پیر17؍شوال المکرم 1444ھ 8 مئی 2023ء

کیا ماضی میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ جیسی قانون سازی ہوئی؟ جسٹس مظاہر نقوی

سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت شروع ہوئی تو جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ کیا ماضی میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ جیسی کوئی قانون سازی ہوئی؟

عدالتِ عظمیٰ نے کیس کی سماعت 3 ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 8 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اظہر حسن رضوی اور جسٹس شاہد وحید بینچ کا حصہ ہیں۔

سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے فل کورٹ بنانے کی استدعا کر دی اور اپنی فل کورٹ بنانے کی درخواست کے حق میں دلائل دیے۔

مسلم لیگ ن کے وکیل صلاح الدین احمد نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے بھی درخواست میں فل کورٹ کی استدعا کی ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ کی درخواست کو ابھی نمبر نہیں الاٹ نہیں ہوا۔

پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے عدالت کو بتایا کہ سیاسی جماعتوں کو نوٹس ہے اس لیے پی ٹی آئی کی جانب سے میں موجود ہوں۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا آپ نے دستاویزات جمع کروا دی ہیں؟

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ توقع ہے کہ کل تک پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ مل جائے گا، اسپیکر آفس سے با ضابطہ اور غیر رسمی طور پر بھی رابطہ کیا ہے، عدالت قرار دے چکی ہے کہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ موجود ہے، عدلیہ کی آزادی آئین کا بنیادی جزو ہے، عدالتی اصلاحات کے قانون میں بینچوں کی تشکیل اور اپیلوں کا معاملہ طے کیا گیا ہے، عدالتی اصلاحات بل میں وکیل کی تبدیلی کا بھی حق دیا گیا ہے، قانون میں جو معاملات طے کیے گئے وہ انتظامی نوعیت کے ہیں، سپریم کورٹ کے رولز فل کورٹ نے تشکیل دیے تھے، سپریم کورٹ پریکٹس رولز میں ترمیم بھی فل کورٹ ہی کر سکتا ہے، عدلیہ کی آزادی اور رولز سے متعلق مقدمہ بھی فل کورٹ کو سننا چاہیے، قانون براہِ راست ان ججز پر بھی لاگو ہو گا جو مقدمہ نہیں سن رہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ کیا ایسی قانون سازی کے اختیارات ہیں یا نہیں؟ ترمیم کا سوال نہیں ہے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا ماضی میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ جیسی کوئی قانون سازی ہوئی ہے؟

اٹارنی جنرل منصور عثمان نے جواب دیا کہ 1973ء تک رولز بنانے کے لیے صدر کی اجازت درکار تھی۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 191 کے ہوتے ہوئے ایسی قانون سازی کیسے ہو سکتی ہے؟

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ نے اپنی درخواست میں کہا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ ہے اس لیے فل کورٹ سنے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ہم ہر وقت معمول کے مطابق اپنی نوعیت کے پہلے کیسز سنتے رہتے ہیں۔

’’کیا ماضی میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ جیسی قانون سازی ہوئی؟‘‘

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ماضی میں کبھی ایسا مقدمہ نہیں آیا اس لیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سپریم کورٹ کا کوئی بھی بینچ کوئی بھی مقدمہ سن سکتا ہے، کیا حکومت اس کیس میں فل کورٹ کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے؟ کیا حکومت چاہتی ہے کہ عدالت کی اندرونی بحث باہر آئے؟ ہر مقدمہ اہم ہوتا ہے، یہ تعین کیسے ہو گا کہ کون سا کیس فل کورٹ سنے؟ کیا عدلیہ کی آزادی کا ہر مقدمہ فل کورٹ نے سنا تھا؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ افتخار چوہدری کیس سمیت کئی مقدمات فل کورٹ نے سنے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 1996ء سے عدلیہ کی آزادی کے مقدمات سنے جا رہے ہیں، بظاہر یہ حکومت کا کیس نہیں لگتا کہ فل کورٹ بنایا جائے۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ عوام کا اعتماد فل کورٹ پر ہے؟ عدالت درخواست گزار کی خواہش پر اپنی کارروائی کیسے ریگولیٹ کرے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ درست ہے کہ عدلیہ کی آزادی کے تمام مقدمات فل کورٹ نے نہیں سنے۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ افتخار چوہدری کیس مختلف نوعیت کا تھا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ رولز بنانے کا اختیار فل کورٹ کو انتظامی امور میں ہے، اگر کسی 3 رکنی بینچ کے سامنے رولز کی تشریح کا مقدمہ آ جائے تو کیا وہ بھی فل کورٹ کو سننا چاہیے؟ فل کورٹ تو اپنے رولز بنا چکی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ موجودہ کیس میں قانونی سازی کا اختیار چیلنج ہے۔

’’یہ منطق سمجھ سے باہر ہے کہ فل کورٹ کا فیصلہ اچھا،  3 رکنی بینچ کا برا ہو گا‘‘

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ کی یہ منطق سمجھ سے باہر ہے کہ فل کورٹ کا فیصلہ اچھا اور 3 رکنی بینچ کا برا ہو گا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا آپ کا مدعا یہ ہے کہ رولز فل کورٹ نے بنائے توتشریح بھی وہی کرے؟

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ فل کورٹ کا جواب خود پارلیمنٹ نے اپنے بنائے گئے قانون میں دے دیا ہے، عدالتی اصلاحات بل کے سیکشن 4 کے مطابق کمیٹی کا بنایا گیا 5 رکنی بینچ آئین کی تشریح کا مقدمہ سنے گا، جب پارلیمنٹ خود اپنے ایکٹ میں 5 رکنی بینچ کہہ رہی ہے تو کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ پارلیمنٹ نے قانون غلط بنایا ہے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عدالت نے تو اس قانون پر عمل درآمد سے روک رکھا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر حکمِ امتناع نہ ہوتا تو فل کورٹ کی استدعا کہاں جاتی؟ پارلیمنٹ کہتی ہے 5 رکنی بینچ ہو، اٹارنی جنرل کہتے ہیں کہ فل کورٹ ہو، لگتا ہے کہ حکومت کی گنتی کمزور پڑ گئی ہے کہ یہاں کتنے ججز بیٹھے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ فل کورٹ کی استدعا کیس کی مناسبت سے کی جا سکتی ہے، قانون میں کم سے کم 5 ججز کا لکھا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ پارلیمنٹ 5 ججز سے مطمئن ہے تو اٹارنی جنرل یا کابینہ کیوں نہیں؟

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ پارلیمنٹ کے بنائے گئے قوانین کے خلاف درخواستیں عدالت معمول میں سنتی ہے، ہائی کورٹ بھی قوانین کے خلاف درخواستیں سنتی ہیں، کیا ہائی کورٹ میں بھی فل کورٹ کی استدعا کی گئی؟

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ نہیں ہے، 2012ء میں بھی اس نوعیت کا مقدمہ سنا جا چکا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ میں فل کورٹ میں 60 اور سندھ ہائی کورٹ میں 40 ججز سماعت کریں گے؟

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ فل کورٹ کی درخواست میں لکھا ہے کہ بینچ حکمِ امتناع میں اپنا مؤقف دے چکا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی اصلاحات بل ہائی کورٹ میں چیلنج نہیں، اس پر بات نہیں کروں گا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تو ہائی کورٹس فل کورٹ بنانے کی پابند ہوں گی۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ اگر صوبائی اسمبلی بھی اس نوعیت کا قانون بنا دے تو کیا پوری ہائی کورٹ مقدمہ سنے گی؟

جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ کیا تمام 8 ججز فیصلہ کریں گے کہ فل کورٹ بنے گا؟

جسٹس شاہد وحید نے پوچھا کہ کیا بینچ چیف جسٹس کو فل کورٹ بنانے کا حکم دے سکتا ہے؟

جسٹس عائشہ ملک نے دریافت کیا کہ فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست قابل سماعت ہونے پر بھی سوال ہے؟ کیا ایسی درخواست انتظامی سطح پر دی جا سکتی ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز چیف جسٹس سے فل کورٹ بنانے کی گزارش کر سکتے ہیں۔

جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ درخواست میں وفاق نے چیف جسٹس کو حکم دینے کی استدعا کر رکھی ہے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ فل کورٹ کی تشکیل کی درخواست میں کی گئی استدعا پر تحفظات ہیں۔

جسٹس شاہد وحید نے سوال کیا کہ اس طرح کی استدعا پر عدالت کس قسم کا حکم دے سکتی ہے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ماضی میں ایسی درخواست پر فل کورٹ تشکیل دیا جاتا رہا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ وفاق کی استدعا اچھے الفاظ میں نہیں لیکن سمجھ چکے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی پھانسی کے مقدمے میں بینچ پر اعتراض کیا تھا، ذوالفقار علی بھٹو کیس میں جج پر اعتراض ہوا اور 9 رکنی فل کورٹ نے مقدمہ سنا۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ جس فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں اس میں وجوہات بھی دی گئی تھیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس وقت کے چیف جسٹس انورالحق نے اعتراض مسترد کیا، 9 رکنی فل کورٹ میں چیف جسٹس خود بھی شامل تھے، موجودہ درخواست میں کسی جج یا چیف جسٹس پر اعتراض نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کسی جج پر اعتراض بھی ہو تو فیصلہ جج نے کرنا ہوتا ہے کہ وہ مقدمہ سنے یا نہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ فل کورٹ تشکیل دینے کے حوالے سے اپنی معروضات پیش کر چکے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ ہمیں مزید معاونت چاہیے، مستقبل کے لیے تعین کرنا ہے کہ بینچ کن حالات میں فل کورٹ تشکیل دینے کا کہہ سکتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ معاملہ صرف آئین کی تشریح یا عدالت کی آزادی کا نہیں ہے، آئینی ترامیم کیس میں عدالت نے فوجی عدالتیں درست قرار دی تھیں۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ موجودہ کیس آئینی ترامیم کا نہیں ہے۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ عدالتی فیصلہ مستقبل کے لیے ہوتا ہے، 20 سال بعد شاید زمینی حقائق اور آئین مختلف ہو، استدعا ہے کہ عدالت فل کورٹ بنائے۔

اس کے ساتھ ہی فل کورٹ کی تشکیل پر اٹارنی جنرل منصور اعوان کے دلائل مکمل ہو گئے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا مسلم لیگ ن کی درخواست پر نمبر لگ گیا ہے؟

بیرسٹر صلاح الدین نے جواب دیا کہ درخواست آج ہی دی تھی نمبر لگ چکا ہے۔

اس کے بعد ن لیگ کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے فل کورٹ پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حکمِ امتناع کے ذریعے پہلی بار قانون پر عمل درآمد روکا گیا ہے، فل کورٹ کے لیے درخواستیں معمول میں دی جاتی ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں بھی فل کورٹ بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کا معاملہ چیف جسٹس کو بھیجوایا گیا تھا، چیف جسٹس خود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس نہیں سن رہے تھے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ 7 رکنی بینچ نے فل کورٹ تشکیل دینے کی ہدایت کی تھی، بعض اوقات بینچ خود بھی فل کورٹ کی تشکیل کے لیے فائل چیف جسٹس کو بھجواتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ افتخار چوہدری اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیسز صدارتی ریفرنس پر تھے، ججز پر الزام لگے تو ٹرائل سپریم کورٹ کا ہوتا ہے، معاملہ سنگین نوعیت کا ہونے پر ہی فل کورٹ بنا تھا، دونوں ججز کے خلاف ریفرنس سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیے، کسی اور مقدمے میں فل کورٹ کی مثال ہے تو دیں۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ آئی جی جیل خانہ جات کیس میں بھی فل کورٹ تشکیل دیا گیا تھا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ افتخار چوہدری کیس میں جج کو معزول کر دیا گیا تھا، وہ ماسٹر آف روسٹر کا اختیار استعمال نہیں کر سکتے تھے، معزولی کے بعد قائم مقام چیف جسٹس اس اختیار کو استعمال کر رہے تھے، مسلم لیگ ن پارلیمنٹ کی سب سے بڑی جماعت ہے، جو قانون پارلیمنٹ نے بنایا ہے اس میں 5 رکنی بینچ کی بات کی گئی ہے، مسلم لیگ ن فل کورٹ کی استدعا کیسے کر سکتی ہے؟

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ چیف جسٹس بینچز کی تشکیل کا حکم دیتے ہیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر مقدمات آتے ہیں، سائلین کے اعتراضات پر عدالت فیصلہ کرتی ہے، سائلین عدالت میں پیش ہو کر اپنا مؤقف پیش کرتے ہیں۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ جانبداری پر مبنی کئی فیصلے موجود ہیں، سائلین بھی اپنے مؤقف کے حوالے سے تحریری درخواست دیتے ہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ آپ چاہتے ہیں کہ عدالت تعین کرے کہ کون سے مقدمات کون سا بینچ سنے گا؟ پنڈورا باکس کھولیں گے تو ہر کیس میں فل کورٹ کی درخواستیں آئیں گی۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ سائلین فل کورٹ کی درخواست کرتے رہتے ہیں، اس پر عدالتی فیصلے موجود ہیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ عدالت کے سامنے اس طرح کے سوئپنگ اسٹیٹمنٹ نہ دیں، درخواست گزار کو معلوم ہوتا ہے کہ کون سا بینچ کیس سن رہا ہے اور وہ اس پر معترض کیوں ہے، ایسے دلائل سے لگتا ہے جیسے مسلم لیگ ن جانتی ہی نہیں کہ وہ فل کورٹ کی استدعا کیوں کر رہی ہے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے جواب دیا کہ غیر معمولی مقدمات میں بھی فل کورٹ تشکیل دیا گیا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہ بھی غیر معمولی نوعیت کا مقدمہ ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے کیس کی سماعت 3 ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔

سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے پارلیمنٹ اور قائمہ کمیٹیوں کا ریکارڈ آج طلب کر رکھا ہے، جبکہ تمام فریقین سے تحریری جوابات طلب کر رکھے ہیں۔

ذرائع نے بتایا ہے کہ پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل سے متعلق ریکارڈ تاحال فراہم نہیں کیا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ مسلم لیگ ن نے درخواست میں موجودہ بینچ پر اعتراض اٹھایا ہے، کیا مسلم لیگ ن کو موجودہ بینچ پر اعتماد نہیں ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ نے نوٹس کیا ہو تو اس معاملے کو خاموشی سے سن رہا ہوں، کیس کو خاموشی سے اس لیے سن رہا ہوں کہ یہ چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق ہے، چیف جسٹس کو ہی بینچز بنانے کا اختیار ہے، فل کورٹ سے متعلق کوئی جوڈیشل آرڈر دینا نہیں چاہتے جو مستقبل میں عدالتی نظیر کے طور پر استعمال ہو، موجودہ نکتے پر ابھی دلائل باقی ہیں اور دوسرے فریقین کو بھی سننا ہے۔

سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ کل تک جمع کرانے کا حکم دے دیا اور کیس کی سماعت 3 ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔

چیف جسٹس پاکستان کے اختیارات کے قانون کے خلاف درخواستوں کی سماعت میں ن لیگ کی جانب سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں درخواست دائر کی گئی۔

درخواست میں مسلم لیگ ن کی جانب سے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے لیے فل کورٹ بنانے کی استدعا کی گئی۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ ایکٹ کی آئینی حیثیت پر سوال اٹھانے والی درخواستوں کی سماعت جاری ہے، ‎ایکٹ کے مقاصد میں ایک بینچ تشکیل اور سماعت پر چیف جسٹس کے اختیارات ہیں۔

مسلم لیگ ن کی درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ آرٹیکل 184/3 کے تحت مقدمات کی سماعت میں سینئر ترین ججوں کو بھی کردار دینا ہے، قانون بننے سے پہلے ہی فوری داخل درخواستوں پر چیف جسٹس نے 8 رکنی بینچ بنایا۔

درخواست میں مسلم لیگ ن نے کہا کہ چیف جسٹس نے 13 اپریل کو مقدمات کی سماعت کے لیے 8 رکنی بینچ پر خوشی محسوس کی، بینچ نے اسی دن ایک عبوری حکمِ امتناع سے مجوزہ ایکٹ پر عمل درآمد روک دیا۔

مسلم لیگ ن نے استدعا کی کہ درخواست ہے کہ ان درخواستوں کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے، معاملہ بڑی آئینی اہمیت کا ہے اور اس میں شامل نکات منفرد نوعیت کے ہیں۔

درخواست میں کہا گیا کہ ایک طرف منتخب نمائندوں کے ذریعے قانون سازی کا حق اور اختیار استعمال کیا گیا ہے، دوسری طرف عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کی ضرورت ہے۔

مسلم لیگ ن کی درخواست میں کہا گیا کہ اس تناظر میں فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ کے آرٹیکل 175(2)،191 اور55 کی عدالتی تشریح ہونا ہے، پاکستانی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ ایکٹ کو نفاذ سے پہلے ہی عبوری حکم سے روک دیا گیا۔

درخواست میں کہا گیا کہ پیچیدہ مسائل اور قانون کے پائیدار حل کے لیے تمام ججز کی اجتماعی حکمت اوردانش ضروری ہے، خود چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیارات خاص طور پر بینچوں کی تشکیل میں اشتراک شامل ہے۔

ن لیگ کی درخواست میں کہا گیا کہ ان حالات میں یہ مناسب نہیں کہ اس معاملے کی سماعت 8 رکنی بینچ کرے، سماعت بھی وہ بینچ کرے جس کا انتخاب اور سربراہی چیف جسٹس خود کر رہے ہوں۔

درخواست میں ن لیگ نے کہا کہ ایسا تاثر خواہ بے بنیاد ہو کہ ’بینچ چیف جسٹس کے خیالات سے بنا ہے‘ اس سے گریز کرنا چاہیے۔

مسلم لیگ ن نے اپنی درخواست میں یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ کے کئی موجودہ اور ریٹائرڈ ججز نے بینچ کی تشکیل کے طریقہ کار پر تحفظات ظاہر کیے ہیں، یہ تحفظات بار ایسوسی ایشنز، بار کونسلز، سیاسی جماعتیں اور قانونی مبصرین بھی اٹھا رہے ہیں۔

بشکریہ جنگ
You might also like

Comments are closed.