یوکرین، روس تنازع: پوتن کے غلط اندازوں کا مطلب ہے کہ وہ زیادہ طاقت استعمال کر سکتے ہیں
- جان سمپسن
- ورلڈ افیرز ایڈیٹر
خارخیو میں لوگ زخمی عورت کی مدد کر رہے ہیں
روس کے یوکرین پر حملے کے پہلے ہفتے کے دوران یوکرین نے صدر پوتن کی توقعات کے برعکس بہت جوانمردی سے حملہ آور فوجوں کا مقابلہ کیا ہے۔ لیکن یہ ممکنہ طور پر ایک خوفناک جنگ کے ابتدائی مراحل ہیں۔
صدر پوتن نے شاید سوچا ہو کہ یلغار کے چند روز کے اندر یوکرین کا دارالحکومت کیئو سرنگوں ہو جائے گا۔ پوتن نے یقیناً سوچا ہو گا کہ منقسم یورپی ممالک ’تاریخی روس‘ کے علاقے کو واپس روس میں شامل کرنے کے فیصلے کو تسلیم کر لیں گے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا ہے۔
یوکرین بہت مشکل محاذ ثابت ہو رہا ہے جبکہ یورپی ممالک خصوصاً جرمنی نے اندازوں سے زیادہ سخت مؤقف اپنایا ہے۔
روس کی معیشت بُری طرح متاثر ہوئی ہے۔ پوتن کا واحد دوست، چین، اب مغربی غصے کو دیکھ کر پریشان ہے کہ کہیں یہ غصہ اُس پر نہ اُتر جائے جس سے چینی معیشت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ چین نے خود کو یوکرین پر روسی حملے کے معاملے سے دور کر لیا ہے۔
روسی افواج نے کیئو میں داخل ہوتے ہی ایک ٹی وی ٹاور کو تباہ کیا تھا
توقعات کے برعکس نیٹو شاید پہلے سے بھی مضبوط ہو جائے۔ فن لینڈ اور سویڈن اپنے تحفظ کی خاطر نیٹو اتحاد میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں۔ پوتن نے یہ جنگ یوکرین کی نیٹو میں ممکنہ شمولیت کو روکنے کے لیے شروع کی تھی لیکن اس جنگ کی وجہ روس کی شمالی مغربی سرحد پر پہلے سے زیادہ نیٹو ممالک اکٹھے ہو سکتے ہیں۔
یہ ساری مشکلات صدر پوتن کے غلط اندازوں کی وجہ سے ہیں، جو انھوں نے کووڈ کی وبا کے دوران تنہائی میں رہ کر لگائے تھے۔ وہ اپنے مشیروں سے کم ہی ملتے ہیں اور ہم سوچ سکتے ہیں کہ وہ صرف ایسے مشیروں سے ملتے ہیں جو اُن کو وہی بات بتاتے ہیں جو وہ سُننا چاہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
اب صدر پوتن کو نئے حل تلاش کرنے پڑیں گے۔ ولادیمیر پوتن کو جب بھی ٹھکرایا جاتا ہے وہ پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ وہ پہلے سے زیادہ طاقت استعمال کریں گے اور ایسا کرنے کے لیے اُن کے پاس ہتھیار موجود ہیں۔
امریکہ میں یوکرین کے سفیر نے دعویٰ کیا ہے کہ روسی فوجوں نے تھرموبیرک ہتھیار (ویکیوم بم) استعمال کیے ہیں۔ تھرموبیرک ہتھیار یا ویکیوم بم اردگرد کے ماحول سے آکسیجن ختم کر کے زیادہ درجہ حرارت پر زور دار دھماکے کا باعث بنتے ہیں۔
سفارتکار کئی بار بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں بلکہ ہم نے تو روس کے تھرمو بیرک راکٹ لانچروں کو یوکرین آنے کی ویڈیوز دیکھی ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب ہم بڑے پیمانے پر ان بموں کو استعمال ہوتا ہوا دیکھیں گے۔
خارخیو سے ایسی تصاویر بھی سامنے آئی ہیں جو شاید کلسٹر بموں سے ہونے والی تباہی کی ہیں۔ کلسٹر بم کے استعمال سے چھوٹے چھوٹے بموں کی بارش ہو جاتی ہے جس سے ایک وسیع علاقے میں تباہی پھیلتی ہے۔
سنہ 2008 میں ایک عالمی کنوینشن میں کلسٹر بموں کے استعمال کو ممنوعہ قرار دیا گیا تھا لیکن روس نے اس کنوینشن پر دستخط نہیں کیے تھے۔ روس کا کہنا ہے کہ وہ کلسٹر بموں کو عالمی قوانین کے تحت استعمال کرتا ہے۔ خارخیو کے لوگ شاید اس سے متفق نہ ہوں لیکن ولادیمیر پوتن کبھی بھی خطرناک ہتھیاروں کے استعمال سے چوکتے نہیں ہیں۔
یہ سمجھا جاتا ہے کہ صدر پوتن نے ایک سابق کے جی بی ایجینٹ الیگزینڈر لیتوینینکو کو سنہ 2006 میں لندن میں قتل کرنے کے لیے تابکاری مادے ’پولونیم‘ کے استمعال کی بھی اجازت دی تھی۔
اس بات کا بھی امکان ہے کہ صدر پوتن نے سنہ 2018 میں روسی منحرف سرگئی سکریپال کو اعصاب پر حملہ آور ہونے والے زہریلے نویچوک ایجنٹ سے قتل کرنے کی اجازت دی تھی۔
روس کا یوکرین پر حملہ: ہماری کوریج
بی بی سی لائیو پیج: یوکرین پر روس کا حملہ، تازہ ترین صورتحال
سرگئی سکریپال تو اس حملے میں بچ گئے لیکن ڈان سٹرجیس نامی خاتون کی اس زہریلے مواد کی وجہ سے موت واقع ہو گئی تھی۔
معصوم شہریوں کو لاحق ہونے والے خطرات نے کبھی ولادیمیر پوتن کو پریشان نہیں کیا ہے۔ صدر پوتن اس اصول پر یقین رکھتے ہیں کہ روس کے وسیع تر مفاد کے سامنے عام شہریوں کی جانوں کی کوئی حیثیت نہیں۔
اگر روس کو یوکرین میں وہ نتائج نہیں ملتے جن کا اندازہ لگا کر یوکرین پر حملہ کیا گیا تو کیا روسی صدر جوہری ہتھیار استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ ممکن تو ہے لیکن تجزیہ کاروں کی اکثریت کے خیال میں ابھی ہم اس سطح پر نہیں پہنچے ہیں۔
یہ بھی سچ ہے کہ صدر پوتن نے کہا ہے کہ اگر کسی نے باہر سے یوکرین میں مداخلت کرنے کی کوشش کی تو انھیں وہ نتائج بھگتنے پڑ سکتے ہیں جن کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
وہ اکثر کہتے رہے ہیں کہ اگر دنیا میں روس کی جگہ نہیں تو پھر دنیا کے رہنے کا کیا جواز ہے۔
کیئو کے مضافات میں ایک تباہ شدہ عمارت
نیٹو کی کوئی بڑی غلطی ہی ہمیں جوہری ہتھیاروں کی سطح پر پہنچا سکتی ہے۔
تاریخ شاید اپنے آپ کو دہرائے۔ جوزف سٹالن نے 1939 میں اس امید پر فن لینڈ پر حملہ کیا تھا کہ وہ چند دنوں میں ہار مان جائے گا۔ فن لینڈ نے خوب مقابلہ کیا اور روسی فوج کو سخت نقصان پہنچایا۔ سوویت یونین کو اس جنگ کو ختم کرنے میں 100 دن لگے تھے۔
اس جنگ میں فن لینڈ سے کچھ علاقہ تو چھن گیا لیکن وہ ایک آزاد ملک کے طور پر قائم رہا۔
اس کا امکان موجود ہے کہ یوکرین کی جنگ بھی اسی انداز میں ختم ہو گی۔
ابھی تو جنگ شروع ہوئی ہے اور یوکرین ابھی تک مقابلہ کر رہا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دیر تک روسی طاقت کا مقابلہ کر سکتا ہے۔
البتہ پہلا راؤنڈ تو اچھا گیا اور مغربی دنیا کا ردعمل بہت سارے لوگوں جن میں ولادیمیر پوتن بھی شامل ہیں، کی توقعات سے زیادہ سخت ہے۔
Comments are closed.