کم از کم 1730 قبل مسیح کے دور کی تین بڑی سلیٹوں میں زیادہ تر سالنوں کی تفصیل ہے جبکہ سب سے چھوٹی والی میں ایک شوربے کی بات کی گئی ہے۔،تصویر کا ذریعہCourtesy of Peabody Museumان کے وجود کی حقیقت ہی اپنے آپ میں ایک معمہ ہے۔ ییل کی بابل کولیکشن کی نائب نگران اگنیٹ لاسن کا کہنا ہے کہ ’قدیم میسوپوٹیمیا میں لوگوں نے کھانا تیار کرنے کے بارے میں شاذ و نادر ہی لکھا۔ ’اس دور کی لاکھوں دستاویزات میں سے کھانے کی یہ چند ہی تراکیب ہیں جو موجود ہیں اور ہم اس کی کوئی وضاحت نہیں کر سکتے۔‘اور درحقیقت، بہت سی تحریروں پر تحقیق ہوئی تو معلوم ہوا کہ قدیم لوگ ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جو خود جدید دانشوروں کے لیے سمجھنا مشکل ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک اسیرولوجسٹ گوجکو برجامووچ نے کہا کہ ایسے اجزا سامنے آتے ہیں جن کی شناخت ابھی تک نامعلوم ہے۔ مٹی کی ان چار ٹکیوں کے بارے میں، جنھیں ’ییل کلینری ٹیبلٹس‘ کہا جاتا ہے، وہی دلچسپ مفروضہ موجود ہے جیسا کہ بہت سی تراکیب میں چاہے وہ قدیم ہوں یا جدید۔ یعنی مصنف کو توقع ہے کہ قاری بنیادی طور پر پہلے ہی جانتا ہے کہ وہ کس مقصد کے لیے ہیں۔ ہدایات مختصر ہیں اور جیسا کہ بہت سی پرانی ترکیبوں کا معاملہ ہے مقدار کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔اس صورتحال میں یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ قدیم بابل میں دسترخوان پر رات کے کھانے میں کیا تھا اور اس کا ذائقہ کیسا تھا۔ قدیم بابل میں سوپ اور سالن کا راج تھا اور خوراک کے مورخین اب ان بھولے بسرے ذائقوں کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ذائقوں کے تجربات کر رہے ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesکچھ سال پہلے، برجامووچ، لاسن، اور ان کے ساتھیوں نے، جن میں عراقی فوڈ مورخ نوال نصراللہ بھی شامل تھے، اس سمت میں کچھ اشارے کیے تھے۔ انھوں نے کچھ الفاظ کی نئی تفہیم کا استعمال کرتے ہوئے ان تراکیب کے ترجمے کو بہتر بنایا۔ اس سلسلے میں انھوں نے محتاط انداز میں تجربہ کیا اور ایک، ایک کر کے اجزا کو تبدیل کیا۔وہ ایک ممکنہ جزو کو اس حقیقت کی وجہ سے ختم کر پائے کہ اس نے پکوان کو ناقابل برداشت حد تک کڑوا بنا دیا، اس حد تک کہ احتیاط سے شامل کردہ دیگر مسالوں میں سے کوئی بھی قابل شناخت نہیں رہا۔تاہم، یہ حیرت انگیز ہے کہ تمام تراکیب سالن اور شوربے سے جڑی ہیں۔ ’ڈیلائٹس فرام دی گارڈن آف ایڈن‘ کے مصنف نصر اللہ کا کہنا ہے کہ ’سٹو یعنی شوربے میں گوشت اور سبزیاں، جدید عراقی کھانے کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ قرون وسطیٰ کے عراق میں بھی کھانے کا ایک اہم حصہ تھا جس کا ذکر اس 10ویں صدی کی کتاب میں ہے۔‘اس کتاب کا ترجمہ نصر اللہ نے کیا ہے اور جب محققین نے کھانے کی تراکیب والی سلیٹوں پر موجود چار ترکیبوں کے اپنے تازہ اور آزمائشی ترجمے تیار کیے، تو انھوں نے کچھ ایسی چیز حاصل کی جو کم از کم اس قدیم روایت کے مطابق ہونی چاہیے تھی۔جانیے کہ ایک سالن کیسے بنایا جاتا ہے: میمنے کے گوشت کے سالن کے لیے جسے توہو کہا جاتا ہے، پہلے آپ پانی لیتے ہیں۔ پھر آپ ٹانگوں کے گوشت کو چکنائی میں سیکتے ہیں۔ اس میں نمک، بیئر، پیاز، دھنیہ، زیرہ، چقندر اور پانی شامل کرتے ہیں۔ پھر باری آتی ہے کچلی ہوئی لیک اور لہسن اور مزید دھنیے کی۔ تیز ذائقے کے لیے کورت شامل کرتے ہیں جو پسی ہوئی مصری لیک ہے۔ چقندر سالن کا رنگ تیز سرخ کر دیتے ہیں، اور چاروں تراکیب میں سے، یہ لاسن کی پسندیدہ ہے۔ یہ تیکھی ہے اور یہ بہت اچھی طرح سے مسالہ دار ہے۔ اس میں اچھے ذائقے ہیں۔
یہاں تک کہ اس ساری دیکھ بھال کے باوجود، یہ حقیقت اپنی جگہ باقی ہے کہ اس وقت لوگوں کے ذوق بہت مختلف ہوتے تھے۔ ایک ایسے کھانے کی ایک مشہور مثال جو کئی ہزار سال پہلے کے مقابلے میں اپنی مقبولیت کھو چکی ہے۔آج زندہ لوگوں کے ذوق اور تاثرات کا استعمال کرتے ہوئے یہ طے کرنے کی کوشش کرنا کہ یہ پرانا ذائقے والے پکوان کیسے تھے، غلطیوں سے بھرا کام ہو سکتا ہے۔اس وقت اور آج کے درمیان، اسلام بھی مشرق وسطیٰ میں پہنچا، جس نے سور کے گوشت کو پکوانوں کا ایک ناپسندیدہ جزو بنا دیا اور کولمبیا ایکسچینج (15ویں صدی میں امریکہ اور یورپ کے درمیان تجارت) نئی دنیا سے ٹماٹر، بینگن اور آلو لائی۔ سو جدید عراقی کھانا اس کی نقل نہیں ہے جو بابل میں کھایا جاتا تھا۔کون جانتا ہے کہ کیا آج سے 3000 سال بعد، لوگ وہ کچھ کھا رہے ہیں جو آج ہم کھاتے ہیں۔ ایک جدید غذائی نظام میں جہاں ہم جو کھاتے ہیں اس کا انحصار اس بات پر نہیں ہوتا کہ ہم کہاں ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خوراک اور مقامی جغرافیے کے درمیان تعلق ختم ہو گیا ہے۔آج سے ہزاروں سال بعد، کون جانے کون سی تبدیلیاں آ چکی ہوں۔ شاید آب و ہوا اس قدر مختلف ہو گی کہ برطانوی جزائر دالیں اگا رہے ہوں گے یا آج کے سائبیریا میں ناریل کی کاشت ہو رہی ہو۔برجامووچ بتاتے ہیں کہ جہاں تک ان قدیم تراکیب کا تعلق ہے، کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔’ہر آثار قدیمہ کا موسم اپنے ساتھ نئی ٹکیوں کے سامنے آنے کا امکان لاتا ہے، جو مصالحوں اور دیگر اجزا کے پراسرار الفاظ پر نئی روشنی ڈال سکتی ہیں۔ بابل کے طرز فکر کو یونانی متن کی طرح نقل یا منتقل نہیں کیا گیا تھا اور یہ پہلی صدی قبل مسیح میں ہی انسانی علم کا حصہ نہیں رہا تھا لیکن چونکہ انھوں نے مٹی میں لکھا تو یہ ان کی مٹی میں موجود ہے اور ناقابلِ فنا ہے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.