افغانستان میں طالبان کا قبضہ: کیا طالبان افغان شہریوں کے بائیو میٹرک ڈیٹا تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں؟
’ہم مختلف گاؤں دیہات میں جاتے اور وہاں پر لوگوں کا اس بائیومیٹرک ڈیٹا سسٹم میں اندراج کرتے۔‘ یہ الفاظ یو ایس میرین سپیشل آپریشنز کمانڈ میں کام کرنے والے سابق افسر پیٹر کیرنن کے ہیں۔
’آپ کے پاس بارہ انچ لمبا اور چھ انچ چوڑا ایک آلہ ہوتا ہے۔ یہ فنگر پرنٹ سکین کرتا اور پھر آنکھ کی پتلی کو بھی سکین کرتا ہے۔ پھر یہ ان کی تصویر لیتا۔‘
پیٹر کیرنن کے لیے ایک ہفتہ خاصا مصروف رہا۔ افغانستان میں وہ 12 مختلف مترجموں کے انچارج تھے۔ کچھ ابھی تک وہاں پر ہیں اور وہ کوشش کر رہے ہیں کہ انھیں وہاں سے نکال لیں۔ جن لوگوں نے امریکی فوج کے ساتھ مل کر کام کیا ان کا وہاں سے فوری طور پر نکلنا اہم ہے۔
بی بی سی نے اقوامِ متحدہ کی دستاویزات دیکھی ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ طالبان ان لوگوں کو ڈھونڈ رہے ہیں جنھوں نے امریکی اور نیٹو فوج کے ساتھ کام کیا یا کسی بھی حیثیت میں ان کا ساتھ دیا۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ امریکی فوج اور افغان حکومت کی طرف سے کثیر تعداد میں جمع گیا بائیومیٹرک ڈیٹا ان لوگوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
بائیو میٹرک ڈیٹا میں عموماً لوگوں کی انگلیوں کے نشانات اور ان کی تصاویر شامل ہوتی ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس فرسٹ کے سینیئر ایڈوائزر برائن ڈولے نے بی بی سی ’ٹیک اینڈ ٹینٹ‘ پوڈکاسٹ کو بتایا کہ اس بارے میں زیادہ معلومات نہیں لیکن خیال یہی ہے کہ یہ کثیر ڈیٹا یا تو طالبان کے ہاتھ میں آ گیا ہے یا پھر آنے والا ہے۔
ہائیڈ ایک ایسا چھوٹا آلہ ہے جسے پیٹر کیرنن جیسے فوجی استعمال کر کے افغانوں کی تفصیلات امریکی بائیومیٹرک سٹور میں محفوظ کرتے تھے۔
یہ بھی پڑھیے
وہ بتاتے ہیں کہ ’یہ بم بنانے والوں کی شناخت کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوا۔ اس کے علاوہ امریکی فوج کے ساتھ کام کرنے والے مقامی لوگوں اور کانٹریکٹر یا ٹھیکے داروں کی پہچان کے لیے بھی اسے استعمال کیا گیا۔‘
امریکی فوج کا یہ پلان تھا کہ 80 فیصد آبادی کی تفصیلات کا اس سسٹم میں اندراج ہو جائے تاہم اس کی اصل تعداد اس سے بہت زیادہ کم ہے۔
منگل کو خبر رساں ویب سائٹ ’دی انٹرسیپٹ‘ کو فوجی ذرائع نے بتایا کہ اس طرح کے آلے طالبان کے ہاتھ لگ گئے ہیں جبکہ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق کابل میں رہنے والے ایک مقامی شخص نے انھیں بتایا ہے کہ طالبان اس بائیومیٹرک مشین کی مدد سے گھر گھر جا کر تلاشی لے رہے تھے۔
افغان حکام نے سائنس کے جریدے ’نیو سائنٹسٹ‘ کو بتایا کہ بائیومیٹرک سسٹم اب طالبان کے ہاتھ میں ہے۔
پیٹر کیرنن سمجھتے ہیں کہ ایسا ممکن ہے کہ طالبان کے ہاتھ میں اتحادی افواج کا کچھ بائیو میٹرکا ڈیٹا آ گیا ہو لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتے کے آیا طالبان کو اسے استعمال کرنے کے لیے درکار تکنیکی معلومات ہیں یا نہیں۔
صحافی اور مصنف اینی جیکبسن نے فوجی بائیومیٹرک نظام پر تحقیق کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ طالبان کو اگر یہ آلے مل بھی جاتے ہیں تو ان کی کثیر تعداد میں ڈیٹا تک رسائی ممکن نہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ افغان حکام کے ساتھ یہ ڈیٹا کم تعداد میں تقسیم کیا گیا کیونکہ خدشہ تھا کہ یہ کسی بدعنوان حکام کے ہاتھ لگ گیا تو وہ اسے استعمال کرتے ہوئے مجرموں کو خبردار کر سکتے ہیں۔
’ہائیڈ ڈیوائس کی مدد سے اکٹھا گیا گیا ڈیٹا افغانستان میں نہیں رکھا جاتا بلکہ امریکہ میں پینٹاگون میں سٹور کیا جاتا ہے۔‘
اینی جیکبسن کہتی ہیں کہ یہ ایک بہت ہی پیچیدہ سسٹم کے اندر محفوظ ہوتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ عملی طور پر طالبان کے لیے معلومات کی تلاش میں سوشل میڈیا کا استعمال زیادہ آسان ہو گا۔
بی بی سی نے اس حوالے سے امریکی محکمہ دفاع سے ان کا موقف پوچھنے کے لیے رابطہ کیا ہے۔
عام شہریوں کا ڈیٹا
اففغان حکومت نے بھی بائیومیٹرک کا استعمال کیا ہے۔ افغانستان کے مردم شماری اور مواصلات کے ادارے نے ساٹھ لاکھ سے زیادہ لوگوں کی تفصیلات استعمال کرتے ہوئے انھیں بائیومیٹرک کارڈ جس کا نام ای تذکرہ کارڈ ہے، شائع کیا۔
اس بائیومیٹرک ڈیٹا میں لوگوں کے فنگر پرنٹ، ان کی آنکھ کی پتلی کا سکین اور چہرے کی تصاویر شامل ہیں۔
سنہ 2019 میں ہونے والے انتخابات میں ووٹر رجسٹریشن چیک کرنے کے لیے اس کا استعمال کیا گیا۔
افغانستان میں رجسٹر آف بزنز متعارف کروایا گیا جس میں مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کے بائیومیٹرک ڈیٹا کے اندراج کا پلان شامل ہے۔
سنہ 2016 میں ایک افغان نشریاتی ادارے نے رپورٹ دی تھی کہ طالبان نے سکیورٹی سروس کی بس پر حملہ کر کے 12 لوگوں کا قتل کرنے سے پہلے ان لوگوں کی شناخت بائیو میٹرک ریڈر سے کی، جس سے انھیں پتا چلا کہ سکیورٹی سروس کے لیے کون سے افراد کام کرتے ہیں۔
Comments are closed.