جمعرات 8؍ شوال المکرم 1442ھ20؍مئی 2021ء

کیا روس یوکرین میں مداخلت کی تیاریاں کر رہا ہے؟

کریمیا میں روسی فوجی دستوں کی نقل و حرکت: کیا روس یوکرین میں مداخلت کی تیاریاں کر رہا ہے؟

  • لورینس پیٹر
  • بی بی سی نیوز

روسی فوج کریمیا میں فوجی مشقیں کر رہی ہے

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

روسی فوج کریمیا میں فوجی مشقیں کر رہی ہے

فوجی قوت کا مظاہرہ یا جنگ کے لیے تیاری؟ مارچ کے وسط سے یوکرین اور متعدد مغربی حکومتوں نے کئی تنبیہات جاری کی ہیں کہ روس میں ضم شدہ کریمیا میں بڑے پیمانے پر روسی دستے پہنچ چکے ہیں اور انھیں مشرقی یوکرین کے متنازع علاقے کے گرد بھی تعینات کیا گیا ہے۔

ایسے میں بظاہر روس کے ارادے واضح معلوم ہوتے ہیں لیکن پہلے دیکھیں کہ وہاں تازہ ترین صورتِ حال کیا ہے۔

کیا روس یوکرین میں مداخلت کرنے جا رہا ہے؟

متعدد ذرائع ابلاغ نے یوکرین کی مشرقی سرحد اور کریمیا میں روسی فوجی دستوں کی نقل و حرکت کی تصدیق کی ہے۔ مارچ 2014 میں روسی افواج نے کریمیا کو روس میں ضم کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

ایسی کئی اطلاعات ٹوئٹر پر بھی آئی ہیں۔ جینز انٹیلیجنس نامی تنظیم نے وہاں اسکندر شارٹ رینج میزائل کی نشاندہی کی ہے۔

کریملن نے اس حوالے سے کوئی تفصیلات نہیں دیں کہ ان سرگرمیوں میں کون سے یونٹس ملوث ہیں۔ صدر ولادیمیر پوتن کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ روسی علاقوں میں فوجی دستوں کی نقل و حرکت ’اندرونی معاملہ‘ ہے جو کسی کی تشویش کا باعث نہیں ہونا چاہیے۔ کچھ دستے، جن میں کریمیا میں موجود یونٹس شامل ہیں، فوجی مشقیں کر رہے ہیں۔ لیکن انھوں نے یوکرین پر اشتعال انگیزی کا الزام بھی لگایا ہے۔

یوکرین کے انٹیلیجنس ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ ان اضافی دستوں میں ٹیکٹیکل گروپس کے 16 بٹالین شامل ہیں جن میں 14 ہزار فوجی ہوسکتے ہیں۔ یوکرین کے مطابق اس وقت مجموعی طور پر تقریباً 40 ہزار روسی فوجی اس کی مشرقی سرحد پر موجود ہیں جبکہ کریمیا میں بھی ان کی تعداد 40 ہزار کے قریب ہے۔

تو کیا یہ دستے وہاں یوکرین میں مداخلت کے لیے تعینات کیے گئے ہیں؟ یہ ممکن ہے تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق بڑے پیمانے پر مداخلت کے امکان کم ہیں۔ دراندازی روس کا آزمایا ہوا اور پُر اعتماد طریقہ ہے۔ روس کے خصوصی دستے 2014 میں کریمیا پر قابض ہوئے تھے۔ ان میں نقاب پوش فوجی شامل تھے جنھوں نے سبز رنگ کے یونیفارم پہن رکھے تھے، اسی لیے انھیں لیٹل گرین مین بھی کہا جاتا ہے۔

یوکرین، نیٹو اور مغربی حکومتوں کا کہنا ہے کہ علیحدگی پسندوں کے زیر انتظام مشرقی یوکرین میں روس کے باقاعدہ یونٹ اور بڑے جنگی ہتھیار موجود رہتے ہیں۔ کریملن ان الزامات کو مسترد کرتا ہے اور وہاں کسی بھی روسی دستے کو ’رضا کار‘ کہتا ہے۔

روس یوکرین کے ساتھ جنگ کے دہانے پر کیوں ہے؟

سنہ 1991 میں کمیونیزم کے خاتمے کے بعد روسی دستوں نے سابقہ سوویت یونین کے کئی علاقوں میں مداخلت کی ہے۔ ان میں چیچنیا اور دیگر قفقاز یا کاکیشیائی علاقے شامل ہیں۔

اپریل 2014 میں روس کی جانب سے کریمیا کو ضم کیے جانے کے بعد روس کے حمایت یافتہ علیحدگی پسند گروہ مشرقی یوکرین کے کچھ علاقوں پرقابض ہو گئے۔ اس سے قبل مغربی ممالک کے حمایت یافتہ مظاہرین نے یوکرین کے دارالحکومت کیف سے روسی حمایت یافتہ صدر وکٹر یانوکووچ کی حکومت گِرا دی تھی۔

ڈنباس نامی اس متنازع علاقے میں اکثریت آبادی روسی زبان بولتی ہے اور کئی رہائشیوں کے پاس روسی پاسپورٹ ہیں۔

صدرپوتن نے کہا ہے کہ روس بیرون ملک اپنے شہریوں کا دفاع کرے گا، اگر ایسا لگا کہ انھیں خطرہ ہے۔

روس اور یوکرین کے درمیان تعلقات تناؤ کا شکار رہے ہیں لیکن یہ جنگ کے قریب نہیں۔ متنازع علاقوں میں فورسز کے درمیان وقفے وقفے سے جھڑپیں ہوتی ہیں۔

یہ نہ تو کوئی باقاعدہ جنگ ہے اور نہ ہی سرد جنگ والا متنازع علاقہ۔ روس یہاں جی آر یو سپیشل فورسز، سائبر وار فیئر اور پروپیگنڈا استعمال کرتا ہے جسے ہائبرڈ وار فیئر بھی کہتے ہیں۔ گذشتہ سال امریکی کانگریس میں پیش ہونے والی ایک خصوصی رپورٹ میں جی آر یو کے کردار کو تفصیلی طور پر پیش کیا گیا تھا۔

2014 میں بڑے پیمانے پر جھڑپیں ہوئی تھیں مگر 2015 میں جنگ بندی کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ دونوں ملکوں کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ بھی ہوا ہے۔

اس لڑائی میں 13 ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں۔ یوکرین کا کہنا ہے کہ متنازع علاقے میں رواں سال اس کے 26 فوجی مارے گئے ہیں اور 2020 میں یہ کل تعداد 50 تھی۔ علیحدگی پسندوں کا کہنا ہے کہ رواں سال کم از کم ان کے 20 سے زیادہ فوجی مارے گئے ہیں۔

President Zelensky (front L) visited Ukrainian troops in the conflict zone on 8-9 April

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشن

صدر زیلینسکی نے 9۔8 اپریل کو جنگ زدہ علاقے کا دورہ کیا تھا اور یوکرین کے فوجیوں سے ملاقات کی تھی

روس دوبارہ یوکرین کو دھمکی کیوں دے رہا ہے؟

تجزیہ کار پیول فلگنگوئر اور جیمز شر سمجھتے ہیں کہ روس اور یوکرین کے درمیان تعلقات میں متعدد عوامل تناؤ میں اضافے کا باعث بنے ہیں۔

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی نے فروری میں صدر پوتن کے دوست اور یوکرین کی طاقتور کاروباری شخصیت وکٹر میدویڈچک پر پابندیاں عائد کیں۔ یوکرین نے روس کی حمایت کرنے والے تین ٹی وی سٹیشنز پر بھی پابندی لگا دی ہے۔

2015 میں منسک امن معاہدے میں کئی شرائط پر عملدرآمد ابھی باقی ہے۔ مثلاً علیحدگی پسندوں کے علاقے میں تاحال آزادانہ انتخابات کی نگرانی کے لیے انتظامات نہیں کیے جا سکے ہیں۔

ماضی میں بھی روس نے اپنی لڑائیوں میں ایسے دستے سرحد پار بھیجے تھے جنھیں ’پیس کیپر‘ کہا گیا تھا مگر وہ وہیں بس گئے۔ مثال کے طور پر ایسا مالدووا اور جنوبی اوسیٹیا میں ہوا۔ جیمز شر کہتے ہیں کہ ایسا یوکرین میں بھی ہوسکتا ہے۔ ایسے میں حالات روس کے حق میں ہوجائیں گے۔

کچھ افواہیں یہ بھی ہیں کہ صدر پوتن امریکہ کے صدر جو بائیڈن کو آزمانا چاہتے ہیں۔ صدر بائیڈن نے اپنے پیشرو ٹرمپ کے مقابلے میں روس سے متعلق سخت موقف اختیار کیا ہے۔

ستمبر میں پوتن کو پارلیمانی انتخابات کا سامنا ہوگا اور امکان ہے کہ مظاہرین بڑے پیمانے پر جیل میں قید اپوزیشن رہنما الیکسی نوالنی کے حق میں باہر نکلیں گے۔

کریملن کی جانب سے یوکرین میں موجود روسیوں کا دفاع ان ووٹوں میں اضافہ کر سکتا ہے۔ اگر یوکرین کے معاملے پر روس حب الوطنی کے جذبات ابھارنے میں کامیاب ہوتا ہے تو نوالنی کو مزید سختیوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔

کیا یوکرین کو نیٹو کا تحفظ حاصل ہے؟

یوکرین نیٹو اتحاد کا رکن نہیں مگر نیٹو کے یوکرین سے قریبی تعلقات ہیں، اور انھیں تعلقات کی وجہ سے یوکرین کو مغربی ہتھیار دیے گئے ہیں جن میں امریکی جیولن انٹی ٹینک میزائل بھی شامل ہیں۔

روس کو معلوم ہے کہ ان حالات میں یوکرین کو مغربی ممالک سے مزید فوجی مدد مل سکتی ہے۔

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی نے نیٹو پر زور دیا ہے کہ یوکرین کو اس اتحاد کا رکن بنایا جائے۔ لیکن لڑائی جاری ہونے کی وجہ سے نیٹو کے لیے فی الحال یہ ایک مشکل کام ہے کہ یوکرین کو اس 30 ملکی اتحاد میں شامل کیا جائے۔

نیٹو کے سیکریٹری جنرل ینز سٹولنبرگ نے کہا ہے کہ نیٹو یوکرین کی فوج کی تربیت اور مشترکہ فوجی مشقوں سے مدد کر رہا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.