یوکرین روس جنگ: کیا سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں یوکرینی فوجی روس کے جنگی قیدیوں کو گولیاں مار رہے ہیں؟
- ریئلٹی چیک اور بی بی سی مانیٹرنگ
- بی بی سی نیوز
یہ اس ویڈیو سے لی گئی تصاویر ہیں جن کے بارے میں دعوی کیا جا رہا ہے کہ یوکرینی فوجی جنگی قیدیوں کی ٹانگوں پر گولیاں چلا رہے ہیں
یوکرینی حکام اس ویڈیو کی تحقیق کر رہے ہیں جس کے بارے میں دعویٰ کیا جا رہا ہے اس میں یوکرینی فوجی روسی جنگی قیدیوں کی ٹانگوں پر گولیاں چلا رہے ہیں۔
27 مارچ سے روس کے حامی ٹوئٹر اکاونٹس سے ایک دھندلی سی ویڈیو شیئر کی جا رہی ہے۔
یوکرین کی افواج کے کمانڈر ان چیف ویلیری زولوزینی نے کہا ہے کہ روس ایسی ویڈیوز تیار کر کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شیئر کر رہا ہے جس کا مقصد یوکرین کی افواج کو بدنام کرنا ہے لیکن یوکرین کے صدر ولایمیر زیلنسکی کے مشیر اولیکسی ارسٹووچ نے کہا ہے کہ ہم اس معاملے کی فوراً تحقیق کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہا ہے کہ ’میں اپنے فوجی اور سویلین ڈیفنس فورسز کو یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ جنگی قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی جنگی جرم ہے۔‘
بی بی سی اس ویڈیو کا تجزیہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بی بی سی کو ابھی تک جو کچھ معلوم ہوا، وہ کچھ یوں ہے۔
ویڈیو میں کیا نظر آ رہا ہے؟
اس ویڈیو میں کچھ فوجی زمین پر لیٹے ہوئے نظر آ رہے ہیں جنھیں قید کر لیا گیا ہے۔ کچھ فوجیوں کے سروں پر تھیلے ہیں اور ان میں کچھ کی ٹانگوں سے خون بہہ رہا ہے۔ یہ واضح نہیں کہ وہ کب زخمی ہوئے۔
فوجیوں کو پکڑنے والے ان سے سوالات پوچھ رہے ہیں کہ ان کی یونٹ کا نام کیا ہے اور وہ کہاں پر تعینات ہے۔
ایک موقع پر تین لوگ جنھیں ایک گاڑی سے نکال کر لایا جا رہا ہے ایک فوجی ان کی ٹانگوں پر فائر کرتا ہے۔ پھر یہ لوگ ان سے سوالات کرتے ہیں۔
یہ ویڈیو کہاں بنائی گئی؟
ایک ٹوئٹر ہینڈل سے کہا گیا کہ یہ ویڈیو خارخیو شہر کے جنوب مشرق میں واقع مالایا روہن کے ڈیری پلانٹ پر بنائی گئی۔
بی بی سی نے جیو لوکیشن معلوم کرنے والے آلات کی مدد سے اس جگہ کی تصدیق کرنے کی کوشش کی۔ یوکرینی افواج نے اس علاقے کو حال ہی میں روسی افواج کے قبضے سے چھڑوا لیا ہے۔
ہم نے سیٹلائٹ تصاویر کی مدد سے اس ویڈیو میں نظر آنے والی جگہوں کی نشاہدہی کرنے کی کوشش کی اور جو چیزیں ابھی تک معلوم ہوئی، وہ ذرج ذیل ہیں۔
1) جہاں ان تین فوجیوں پر گولیاں چلائی جاتی ہیں ہم اس گھر کے کچھ حصوں کی شناخت کر سکتے ہیں۔ ایک سفید ڈھانچے کے پیچھے ایک درخت، ایک چمنی اور ایک کھڑکی کا اوپر والا حصہ نظر آ رہا ہے۔ یہ ساری نشانیاں اسی ڈیری کی ایک پرانی گوگل تصویر میں نظر آتی ہیں۔
بی بی سی نے اس ڈیری پلانٹ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
یہ فلم کب بنائی گئی ؟
اس ویڈیو کے میٹا ڈیٹا سے یہ کہیں ظاہر نہیں ہوتا کہ یہ کب بنائی گئی تھی لیکن اس سے نظر آتا ہے کہ جس روز ویڈیو بنائی گئی اس روز موسم صاف ہے، کوئی بادل نہیں اور زمین خشک ہے۔
خارخیو شہر کی موسمی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ویڈیو 26 مارچ کو بنائی جا سکتی تھی۔ جمعہ اور سنیچر کے روز وہاں کا دن روشن اور خشک تھا لیکن سنیچر اور اتوار کی رات اس علاقے میں ہلکی سی بارش ریکارڈ کی گئی تھی۔
ویڈیو فریمز سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ ویڈیو دن کے اولین گھنٹوں میں ریکارڈ کی گئی ہے۔
قیدی فوجیوں سے روسی زبان میں سوال کیے جا رہے ہیں۔ بی بی سی مانیٹرنگ کی لینگوئج ماہر کے مطابق روسی بولنے والوں کا لہجہ ایسا ہی ہے جیسے یوکرینی باشندے روسی بولتے ہیں۔
ایک اور ماہر نے بتایا کہ ویڈیو میں بولنے والوں کا لہجہ یوکرینی ہے۔
اس موقع پر قیدیوں پر خارخیو پر گولے برسانے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ ایک قیدی کہتا ہے کہ وہ روسی نہیں بلکہ آذربائیجانی ہے۔
ایک کہتا ہے کہ وہ مالایا روہن کے قریب بشکوطنی میں تعینات ہے۔
یہ بھی پڑھیے
فوجی کون ہیں؟
ان فوجیوں کو قید کرنے والوں کا لہجہ مشرقی یوکرین کا ہے لیکن اس سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ وہ یوکرین کے فوجی ہیں۔ اس کا بھی امکان موجود ہے کہ وہ روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسند ہوں جو اس علاقے میں موجود ہیں۔
انھوں نے جو یونیفارم پہن رکھے ہیں ان پر نیلے رنگ کے آرمڈ بینڈ ہیں جنھیں یوکرینی فوج استعمال کرتی ہے لیکن یہ کسی لحاظ سے حتمی نہیں۔
اس کے علاوہ کسی فوجی کی رجمنٹ کا بیج یا شناخت کی کوئی اور نشانی ظاہر نہیں ہوتی ہے۔ ان فوجیوں کے چہروں کی شناخت ممکن نہیں۔ البتہ یوکرین کی افواج اس علاقے میں موجود تھیں۔
فوجیوں کے بازوں پر نیلے رنگ کے آرمڈ بینڈ نظر آ رہے ہیں جنہیں یوکرینی فوج استعمال کرتی ہے
اختتام ہفتہ پر 26 اور 27 مارچ کو اس ویڈیو کو انتہائی دائیں بازو کے کراکن یونٹ کی کاررائیوں کے طور پر آن لائن پوسٹ کیا گیا۔
بی بی سی نے معلوم کیا ہے کہ اس ویڈیو کی لوکیشن ولخیوکا گاؤں ہے، جو مالایا روہن سے 3.5 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ اس روز ولخیوکا گاؤں کا موسم بھی اس ویڈیو کے موسم سے ملتا ہے۔
کراکن گروپ نے کہا تھا کہ اس نے 30 روسی فوجیوں کو ولخیوکا گاؤں میں قیدی بنا لیا ہے۔
ان فوجیوں کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر انھیں ایک وین میں ڈال دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ یوکرین کا قومی ترانہ گائیں لیکن اس روز کسی فائرنگ یا تشدد کا کوئی آثار نہیں۔
اس ویڈیو میں ایک فوجی بندوق اٹھائے ان قیدیوں کے پاس سے گزرتا ہے۔
بی بی سی نے ملٹری ماہر نک رینالڈز سے اس ویڈیو کو دیکھنے کے لیے کہا۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ جس انداز میں فوجی نے بندوق اٹھا رکھی ہے یہ یوکرین کی سپیشل فورسز کا انداز ہے تاہم نک رینالڈ نے بتایا کہ انھوں نے یہ ہتھیار کبھی نہیں دیکھا۔
گولیاں مارنے کے بارے میں سوالات
ویڈیو کا سب سے پریشان کن حصہ وہ ہے جس میں تین آدمی قریب سے قیدیوں کی ٹانگوں پر گولیاں چلا رہے ہیں۔ اس ویڈیو کے اصلی یا نقلی ہونے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر بحث ہو رہی ہے۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ان فوجیوں کی ٹانگوں سے زیادہ خون نہیں بہہ رہا ہے اور نہ ہی ان کے چیخنے کی آوازیں آ رہی ہے۔
بی بی سی نے کئی ٹروما سرجن اور سابق آرمی ڈاکٹروں سے بات کی، جنھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ہمیں اپنی رائے دی۔
ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ انھوں نے ایسے فوجیوں کا علاج کیا ہے جنھیں گولیاں لگی تھیں لیکن نہ تو وہ چیخ رہے تھے اور نہ ہی انھوں نے آواز بلند کی۔
فوجیوں کی ٹانگوں سے کم خون بہنے کی ایک وجہ پٹی باندھنا ہے جو ویڈیو میں نظر آ رہی ہے۔
ایک ماہر نے ہمیں بتایا کہ اس ویڈیو میں جو تصاویر ہیں انھیں دیکھ اسے جعلی قرار نہیں دیا جا سکتا اور جنگی جرائم کی تحقیقات کی ضرورت ہے۔
ایک اور ڈاکٹر نے کہا کہ ویڈیو اصلی معلوم ہوتی ہے۔
سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں نے کہا کہ جب ان بندوقوں سے گولی چلائی جا رہی ہے تو بندوق کے چلنے پر پیچھے کی طرف دھکا نظر نہیں آ رہا جس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے یہ خالی کارتوس چلا رہے ہیں۔
البتہ نک رینالڈ نے کہا کہ اے کے 74 کا دھانا چھوٹا ہوتا ہے اور اس سے گولی چلنے پر اس کا پیچھے کی طرف دھکا بہت کم ہوتا ہے لیکن نک رینالڈ نے کہا ویڈیو کی کوالٹی بہت اچھی نہیں۔
بی بی سی اس ویڈیو کی اصلیت جاننے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں اور جب بھی اس بارے میں کوئی معلومات سامنے آئیں گی، اسے قارئین تک پہنچایا جائے گا۔
Comments are closed.