بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

کیا فخر زمان اپنا ’جینئس‘ دہرا پائیں گے؟

سمیع چوہدری کا کالم، پاکستان بمقابلہ آسٹریلیا: کیا فخر زمان اپنا ’جینئس‘ دہرا پائیں گے؟

  • سمیع چوہدری
  • کرکٹ تجزیہ کار

فخر زمان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اگر یہ ورلڈ کپ اپنے طے شدہ شیڈول کے مطابق انڈیا میں ہی کھیلا جاتا تو لگ بھگ یقینی تھا کہ چار سیمی فائنلسٹس میں سے تین ایشیائی ٹیمیں ہوتیں۔

اس کی مثال یہاں سے لیجیے کہ ابھی گروپ سٹیج میں ہزیمت آمیز شکست سے دوچار رہنے والی بنگلہ دیشی ٹیم چار ہفتے پہلے اپنے میدانوں میں نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کو دھول چٹا رہی تھی۔

اگر یہیں دبئی، ابوظہبی اور شارجہ کی بجائے دھرم سالہ اور ناگ پور جیسی پچز ہوتیں تو یقیناً بنگلہ دیشی ٹیم کی کارکردگی مختلف رہتی اور جیسی جرات آموز کرکٹ سری لنکن ٹیم کھیل رہی تھی، شاید وہ بھی اگلے راؤنڈ کی رسید لے جاتی۔

لیکن جب کووڈ کے بعد ری شیڈولنگ میں امارات اس ٹورنامنٹ کا میزبان ٹھہرا تو بھی یہ طے ہی تھا کہ کم از کم دو ایشین ٹیمیں سیمی فائنل تک رسائی ضرور پائیں گی۔ پاکستان کے علاوہ انڈیا اور افغانستان بھی دو ایسی ٹیمیں تھیں کہ جن کے بیشتر کھلاڑی ان کنڈیشنز کا تجربہ رکھتے ہیں۔

لیکن انڈیا کی ناقص منصوبہ بندی، بے جوڑ سلیکشن اور آئی پی ایل کے ورک لوڈ نے سبھی تخمینوں کو مات کر دیا اور ایک مدت کے بعد انڈیا کسی آئی سی سی ایونٹ کے ٹاپ فور سے باہر ہوا اور پاکستان وہ ٹیم ٹھہری جو ایشیا میں ہونے والے ورلڈ ایونٹ کے ٹاپ فور میں واحد ایشیائی ٹیم ہے۔

کوئی بھی یاد نہیں کرنا چاہتا جو مائیکل ہسی اور سعید اجمل کے بیچ ہوا تھا۔ وہ بھی ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کا ہی سیمی فائنل تھا جہاں پاکستان دوسروں کی ناکامیوں کی بیساکھیوں پر چل کر، قسمت کی خصوصی مہربانی سے، ناک آؤٹ راؤنڈ تک پہنچا تھا لیکن ہسی نے چار گیندوں میں ہی پاکستان کا ٹائٹل دفاع ختم کر چھوڑا تھا۔

اس بار مگر قسمت کی کوئی خصوصی مہربانی پاکستان کی حالیہ پوزیشن میں پنہاں نہیں۔

وہ ٹیم جو کسی اندازے، کسی پیشگوئی کا حصہ نہیں تھی، وہ اس ٹورنامنٹ میں ابھی تک ناقابلِ شکست رہی ہے اور اس کارکردگی میں کہیں کوئی ’لُوپ ہول‘ (کمی) نما چیز بھی نہیں رہ گئی کیونکہ سبھی ذمہ داران اپنی اپنی ہستی کا ثبوت دے چکے ہیں۔

پاکستان کرکٹ ٹیم

،تصویر کا ذریعہGetty Images

بات اٹکی ہے تو صرف حسن علی اور فخر زمان پر۔ حسن علی شاید اتنی بڑی الجھن نہیں کہ محمد حفیظ کا بونس کوٹہ پاکستان کے لیے کسی دقت کو بڑھنے نہیں دے گا لیکن ون ڈاؤن بلے باز کا ابھی تک رنز نہ کر پانا بڑے میچ میں جانے سے پہلے ٹیم کے لیے دباؤ کا باعث ہو سکتا ہے۔

کھلاڑیوں کی نفسیات ہوتی ہے کہ وہ اپنی ایک ایک چنیدہ اننگز کو تفصیل سے یاد رکھتے ہیں۔ آسٹریلیا یا نیوزی لینڈ کے خلاف فلاں سیریز کے کتنے میچز میں کیا سکور بنایا تھا، وہ یاد ہو نہ ہو، کوئی ایک سنگِ میل ففٹی یا سینچری ضرور یاد رہتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کچھ کھلاڑیوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ بڑے سٹیج اور کڑے مقابلے کو پسند کرتے ہیں۔ ویسٹ انڈیز کے مارلن سیموئلز کی مثال لے لیجیے جو ہمیشہ اپنے رویے کے سبب مسائل سے دوچار رہے لیکن دو بار جب ان کی ٹیم ٹی ٹوئنٹی چیمپیئن بنی، دونوں ہی بار وہ مین آف دی میچ تھے۔

اور وہ اننگز تو زیادہ پرانی بھی نہیں جو فخر زمان کو خود کو یاد دلانی ہے۔ آئی سی سی ایونٹ تھا، پاکستان اور انڈیا فائنل میں مدمقابل تھے، پاکستان گروپ سٹیج میں انڈیا سے ذلت آمیز شکست چکھ کر آ رہا تھا اور فخر زمان پہلی ہی گیند پر آؤٹ قرار دیے گئے۔

اور اس کے بعد جو ہوا، وہ تاریخ کا ایسا باب بن گیا کہ جس کی کہانیاں چالیس سال بعد بھی سنائی جائیں گی۔ فخر زمان کو بڑا سٹیج اور کڑا مقابلہ پسند تھا۔ قسمت نے تھوڑی سی یاوری کی اور پھر فخر ایسا کھیلے کہ انڈیا میچ میں واپس نہ آ پایا۔

فخر زمان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پاکستان کے اوپنرز نے اس ٹورنامنٹ میں پاور پلے کھیلنے کی ایک نئی طرح ڈالی ہے۔ اوپنرز کی بدولت ہی پاکستان اپنے پہلے میچ میں ایسا شاہانہ آغاز کر پایا تھا۔

لیکن آج کے اس ناک آؤٹ میچ میں اوپنرز سے بڑی ذمہ داری ون ڈاؤن پر ہو گی۔ اگر سٹارک، ہیزل ووڈ یا کمنز نے پاور پلے میں کوئی وکٹ گرا دی تو اننگز کا رخ متعین کرنے کی ذمہ داری فخر زمان کی ہو گی اور ان کی اننگز ہی شاید اس میچ میں فیصلہ کن ثابت ہو گی۔

ہم سب جانتے ہیں کہ بار بار بڑے ایونٹس میں یادگار پرفارمنسز پیش کرنا خاصا ہمت طلب اور ’جینئس‘ کا کام ہے لیکن وراٹ کوہلی اور مارلن سیموئلز ثابت کر چکے ہیں کہ ایسا ’جینئس‘ ایکٹ دہرانا ممکن ہے۔

کیا فخر زمان پاکستان کے لیے اپنا ’جینئس‘ دہرا پائیں گے؟ بطور کرکٹر، اب تک ہم انھیں جتنا دیکھ چکے ہیں، یہ کہنا ضروری نہیں کہ وہ اپنے ’زون‘ میں آ جائیں تو سب کچھ ممکن ہے

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.