 1970 کی دہائی میں یہ تعداد 20 لاکھ سے زیادہ تھی۔
وزیر اعظم فومو کیشیدا نے پارلیمان میں کہا کہ ’بچوں اور بچوں کی پرورش سے متعلق پالیسیوں پر توجہ مرکوز کرنا ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا انتظار نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اسے ملتوی کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ ان کے ایجنڈے پر سب سے زیادہ اہم مسائل میں سے ایک ہے۔‘
اگرچہ ترقی یافتہ ممالک میں پیدائش کی شرح کا گرنا وسیع طور پر پایا جانے والا رجحان ہے، لیکن جاپان میں یہ مسئلہ زیادہ سنگین ہے، کیونکہ حالیہ دہائیوں میں متوقع عمر میں اضافہ ہوا ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہاں بوڑھے لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو سنبھالنے اور ان کی مدد کرنے کے لیے کم سے کم افراد ہیں۔
درحقیقت، عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق جاپان چھوٹے سے ملک موناکو کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ بڑی عمر کے لوگوں کی آبادی والا ملک ہے۔
کسی بھی ملک کے لیے اپنی معیشت کو برقرار رکھنا اس حالت میں بہت مشکل ہوتا ہے جب آبادی کا ایک اہم حصہ ریٹائر ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے صحت کی خدمات اور پنشن کے نظام پر زیادہ سے زیادہ بوجھ پڑتا ہے، اور کام کرنے کی عمر کے لوگوں کی تعداد کم ہوتی جاتی ہے۔
اس مسئلے کے حل کے لیے کیشیدا نے اعلان کیا کہ وہ بچوں کی پرورش میں تعاون والے اور شرح پیدائش کو فروغ دینے والے پروگراموں کے لیے مختص حکومت کے مالی اخراجات کو دگنا کر دیں گے۔
اس کا مطلب ہے کہ حکومتی اخراجات مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کا تقریباً چار فیصد تک ہو جائیں گے۔
بہر حال جاپانی حکومتوں نے اس سے پہلے بھی اس جیسی حکمت عملیوں کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے لیکن انھیں توقعات کے مطابق نتائج حاصل نہیں ہوئے۔
آبادی کا ٹائم بم
فی الحال ایک جاپانی خاتون کے بچوں کی اوسط تعداد 1.3 ہے، جو دنیا کی سب سے کم شرحوں میں سے ایک ہے۔جنوبی کوریا میں یہ شرح 0.78 کے ساتھ سب سے کم ہے۔
آبادی کے اس بحران کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ان میں سے کچھ ترقی یافتہ ممالک میں عام ہیں اور کچھ جاپانی ثقافت میں پنہاں ان کی مخصوص چیزیں ہیں۔ ان میں مندرجہ چیزیں شامل ہیں:
- گھریلو کام اور بچوں کی دیکھ بھال میں صنفی عدم مساوات
- بڑے شہروں کے چھوٹے اپارٹمنٹس جہاں ایک وسیع خاندان کی گنجائش نہیں
- بچوں کو بہترین سکولوں اور یونیورسٹیوں میں بھیجنے کے لیے زیادہ قیمت اور سخت دباؤ
- گزر بسر کے اخراجات میں اضافہ
- محنت کشوں کے شعبے میں خواتین کی تعداد میں اضافہ
- بچوں کی پرورش کے لیے زیادہ محنت کا مطالبہ اور والدین کے پاس ان کے لیے بہت کم وقت
- زیادہ تعلیم یافتہ نوجوان خواتین جو اکیلی اور بے اولاد رہنے کو ترجیح دیتی ہیں۔
- زیادہ عمر تک بچے پیدا کرنے میں تاخیر کرنا، اور بچے پیدا کرنے والی عمر کے سالوں کی تعداد کو کم کرنا
آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں قائم انسٹیٹیوٹ فار ڈیموگرافی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ٹامس سوبوتکا کہتے ہیں کہ یہ کچھ وجوہات ہیں جو شرح پیدائش کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں۔
’جاپان میں سزا دینے والا ایک کلچر ہے جو کام کے طویل اوقات، اعلیٰ سطح کے عزم اور ملازمین سے اعلیٰ کارکردگی کا مطالبہ کرتا ہے‘ جس کی وجہ سے بچے پیدا کرنے کے لیے بہت کم گنجائش رہ جاتی ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’یہ واضح ہے کہ خاندانوں کے لیے مالی امداد ملک میں بہت کم شرح پیدائش کی وجوہات کو صرف جزوی طور پر حل کر سکتی ہے۔‘
سوبوتکا کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ، عام مالی اقدامات بچے پیدا کرنے کے بڑے اخراجات کو نمایاں طور پر پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔
امیگریشن، ایک ممکنہ حل
جاپانی حکومتوں نے امیگریشن کو مزدوروں کی دائمی قلت اور صحت اور سماجی تحفظ کی فنڈنگ پر بڑھتے ہوئے دباؤ کے ممکنہ حل کے طور پر مسترد کر دیا ہے۔
جاپان میں بی بی سی کے سابق نامہ نگار روپرٹ ونگ فیلڈ۔ہیز کہتے ہیں کہ ’امیگریشن کے خلاف دشمنی کم نہیں ہوئی ہے۔‘
جاپان کی صرف تین فیصد آبادی بیرون ملک پیدا ہوئی ہے، جب کہ برطانیہ جیسے دیگر ممالک میں یہ شرح 15 فیصد ہے۔ ونگ فیلڈ۔ہیز بتاتے ہیں کہ ’یورپ اور امریکہ میں، دائیں بازو کی تحریکیں اسے نسلی پاکیزگی اور سماجی ہم آہنگی کی ایک روشن مثال کے طور پر دیکھتی ہیں۔ لیکن جاپان نسلی طور پر اتنے خالص نہیں جتنا کہ ان کے مداح سوچ رہے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اگر آپ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کسی ایسے ملک کا کیا ہوتا ہے جو امیگریشن کو گرتی ہوئی شرح پیدائش کے حل کے طور پر مسترد کرتا ہے، تو جاپان اس کے لیے ایک اچھی جگہ ہے۔‘
کیلیفورنیا یونیورسٹی میں سینٹر فار گلوبل مائیگریشن کے بانی اور ڈائریکٹر اور کیمبرج، اور میساچوسٹس میں نیشنل بیورو آف اکنامک ریسرچ کے ریسرچ ایسوسی ایٹ جیوانی پیری کا کہنا ہے کہ امیگریشن جاپانی چیلنج کے لیے اہم ہے۔
’آبادی اور مزدوری میں کمی کا مقابلہ کرنے کے لیے تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد ایک مؤثر طریقہ ہو گی۔‘
تاہم، وہ خبردار کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’میں نہیں دیکھتا کہ حکومتیں جاپان میں آبادی میں اضافے کے لیے ضروری تارکین وطن کی ایک بڑی آمد کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘
جاپان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس عالمی رجحان کا حصہ ہے جو ترقی یافتہ ممالک کو متاثر کرتا ہے۔
پیری کا کہنا ہے کہ آبادیاتی نقطہ نظر سے، نقل مکانی کے بہاؤ میں اضافہ، خاص طور پر نوجوانوں کی، ترقی یافتہ معیشتوں کے لیے ایک خوش آئند بات ہے۔
معاشیات کے پروفیسر کا کہنا ہے کہ زیادہ تارکین وطن افرادی قوت کے حجم کو مزید سکڑنے سے روکیں گے اور ٹیکس سے زیادہ آمدنی حاصل کریں گے۔
کیا پیسہ ہی حل ہے؟
جاپان کی حکومت پہلے ہی واضح کر چکی ہے کہ امیگریشن ان کے لیے حل نہیں ہے اور انھوں نے پیسے سے مسئلہ حل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
وزیر اعظم کشیدا کا منصوبہ بچوں کی دیکھ بھال میں معاونت کے لیے وقف پروگراموں پر عوامی اخراجات کو دوگنا کرنا ہے۔
لیکن کچھ تجزیہ کار جیسے پوہ لن ٹین، جو نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے لی کوان یو سکول آف پبلک پالیسی کی سکالر ہیں، دلیل دیتی ہیں کہ دوسرے ایشیائی ممالک، جیسا کہ سنگاپور، میں شرح پیدائش کو بڑھانے کے لیے زیادہ مالی اخراجات دینے سے کچھ زیادہ فائدہ نہیں ہوا۔
اس ملک میں، حکومت 1980 کی دہائی سے شرح پیدائش کے مسلسل گرنے کے رجحان سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔
2001 میں، اس نے شرح پیدائش کو بڑھانے کے لیے معاشی فائدوں کا ایک پیکج متعارف کرایا تھا۔
پوہ کہتی ہیں کہ آج کل پیکج میں تنخواہ کے ساتھ زچگی کی چھٹی، بچوں کی دیکھ بھال کے لیے سبسڈی، ٹیکس میں چھوٹ اور ریبیٹ، کام کے لچکدار انتظامات کو نافذ کرنے والی کمپنیوں کے لیے نقد تحائف اور گرانٹس شامل ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ان کوششوں کے باوجود پیدائش کی شرح میں مسلسل کمی واقع ہوتی رہی۔‘
اور جس طرح شرح پیدائش جاپان اور سنگاپور میں کم ہو رہی ہے، اسی طرح جنوبی کوریا، تائیوان، ہانگ کانگ اور شنگھائی جیسے اعلیٰ آمدنی والے چینی شہروں میں بھی کم ہو رہی ہے۔
’کامیابی کا تضاد‘
سنگاپور اور دیگر ایشیائی ممالک میں کامیابی کا ایک قسم کا تضاد ہے۔ پوہ کہتی ہیں کہ ’شرح پیدائش میں اضافہ کرنے میں ناکامی پیدائش سے پہلے کی غیر موثر پالیسیوں کا اتنا ثبوت نہیں ہے، جتنا کہ ایک معاشی اور سماجی نظام جو کامیابیوں کو بہت زیادہ انعام اور خواہش کی کمی کو سزا دیتا ہے۔‘
اس وجہ سے ان کا کہنا ہے کہ ایسی تبدیلیاں بھی ضروری ہیں جن کا انحصار مالی مراعات پر نہ ہو۔
ان کا کہنا ہے کہ ایک بہتر پالیسی ان جوڑوں کی مدد کرنا ہو گی جو اپنی فرٹیلیٹی کے اہداف حاصل کرنے کے لیے کم از کم دو بچے چاہتے ہیں، نہ کہ بے یقینی رکھنے والے افراد کو قائل کریں اور کم عمر خواتین میں حمل کی حوصلہ افزائی کریں۔
ہانگ کانگ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور دبئی کی خلیفہ یونیورسٹی میں سوشل سائنسز کے پروفیسر سٹیورٹ گیٹل۔بسٹن بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ واقعی شرح افزائش میں اضافہ کرنے کے لیے، آپ کو ان لوگوں کی مدد کرنی ہوگی جو پہلے ہی دو بچے پیدا کرنے کے لیے پہلے بچے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
سٹیورٹ گیٹل۔بسٹن کہتے ہیں کہ ’فرٹیلیٹی پالیسیوں کے کام نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ بنیادی وجوہات پر توجہ نہیں دیتی ہیں،‘ جیسا کہ ایک دم ختم ہوبنے والی روزگار، گھر میں غیر مساوی صنفی کردار، جگہ کے کام میں امتیازی سلوک یا زندگی گزارنے کے زیادہ اخراجات۔
اس لحاظ سے ’کم شرح پیدائش دیگر مسائل کی ایک علامت ہے۔‘
ماضی میں پھنسا ہوا معاشرہ
ٹامس سوبوتکا کہتے ہیں کہ شرح پیدائش کی حوصلہ افزائی کے لیے لوگوں کے حالات زندگی کو بہتر بنانا ضروری ہے۔
ایسے اقدامات جیسا کہ کام کرنے والوں کے لیے لچک کا رویہ، اچھے معیار کی پبلک چائلڈ کیئر، والدین کے لیے اچھی تنخواہ والی چھٹی یا سستی رہائش اس میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔
لیکن وہ خبردار کرتے ہیں کہ یہ سب بھی جاپان میں شرح پیدائش میں نمایاں اضافہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔
ملک کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ اس سے بھی زیادہ گہری تبدیلی ہے، کیونکہ ’معاشرے میں جنس اور خاندانی اصول اور توقعات ماضی کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کئی مرتبہ ’صرف ماؤں کو خاندان کی دیکھ بھال، گھریلو کام، اپنے بچوں کی فلاح و بہبود، پرورش اور تعلیمی کامیابی کے لیے ذمہ دار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔‘
سوبوتکا کے مطابق، یورپ کے چند ممالک نے اپنی شرح پیدائش میں اضافہ جاری رکھا ہے۔
کچھ حد تک یہ جرمنی میں ہوا، جس نے پچھلے 20 سالوں میں نورڈک طرز کی خاندانی پالیسیاں اپنائیں، جن سے بچے پیدا کرنے کا فیصلہ کرنے والوں کے لیے کام کے حالات اور بچوں کی دیکھ بھال میں بہتری آئی ہے۔
ایسٹونیا نے بھی اسی طرح کے اقدامات کو لاگو کرنے میں کچھ کامیابی حاصل کی۔
وہ کہتے ہیں کہ کم از کم یورپ میں ’وہ ممالک جنھوں نے طویل مدتی خاندانی پالیسیوں پر زیادہ وسائل لگائے ہیں، ان کے ہاں اوسطاً زیادہ شرح پیدائش ہے۔‘
سوبوتکا کہتے ہیں کہ فرانس نے، جو (شرح پیدائش کے حوالے سے) اب یورپ کے سب سے زیادہ زرخیز ممالک میں سے ایک ہے، ایسا ہی کیا ہے۔ ان کے اس مسئلے پر تحقیق کرنے کے تجربے سے یہ پتہ چلا ہے کہ جو چیز کام نہیں کرتی وہ بڑی تنگ نظری کے ساتھ پرونٹالسٹ (بچے کی پیدائش سے پہلے) پالیسیاں اپنانا ہے۔
ایسا تب ہوتا ہے جب حکومتیں والدین کے لیے معاشی ترغیبات پر مرکوز مخصوص فرٹیلیٹی کے اہداف مقرر کرتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جب وہ مالیاتی ترغیبات ’جنسی اور تولیدی صحت یا اسقاط حمل تک رسائی پر پابندیوں کے ساتھ ہوں تو ان کے کام کرنے کا امکان کم ہو جاتا ہے۔‘
دیکھنا یہ ہے کہ جاپان میں کیشیدا کا مالی اخراجات کو دوگنا کرنے کا منصوبہ قلیل مدت کے لیے کام کرتا ہے یا نہیں۔
اگر نہیں، تو جاپان کو یہ احساس ہوسکتا ہے کہ اسے جاپانی معاشرے کی روایتی اقدار کے گہرے پہلوؤں کو تبدیل کرنا ہوگا اور امیگریشن کی زیادہ لچکدار پالیسی اختیار کرنی ہوگی۔ تاہم یہ سب کچھ ابھی کافی وقت لے سکتا ہے۔
Comments are closed.