جمعرات 8؍ شوال المکرم 1442ھ20؍مئی 2021ء

کیا سعودی عرب نئے تجارتی قوانین کی مدد سے دبئی کا مقابلہ کر رہا ہے؟

کیا سعودی عرب نئے تجارتی قوانین کی مدد سے متحدہ عرب امارات کا مقابلہ کر رہا ہے؟

  • زبیر احمد
  • نامہ نگار بی بی سی ہندی

سعودی

تیل برآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک سعودی عرب اپنی معیشت کا تیل پر انحصار کم کرنے کے لیے متعدد اقدامات اٹھا رہا ہے اور اس سلسلے میں ان کا تازہ ترین فیصلہ ہے کہ کوئی بھی غیر ملکی کمپنی اور تجارتی ادارہ جو سرکاری معاہدہ حاصل کرنا چاہتا ہے، اسے سعودی عرب میں اپنا دفتر کھولنا ہو گا۔

سعودی حکومت کے اس فیصلے کا اطلاق 2024 سے ہو گا۔

سعودی عرب کی معیشت مشرق وسطیٰ کے خطے میں سب سے بڑی ہے اور سعودی عرب سیاسی نقطہ نظر سے علاقائی طاقت ہے۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا ارادہ ہے کہ 2030 تک سعودی عرب کو معاشی اور تجارتی مرکز بنا دیا جائے۔

سعودی عرب کے حالیہ اعلان نے پڑوسی ممالک میں کافی ہلچل مچا دی ہے۔ اس فیصلے سے سعودی عرب کا قریبی اتحادی متحدہ عرب امارات (یو اے ای) بھی تشویش کا شکار ہے کیونکہ کئی لوگوں کی نظر میں سعودی فیصلہ دبئی سے مقابلہ کرنے کی کوشش ہے۔

سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ریاض کو اس اونچائی پر لے جانا چاہتے ہیں جہاں اس وقت دبئی ہے۔ ریاض کی آبادی اس وقت 75 لاکھ ہے لیکن ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان 2030 تک اسے دگنا کرنا چاہتے ہیں۔

سعودی عرب کا دارالحکومت ریاض تیزی سے پھیل رہا ہے۔ شہر میں چمکتی ہوئی شیشے کی عمارتیں، شاپنگ مالز، بڑی کمپنیوں کے شورومز اور چوڑی سڑکیں شہر میں روپے پیسے کی فراوانی کی عکاسی کرتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کیا سعودی عرب دبئی کے خلاف کامیاب ہو گا؟

دبئی میں مقیم معاشی ماہر اڈیائو بالاجی آڈیو کا کہنا ہے کہ دبئی سے مقابلہ کرنا آسان نہیں ہو گا۔

اکنامک انٹلیجنس یونٹ پبلک پالیسی اور لیڈرشپ سے وابستہ اڈیائو بالاجی آڈیو کا کہنا ہے کہ ’سعودی نے ایک سٹریٹجک قدم اٹھایا ہے جس سے تمام کمپنیوں کو ملک میں ہیڈ کوارٹر قائم کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔‘

دبئی

وہ مزید کہتے ہیں ’لیکن کمپنیوں کو قانون سازی کے ذریعہ ملک میں دفتر قائم کرنے پر مجبور کرنا ان کمپنیوں کو یو اے ای جیسی جگہ سے باہر جانے پر مجبور کرنے کے لیے کافی نہیں ہو گا۔ یو اے ای ایک طویل عرصہ سے ایک ایسی جگہ رہا ہے جہاں غیر ملکی کمپنیوں کا ہیڈ کوارٹر قائم کیا گیا ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری اور انتہائی ہنر مند تارکین وطن کو راغب کرنے اور اسے برقرار رکھنے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ وہاں تجارتی کمپنیوں کے قوانین، شہریت کے قانون اور شہری اور خاندانی قانون میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں تارکین وطن کو دبئی میں ملنے والے طرز زندگی کا حصول آسان نہیں ہو گا۔ دبئی میں سنیما گھر، نائٹ کلب اور طعام خانہ بھرے ہوئے ہیں جن پر سعودی عرب میں پابندی عائد ہے۔

اس کے علاوہ دبئی میں درجنوں ہوٹل اور تفریحی مقامات ہیں جہاں مغربی ممالک کے سیاح اور کاروباری حضرات آ کر کچھ وقت گزارنا پسند کرتے ہیں۔

سعودی عرب دبئی کی طرح ‘روشن خیال’ نہیں ہے

دبئی میں مقیم معاشی ماہر اڈیائو بالاجی آڈیو کا کہنا ہے کہ ’سعودی عرب کے پاس اس وقت وہ طرز زندگی نہیں ہے جو دبئی میں میسر ہے اور نہ ہی مہارت اور صلاحیتیں ہیں جو یہاں ہیں۔‘

لیکن سعودی ولی عہد نے حالیہ برسوں میں سلطنت میں بہت ساری اصلاحات کی ہیں۔ انھوں نے محافل موسیقی پر پابندیوں میں نرمی کی ہے ، خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت دی ہے اور سینما گھروں پر 40 سالہ پابندی ختم کر دی ہے۔

سعوثدی

سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں 30 برس سے کام کرنے والے بہار سے تعلق رکھنے والے مسعود عالم کہتے ہیں، ’یہ سعودی عرب کے لیے ڈرامائی اقدامات ہیں۔ میں 30 سال پہلے یہاں ایک فیکٹری مینیجر کی حیثیت سے آیا تھا۔ اس وقت بہت سی معاشرتی پابندیاں تھیں۔ زندگی اچھی تھی لیکن اس میں کوئی لطف نہیں تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ بدل گیا ہے، اور اب یہاں کیفے موجود ہیں، چمک دمک ہے۔ ہمارے پاس وہ تمام جدید چیزیں ہیں جو مغربی ممالک میں ہیں۔ لیکن ابھی بھی کچھ ’نو گو ایریاز‘ ہیں جیسے یہاں دبئی کی طرح نائٹ کلب نہیں ہیں یا خواتین ساحل سمندر پر پیراکی کا لباس پہن کر نہیں آسکتی ہیں۔‘

سعودی عرب نے اس خدشہ کو مسترد کیا ہے کہ وہ دبئی کے نعم البدل کے طور پر خود کو پیش کر رہا ہے اور کہا کہ ریاض اور دبئی دونوں اپنی اپنی جگہوں پر پھل پھول سکتے ہیں۔

کچھ ماہرین کے مطابق سعودی عرب کو بیرونی کمپنیوں کو راغب کرنے کے لیے اقدامات کرنے کا پورا حق ہے۔

اس مد میں سعودی عرب نے ملک کے اندر علاقائی ہیڈ کوارٹر کھولنے والی کمپنیوں کے لیے مختلف فوائد کا وعدہ کیا ہے جیسے کارپوریٹ ٹیکس میں 50 سال تک معافی اور مقامی لوگوں کو اگلے 10 سال تک ملازمت میں نہ رکھنے کی اجازت دینا۔

دبئی

اس مقصد کے لیے سعودی حکام نے ایک ادارہ قائم کیاجس کا نام ‘رائل کمیشن فار ریاض سٹی’ ہے۔ اس ادارے کا مرکزی کام ہے کہ علاقائی ہیڈ کوارٹر قائم کرنے کے لیے 500 غیر ملکی کمپنیوں کو راغب کیا جائے۔

سعودی عرب کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ 24 بڑی غیر ملکی کمپنیوں نے ریاض میں اپنا دفتر کھولنے کے لیے معاہدہ کیا ہے۔ مقامی انگریزی اخبار ‘عرب نیوز’ نے بھی درجن بھر غیر ملکی کمپنیوں کے اعلی عہدیداروں کے بیانات شائع کیے ہیں جو اعلان کر رہے ہیں کہ انھوں نے ریاض میں اپنی کمپنیوں کا علاقائی ہیڈ کوارٹر کھولنے کے لیے سعودی حکومت کے ساتھ معاہدے کیے ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.