کیا غزہ میں اسرائیل کی زمینی جنگ اپنے اہداف حاصل کر پائے گی؟
،تصویر کا ذریعہSAEED QAQ/ANADOLU VIA GETTY IMAGES
- مصنف, پال کربی
- عہدہ, بی بی سی نیوز
اسرائیلی قیادت کا کہنا ہے کہ اس کے زمینی آپریشن کے ذریعے دنیا سے حماس کا نام و نشان مٹ جائے گا اور غزہ ویسا نہیں رہے گا جیسا ہوا کرتا تھا۔
وزیر اعظم بنتامن نتن یاہو نے کہا کہ ’حماس کا ہر رکن مردہ حالت میں ہوگا۔‘ اسرائیل پر حماس کے حملے میں 1300 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
اسرائیلی فوج کے غزہ میں ’آپریشن آہنی تلوار‘ کے کئی بڑے اہداف ہیں جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ مگر کیا یہ مشن حقیقت پر مبنی ہے اور کیا اسرائیلی کمانڈر اسے ممکن بنا سکیں گے؟
غزہ کی پٹی میں زمینی کارروائی کے دوران شہری علاقوں میں لڑائی ہوگی اور اس سے شہری آبادی کو شدید خطرات لاحق ہوں گے۔ غزہ میں فضائی حملوں سے سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ چار لاکھ لوگوں نے نقل مکانی کی ہے۔
اسرائیلی فوج کم از کم 150 یرغمالیوں کو بچانا چاہتی ہے جنھیں غزہ میں نامعلوم مقامات میں رکھا گیا ہے۔
اسرائیلی فوج کے سربراہ ہرتزی ہلیوی نے حماس کو ’ختم کرنے‘ کا وعدہ کیا ہے اور غزہ میں اس کے سیاسی سربراہ کا ذکر کیا ہے۔ غزہ میں حماس کے 16 سالہ تشدد زدہ دور کے بعد اس کا انجام کیا ہوگا؟
اسرائیل کے ’آرمی ریڈیو‘ پر فوجی تجزیہ کار امیر بار نے کہا ہے کہ ’میرا نہیں خیال اسرائیل حماس کے تمام ارکان کو ختم کر سکے گا کیونکہ یہ تنظیم انتہا پسند اسلام کے نظریے پر مبنی ہے۔ مگر آپ اسے اس قدر کمزور کر سکتے ہیں کہ اس کی آپریشنل صلاحیت ختم ہوجائے۔‘
یہ حقیقت کے قریب ایک ہدف ہوسکتا ہے۔ اسرائیل نے حماس سے چار جنگیں لڑی ہیں اور اس کے راکٹ حملے روکنے کی ہر کوشش ناکام ہوئی ہے۔
ترجمان لیفٹیننٹ کرنل جوناتھن کنریکس نے کہا کہ اس جنگ کے خاتمے تک حماس ’اسرائیلی شہریوں کو دھمکانے یا مارنے‘ کی فوجی صلاحیت کھو دے گا۔
،تصویر کا ذریعہAHMED ZAKOT/SOPA IMAGES/LIGHTROCKET
زمینی مداخلت کے خطرناک اثرات
فوجی آپریشن کے دوران کئی عوامل کو مدنظر رکھنا ضروری ہوگا ورنہ یا بُری طرح ناکام ہوسکتا ہے۔
حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف تیاریاں کی ہوئی ہوں گی۔ دھماکہ خیز ڈیوائسز نصب ہوچکی ہوں گی اور جوابی حملے تیار ہوں گے۔ حماس اسرائیلی فوج کے خلاف اپنا زیرِ زمین سرنگوں کا پیچیدہ نیٹ ورک بھی استعمال میں لا سکتا ہے۔
سنہ 2014 کے دوران اسرائیلی فوج نے غزہ شہر کے شمالی علاقے میں اینٹی ٹینک سرنگوں، سنائپرز اور جوابی حملوں کی شکل میں بھاری نقصان اٹھایا تھا۔ اس لڑائی میں سینکڑوں شہری ہلاک ہوئے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے شمالی غزہ سے 11 لاکھ فلسطینیوں کے انخلا کا مطالبہ کیا ہے۔
اسرائیلیوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ یہ جنگ کئی مہینوں تک چل سکتی ہے جس کے لیے 360000 ریزروسٹ فوج ڈیوٹی کے لیے پہنچ گئی ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ عالمی دباؤ کے پیش نظر اسرائیل کب تک یہ مہم جاری رکھ سکے گا۔
اقوام متحدہ کی پناہ گزین کی ایجنسی نے متنبہ کیا ہے کہ غزہ تیزی سے ’جہنم بن رہا ہے۔‘ وہاں اموات بڑھ رہی ہیں جبکہ پانی، بجلی اور ایندھن کی سپلائی کٹ چکی ہے۔ نصف آبادی کو علاقہ چھوڑنے کا کہہ دیا گیا ہے۔
اسرائیل میں سکیورٹی اور انٹیلیجنس امور کے صحافی یوسی ملمن نے کہا ہے کہ ’حکومت اور فوج کو لگتا ہے کہ انھیں عالمی برداری، کم از کم مغربی رہنماؤں، کی حمایت حاصل ہے۔ فلسفہ یہ ہے کہ ’چلیں مہم جوئی کریں، ہمارے پاس کافی وقت ہے‘۔‘
مگر انھیں لگتا ہے کہ اسرائیل کے اتحادی عنقریب لوگوں کو بھوک کی حالت میں دیکھ کر اس معاملے میں مداخلت کریں گے۔
یرغمالیوں کو بچانے کا مقصد
کئی یرغمالی اسرائیلی شہری ہیں مگر ان میں غیر ملکی شہری، دہری شہریت کے حامل افراد بھی شامل ہیں۔ کئی کا تعلق امریکہ، فرانس اور برطانیہ سے ہے اور یہ ممالک ان کی باحفاظت واپسی چاہتے ہیں۔
فرانسیسی صدر ایمانویل میکخواں نے فرانسیسی نژاد اسرائیلی خاندانوں سے وعدہ کیا ہے کہ ان کے پیاروں کو گھر واپس لایا جائے گا۔ ’فرانس اپنے بچوں کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔‘
یرغمالیوں کی تقدیر فوجی منصوبہ سازوں پر کس طرح اثر انداز ہوگی، یہ غیر واضح ہے۔ اسرائیلی رہنماؤں پر مقامی دباؤ بھی ہے۔
امیر بار اس کا موازنہ 1972 کے میونخ اولمپکس کی صورتحال سے کرتے ہیں جب مسلح فلسطینی شخص اسرائیلی ایتھلیٹس پر حملہ آور ہوا اور اس نے 11 افراد قتل کیے۔
حملہ میں ملوث ہر شخص کو ڈھونڈ کر قتل کرنے کا آپریشن شروع کیا گیا۔ ان کا ماننا ہے کہ اسی طرح حکومت اغواکاروں کو تلاش کرنا چاہے گی۔
غزہ کے مختلف علاقوں میں قید لوگوں کو بچانا شاید اسرائیل کے ایلیٹ یونٹ سایرت متکل کے لیے مشکل ہو۔ حماس نے پہلے ہی اسرائیلی حملے کے نتیجے میں یرغمالیوں کو قتل کرنے کی دھمکی دی ہے۔
سنہ 2011 میں اسرائیل نے پانچ سال سے حماس کی تحویل میں اپنے فوجی گیلات شالیت کے بدلے ایک ہزار قیدیوں کو رہا کیا تھا۔ تاہم اسرائیل اس بار قیدیوں کے تبادلے پر غور نہیں کرے گا کیونکہ انھی قیدیوں میں سے ایک، يحيىٰ السنوار، بعد میں غزہ میں حماس کے سیاسی رہنما بن گئے۔
ہمسایہ ممالک کی نظریں اس آپریشن پر جڑی ہیں
زمینی آپریشن کی مدت اور نتائج اسرائیل کے ہمسایہ ممالک کے ردعمل پر بھی منحصر ہیں۔
اسرائیل سے مصر کی جانب سے مطالبات کیے جا سکتے ہیں جو غزہ کے ساتھ واقع ہے اور پہلے ہی رفع کی سرحدی کراسنگ کے ذریعے امدادی سامان بھیجنے پر زور دے رہا ہے۔
اسرائیل کے انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سکیورٹی سٹڈیز کے اوفر ونٹر نے کہا کہ ’اسرائیلی فوجی مہم سے غزہ کے شہری متاثر ہوں گے اور مصر پر اتنا ہی دباؤ پڑے گا کہ اس نے فلسطینیوں کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔‘
مگر ان کا کہنا ہے کہ قاہرہ کی جانب سے فلسطینیوں کی آمد کے لیے سرحد نہیں کھولے جائے گی اور نہ ہی اسرائیل کے خلاف فوجی کارروائی کی جائے گی۔
لبنان کے ساتھ اسرائیل کی شمالی سرحد کی بھی کڑی نگرانی کی جاتی ہے۔
مسلح تنظیم حزب اللہ نے سرحد پار کئی حملے کیے ہیں تاہم یہ اسرائیل کے خلاف کوئی نیا اتحاد ثابت نہیں ہوا۔
حزب اللہ کی حمایت کرنے والے ایران نے اسرائیل کے خلاف نئی تنظیموں کی دھمکی دی ہے۔ رواں ہفتے امریکی صدر جو بائیڈن نے اسی تنبیہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’ہر وہ ملک، ہر وہ تنظیم جو اس صورتحال کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے میں انھیں صرف یہی کہوں گا: نہیں۔‘
ایک امریکی ایئر کراف کیریئر مشرقی بحیرہ روم اسی پیغام کے ساتھ بھیجا گیا ہے۔
،تصویر کا ذریعہSAID KHATIB/AFP
اسرائیل کے پاس آخری آپشن کیا ہے؟
اگر حماس کو واقعی بے انتہا کمزور کرنا ہے تو سوال یہ بھی ہے کہ اس کی جگہ کون لے گا۔
اسرائیل نے 2005 میں اپنی فوج اور ہزاروں آباد کار غزہ کی پٹی سے واپس بلا لیے تھے۔ یہ دوبارہ وہاں مقبوضہ فورس کے طور پر جانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔
اوفر ونٹر کا کہنا ہے کہ اقتدار میں تبدیلی فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کی مرحلہ وار واپسی کا امکان پیدا کرسکتی ہے جسے 2007 میں حماس نے غزہ سے نکالا تھا۔ پی اے کوئی عسکری تنظیم نہیں بلکہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں کو کنٹرول کرتی ہے۔
ان کا خیال ہے کہ مصر بھی اس کی حمایت کر سکتا ہے۔
غزہ میں انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا ہے جسے پچھلی جنگوں کی طرح دوبارہ بحال کرنا ہوگا۔
اسرائیل پر حماس کے حملوں سے پہلے بھی غزہ میں ’دہرے استعمال والے سامان‘ کے داخلے پر پابندی تھی، یعنی یہ خدشہ تھا کہ کچھ چیزوں کو عسکری مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اسرائیل مزید سخت پابندیاں عائد کرنا چاہے گا۔
غزہ کی کراسنگ کے پاس بفر زونز کے قیام کا بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے تاکہ اسرائیلی برادریوں کو تحفظ حاصل ہوسکے۔ سکیورٹی سروس شاباک کے سابق سربراہ یورام کوہن کا کہنا ہے کہ موجودہ علاقے میں دو کلو میٹر کا ’سوٹ آن سائٹ‘ زون بنانے کی ضرورت ہے۔
اس زمینی جنگ کے اثرات جو بھی ہوں، اسرائیل یہ چاہے گا کہ ایسے حملے دوبارہ کبھی نہ ہوں۔
Comments are closed.