- مصنف, آرچی اتندریلا
- عہدہ, بی بی سی نیوز، بنگلہ دیش
- ایک گھنٹہ قبل
سنہ 1971 کی تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے اگر دیکھا جائے تو بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات ہمیشہ سے ہی ایک حساس موضوع رہا ہے۔ حسینہ واجد کی جماعت عوامی لیگ کے دور میں دونوں ممالک کے تعلقات خاص طور پر جنگی جرائم کے مقدمات کے تناظر میں مزید خراب ہوئے۔تاہم شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد ہونے والی بہت سی تبدیلیوں کی طرح دونوں ملکوں کے تعلقات تبدیل ہونے کے بارے میں بھی چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں اور حال ہی میں بنگلہ دیش میں ایک تنظیم نے 11 ستمبر کو بانی پاکستان محمد علی جناح کی برسی بھی منائی۔تو کیا بنگلہ دیش کی پاکستان کے حوالے سے سفارت کاری میں بھی کوئی تبدیلی آئے گی؟ پاکستان کی بنگلہ دیش میں کتنی دلچسپی ہے اور پاکستان سے بہتر تعلقات کی بدولت بنگلہ دیش کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟کئی ممالک کی طرح پاکستان نے بھی پروفیسر محمد یونس کو بطور چیف ایڈوائزر تعیناتی پر مبارکباد دی۔ بنگلہ دیش میں پاکستان کا سفارت خانہ بھی کافی متحرک ہے۔ بنگلہ دیش میں تعینات پاکستان کے ہائی کمشنر نے موجودہ حکومت کے مشیروں سے ملاقات کی۔ اس کے علاوہ انھوں نے خالدہ ضیا کی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے رہنماؤں سے بھی ملاقات کی۔
پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے بنگلہ دیش کے عبوری سربراہ پروفیسر محمد یونس کے ساتھ ہونے والی گفتگو میں دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے میں دلچسپی کا اظہار کیا۔پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ پاکستان نے ہمیشہ بنگلہ دیش کے حوالے سے مثبت اور تعمیری موقف کو ترجیح دی۔انھوں نے کہا کہ ’بعض اوقات مسائل بھی آئے ہیں لیکن جب ان مسائل پر قابو پانے اور تعلقات کو آگے بڑھانے کی خواہش ہو تو ہم باہمی مفاد میں آگے بڑھنے کے تمام اہداف حاصل کر سکتے ہیں۔‘بنگلہ دیش کے مشہور مصنف فہام عبدالسلام کا خیال ہے کہ گزشتہ 15 سال میں بنگلہ دیش کی حکومت نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو انڈیا کی نظروں سے دیکھا اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات سنہ 1971 کی تاریخ کے اردگرد ہی گھومتے رہے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہAFP
بنگلہ دیش کا پاکستان سے ’معافی‘ کا مطالبہ
1971 کے ’قتل عام‘ پر معافی بنگلہ دیش میں ہمیشہ سے ایک اہم موضوع رہا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کئی بار اس بارے میں بات کر چکے ہیں لیکن سرکاری سطح پر اب تک ایسا کچھ ہو نہیں سکا۔اس بارے میں پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ کا خیال ہے کہ ’سنہ 1971 کی تکلیف دہ تاریخ دونوں ممالک میں موجود ہے لیکن یہ مسئلہ دونوں ممالک کے رہنماؤں نے حل کر لیا اور اس سلسلے میں 1974 میں ایک معاہدہ بھی ہوا۔‘1971 کی جنگ کے بعد اس وقت پاکستان کے صدر یحییٰ خان کو صدارت سے دستبردار ہونا پڑا لیکن اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار میں آنے کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان تلخیاں ختم نہ ہو سکیں۔بین الاقوامی برادری کی کوشش کے نتیجے میں سنہ 1974 میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے رہنما ایک دوسرے کے ملک کے دورے پر آئے۔23 فروری 1974 کو اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں شیخ مجیب الرحمن کا استقبال کیا۔ اس موقع پر پاکستان میں بنگلہ دیش کا قومی ترانہ بھی بجایا گیا۔ اس سے ایک روز قبل ہی پاکستان بنگلہ دیش کو باضابطہ طور پر تسلیم کر چکا تھا۔ پھر اسی سال جون میں ذوالفقار علی بھٹو نے بھی بنگلہ دیش کا دورہ کیا۔ اس موقع پر ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ ’پاکستانی عوام آپ کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں جبکہ حکومت پاکستان بنگلہ دیش کی خودمختاری اور آزادی کو تسلیم کرتی ہے۔‘بنگلہ دیش، پاکستان اور انڈیا کے درمیان اپریل 1974 میں ایک سہ فریقی معاہدہ بھی ہوا، جس کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو نے بنگلہ دیش کے عوام سے درخواست کی کہ وہ انھیں (پاکستان) کو معاف کر دیں اور ماضی کو بھلا کر آگے بڑھیں۔شیخ مجیب الرحمان کی جانب سے بھی ماضی کو بھول کر ایک نئی شروعات کرنے کا ذکر نیویارک ٹائمز کی آرکائیو رپورٹ میں بھی ملتا ہے۔ ممتاز زہرہ بلوچ نے نشاندہی کی کہ اس وقت دونوں رہنماؤں کی دور اندیشی نے دونوں ملکوں کو بہتری اور آگے بڑھنے کا راستہ دکھایا۔انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کی موجودہ نسل اس سانحے کے بعد پیدا ہوئی اور وہ بنگلہ دیش کے لوگوں کا بہت احترام کرتے ہیں۔ اسی لیے پچاس ساٹھ سال بعد اس موضوع کو دوبارہ اٹھانے کی ضرورت نہیں۔‘،تصویر کا ذریعہReuters2002 میں اس وقت پاکستان کے فوجی صدر پرویز مشرف نے بھی ڈھاکہ کا دورہ کیا اور 1971 کے واقعات پر ’افسوس‘ کا اظہار کیا تاہم بنگلہ دیش میں اسے باضابطہ معذرت کے طور پر نہیں دیکھا جاتا۔1971 کی جنگ میں مرنے والے دانشور منیر چودھری کے بیٹے آصف منیر بھی محسوس کرتے ہیں کہ معافی یا پاکستان کو شرمندہ کرنے کے معاملے پر زور دینے کی ضرورت نہیں۔انھوں نے کہا کہ ’بلاشبہ پاکستانی عوام 1971 کے بارے میں مختلف رائے رکھتے ہیں لیکن ایسا نہیں کہ وہ اس بارے میں غمگین نہیں۔‘آصف منیر نے مزید کہا کہ ’1970 کی دہائی میں بھی پاکستانی فنکاروں اور مصنفین نے بنگلہ دیش کے لیے آواز اٹھانے کی کوشش کی۔‘فہام عبدالسلام نے سنہ 1998 میں دورہ پاکستان کے اپنے تجربے کی کہانی سنائی کہ جب انھوں نے ایک ٹیکسی ڈرائیور کو بتایا کہ وہ بنگلہ دیش سے آئے ہیں تو ڈرائیور نے ان سے معافی مانگی۔ ’انھوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر 1971 کے لیے معافی مانگی۔ میں اس سے بہت متاثر ہوا۔‘فہام عبدالسلام یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان میں بنگلہ دیش کے حوالے سے سب کا رویہ یکساں نہیں تاہم ان کا ماننا ہے کہ پاکستان میں ایک احساس ندامت ضرور موجود ہے۔انھوں نے کہا کہ ’کیا 1971 یا 1972 یا اس کے بعد پیدا ہونے والا کوئی بچہ اس سب کا ذمہ دار ہے؟ کیا آپ اپنے دادا کے جرم کے ذمہ دار ہوں گے؟‘
تعلقات میں بہتری کا فائدہ کیا ہو گا؟
پاکستان ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی ویب سائٹ کے مطابق پاکستانیوں نے بنگلہ دیش میں چمڑے، ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کے شعبے میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔بنگلہ دیش پاکستان سے کپاس، کپڑا، کیمیکلز، معدنی اور دھاتی مواد، برقی سامان اور مشینری وغیرہ درآمد کرتا ہے جبکہ پاکستان بنگلہ دیش سے جیوٹ (پٹسن) اور اس کی مصنوعات، ہائیڈروجن پیرو آکسائیڈ، مصنوعی فائبر، ٹیکسٹائل اور طبی سامان درآمد کرتا ہے۔پاکستان کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2023 میں بنگلہ دیش نے پاکستان کو 60 کروڑ 33 لاکھ ڈالر سے زائد کا سامان برآمد کیا جبکہ پاکستان سے بنگلہ دیش کو 65 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی برآمدات کی گئیں۔سنہ 2019 میں بنگلہ دیش نے پاکستان سے آٹھ کروڑ 30 لاکھ ڈالر سے زائد کی درآمدات کیں۔اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جہاں بنگلہ دیش پاکستان سے درآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے تو وہیں ایک بڑا تجارتی خسارہ ہے تاہم توحید حسین کے خیال میں یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔انڈیا اور چین کا بھی درآمدی انحصار بہت زیادہ ہے جبکہ امریکہ یا یورپ کو برآمدات بھی بہت زیادہ ہیں۔ وہ سمجھتے ہے کہ معیشت اور کاروبار کے میدان میں یہ نارمل چیزیں ہیں۔انھوں نے کہا کہ ’فرض کریں اگر ہم پاکستان سے بہت زیادہ روئی خریدیں گے تو پاکستان کو سرپلس مل جائے گا لیکن جو کپڑا ہم امریکہ کو برآمد کرتے ہیں اس کے لیے ہمیں کپاس درکار ہے۔ یہ چیزیں دراصل آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔‘فہام عبدالسلام کا ماننا ہے کہ پاکستان میں بنگلہ دیش کے کاروباروں کے مواقع موجود ہیں۔ انھوں نے بنگلہ دیش کے برانڈ ’ییلو‘ کی مثال دی جس کے کچھ آؤٹ لیٹس پاکستان میں موجود ہیں۔انھوں نے کہا کہ ’پاکستان میں 20 لاکھ سے زیادہ بنگلہ دیشی رہتے ہیں اور ہمیں اس مارکیٹ کو بھی استعمال کرنا چاہیے۔‘فہام عبدالسلام کا خیال ہے کہ اگر دونوں ممالک کے تعلقات معمول پر آئے تو تجارت کے نئے مواقع کھلیں گے۔بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کی وزارت خزانہ اور تجارت کے مشیر نے بھی حال ہی میں کاروباری اور تجارتی تعلقات کو مضبوط بنانے کے بارے میں بات کی ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesممتاز زہرہ بلوچ نے بھی کہا کہ پاکستان تجارتی پہلو کو اہمیت دے رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ تجارت، زراعت، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں اور دونوں ممالک کے عوام کے درمیان تعلقات پہلے ہی قائم ہو چکے ہیں۔ان کا یہ بھی خیال ہے کہ سارک اور او آئی سی جیسی بین الاقوامی تنظیموں کے رکن کے طور پر بھی دونوں ملک مل کر اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔اس کے علاوہ ماہرین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بات پر بھی زور دیا کہ دونوں ممالک کے عوام کو قریب لانے کی ضرورت ہے۔آصف منیر کے خیال میں دونوں ممالک میں سماجی اور ثقافتی مماثلتیں ہیں، بنگلہ دیش میں پاکستان کے ادب، ڈرامے، فلموں اور لباس تک کو سراہا جاتا ہے۔تاہم آصف منیر نے کہا کہ اپنے دورہ پاکستان کے دوران وہاں مقیم غریب بنگالیوں کو دیکھ کر انھیں یہ محسوس ہوا کہ پاکستانی انھیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ’اس لیے اس رجحان کو تبدیل کرنے کے لیے بنگلہ دیش کے لبرل پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔‘ممتاز زہرہ بلوچ نے بھی کہا کہ دونوں ممالک کے عوام بالخصوص نوجوان نسل کے درمیان دوستی ہے، جس کی بنیاد پر باہمی تعلقات کو آگے بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے۔
سفری حقائق
پاکستان نے بنگلہ دیش کے شہریوں کے لیے ویزا فیس ختم کر دی ہے، جس سے براہ راست پروازیں شروع کرنے میں دلچسپی ظاہر ہوتی ہے۔پاکستانی طلبہ بنگلہ دیش کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں اور اسی طرح پاکستان میں ایسی جگہیں ہیں جن کو دیکھنے میں بنگلہ دیشی شہری دلچسپی رکھتے ہیں۔لیکن چونکہ بنگلہ دیش تینوں اطراف سے انڈیا کی جانب سے گھرا ہوا ہے تو اسی لیے بنگلہ دیشی لوگ اکثر کم خرچ کے سفر یا علاج کے لیے انڈیا جاتے ہیں۔ یہ ہی معاملہ تجارت کے شعبے میں بھی ہے۔تو اگر آپ انڈیا کے ہوتے ہوئے پاکستان جانے کو ترجیح دیتے ہیں تو ایک بار پاکستان کا ویزہ جاری ہونے کے بعد جب آپ انڈیا جائیں گے تو پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔توحید حسین کہتے ہیں کہ ’ایسا کوئی بھی بنگلہ دیشی شہری جو یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان جانے کے بعد اس کا انڈیا جانا مشکل ہو جائے گا، تو وہ پاکستان نہیں جائے گا۔‘ایشیا کے اس خطے میں پاکستان اور چین کے انڈیا کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں۔ اگرچہ بنگلہ دیش کے چین کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں لیکن عوامی لیگ کی حکومت کے دوران انڈیا کو بنگلہ دیش کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کے بارے میں فکر مند نہیں ہونا پڑا تاہم بنگلہ دیش اس ساری صورتحال میں انڈیا کو مکمل طور پر نظر انداز بھی نہیں کر سکتا۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.