روس یوکرین تنازع: کیا روسی افواج نے شہری آبادی پر کلسٹر بم گرائے؟
- جوش چیتھم، کیلین ڈیولن، جیک گڈّمین، ماریا کورنیوک
- بی بی سی نیوز
ماہرین کا خیال ہے کہ یوکرین کے شہر خارخیو میں روسی افواج نے اپنے حملے میں کلسٹر بم استعمال کیے تھے
روس پر الزام ہے کہ اس نے یوکرین میں کلسٹر بم استعمال کیے ہیں اور انٹرنیشنل کریمینل کورٹ (جرائم کی عالمی عدالت) نے مبینہ جنگی جرائم کے حوالے سے تفتیش شروع کر دی ہے۔ ہم نے اس حوالے سے ایک مخصوص حملے کے شواہد کو جانچنے کی کوشش کی ہے۔
28 فروری کو انڈری (فرضی نام) خارخیو کے شہر میں اپنے فلیٹ میں نہا رہے تھے جب انھیں باہر شدید دھماکوں کی آواز آئی۔
‘میں نے خود کو جلدی سے خشک کیا، کانپتے ہوئے زمین پر لیٹ گیا اور مجھے شیشے ٹوٹنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔‘
ان کے فلیٹ کی کھڑکی ٹوٹ گئی اور جیسے ہی انھوں نے باہر دیکھا تو لوگ سڑک پر پڑے تھے۔ ان میں سے کم از کم ایک ہلاک چکا تھا۔ یہ سب لوگ گلی میں ایک نلکے کی قطار میں لگے تھے جہاں دس منٹ پہلے انڈری خود کھڑے تھے۔
خارخیو کے مئیر نے بعد میں تصدیق کی کہ اس حملے میں چار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
- روس یوکرین تنازع: اس جنگ کے آپ کی زندگی پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟ ہمیں اپنے سوال بھیجیں
بی بی سی نے اس حملے کی فوٹیج کا جائزہ لیا ہے اور عینی شاہدین اور ماہرین سے بات چیت کی ہے تاکہ اس حملے کے بارے میں مزید معلومات حاصل کی جائیں۔ یہ حملہ ان حملوں میں سے ایک ہے جن کے بارے میں الزام لگایا جا رہا ہے کہ ان میں کلسٹر بم استعمال کیا گیا تھا۔
حملے کے بعد کی ویڈیو میں کئی لاشیں موجود ہیں جنھیں اس تصویر میں دھندلا کیا گیا ہے
اس واقعے کی خبر ٹوئٹر پر مقامی وقت کے مطابق دوپہر ایک بج کر 6 منٹ پر شائع کی گئی۔ ایک ویڈیو میں دھماکہ اور کالے دھوئیں کے بادل نظر آ رہے تھے۔
اس کے تھوڑی ہی دیر بعد ایک اور ویڈیو پوسٹ کی گئی جس میں لوگوں کو زمین پر بے حس و حرکت پڑے دیکھا گیا۔
کچھ اہم فیچرز کی مدد سے، جیسے کہ پانی کا نلکا اور موچی کی دکان، ہم یہ پتا چلا سکے ہیں کہ یہ واقعہ خارخیو کے شمال میں پیش آیا تھا۔ اس دن اس علاقے میں روسی شیلنگ کی متعدد اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔
ہمیں مزید فوٹیج بھی بھیجی گئی ہے جو کہ دن کے تقریباً اسی وقت بنائی گئی تھی، مگر گلی کے دوسری طرف سے۔ 23 سرپنیا لین نامی اس گلی کا نام اس دن کی تاریخ پر رکھا گیا ہے جب 1943 میں خارخیو کو نازی جرمنی سے آزاد کروایا گیا تھا۔
12:45 کی ٹائم سٹیمپ کے ساتھ یہ فوٹیج ایک گاڑی کے اندر سے بنائی گئی تھی جو کہ جائے وقوعہ کی جانب جا رہی تھی۔ 23 سرپنیا لین میں اس روز متعدد دھماکے ہوئے تھے۔
جنگ میں کلسٹر بموں کا استعمال
ہم نے یہ فوٹیج ہتھیاروں کے چار ماہرین کو دکھائی۔ ان میں سے ایک عسکری امور پر کام کرنے والے تھینک ٹینک رائل یونائیٹڈ سروسز سے منسلک محقق سام کرینی ایونز تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ گاڑی سے بنائی گئی فوٹیج میں دیکھا جانے والا منظر کلسٹر بم حملے سے مطابقت رکھتا ہے کیونکہ اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ’ایک چھوٹے سے علاقے میں متعدد چھوٹے بم پھٹے ہیں‘۔
کلسٹر بم ایسے راکٹ یا میزائل ہوتے ہیں جن کے اندر بہت سارے چھوٹے چھوٹے بم موجود ہوتے ہیں اور جب وہ گرتے ہیں تو تمام چھوٹے بموں سے متعدد دھماکے ہوتے ہیں۔
ہتھیاروں سے متعلق انٹیلیجنس ماہر پیٹ نورٹن بھی اس تجزیے سے متفق ہیں کہ جو شواہد ملے ہیں وہ اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ کسی قسم کے کلسٹر بم کو استعمال کیا گیا ہے۔ انھوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ ویڈیو میں جو دھماکے ہیں وہ قدرے چھوٹے تھے۔
روس کا یوکرین پر حملہ: ہماری کوریج
بی بی سی لائیو پیج: یوکرین پر روس کا حملہ، تازہ ترین صورتحال
ہم نے ماہرین کو اسی حملے کی ایک اور رخ سے بنائی گئی فوٹیج بھی دکھائی۔ ان کا خیال تھا کہ بظاہر راکٹوں اور کلسٹر بموں کو ملا کر استعمال کیا گیا ہے۔
بی بی بی کو ایک ویڈیو فوٹیج موصول ہوئی ہے جس میں 23 سرپنیا لین نامی گلی میں کئی دھماکے دیکھے جاسکتے ہیں
انسانی حقوق کی تنظیموں اور کچھ حکومتوں نے کلسٹر بموں کے استعمال پر تنقید کی ہے۔ جب چھوٹے بم گرائے جاتے ہیں تو یہ ایک بڑے علاقے میں پھیل جاتے ہیں اور ممکنہ طور پر آس پاس کے لوگوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
اس کے علاوہ بموں کے گرنے کے بعد بھی خطرہ رہتا ہے۔ کرینی ایونز بتاتے ہیں کہ ایک راکٹ لانچر 7000 کلسٹر بم لانچ کر سکتا ہے جن میں سے تقریباً 2 فیصد پھٹتے نہیں ہیں۔ یہ بم بعد میں عام شہریوں اور امدادی کارکنوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور انھیں ڈھونڈ کر ناکارہ بنانا انتہائی مشکل کام ہوتا ہے۔
ان بموں کے استعمال پر پابندی کے ایک عالمی معاہدے پر 100 سے زیادہ ممالک نے دستخط کر رکھے ہیں مگر یوکرین اور روس دونوں اس معاہدے میں شریک نہیں اور دونوں کے پاس کلسٹر بم ہیں۔
کریملن کے ترجمان دمتری پسکوف نے منگل کے روز کلسٹر بموں کے استعمال کی تردید کی تھی۔
ہدف
روس پر الزام ہے کہ اس نے جان بوجھ کر شہریوں کو نشانہ بنایا۔ تاہم نلکے یا واٹر ڈسپینسر حملے سے متعلق ایمنسٹی انٹرنیشنل کے محققین کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ حملے کا مقصد قریب موجود ’زیڈو‘ کمپنی کے ہیڈکوارٹر کو اڑانا ہو۔ یہ عمارت اسی سڑک پر واقع ہے جہاں سے انڈری نے یہ حملہ دیکھا۔
زیڈو ایک کیمیکل کمپنی ہے جس کے بارے میں خیال ہے کہ یہ رائفل بناتی ہے۔ مگر ایسی کوئی اطلاعات سامنے نہیں آئیں کہ عمارت کے اندر کام جاری تھا۔ یہ ایک رہائشی علاقہ ہے۔
اگر اصل ہدف زیڈو تھا بھی تو ماہرین سمجھتے ہیں کہ کلسٹر بم استعمال نہیں کیے جانے چاہیے تھے۔
کرینی ایونز کہتے ہیں کہ ’اگر وہ اسے ایک اہم ہدف سمجھتے تو اس پر میزائل حملہ کیا جاتا۔ آپ ایسا میزائل استعمال کرتے جس میں ایک بار پھٹنے والا دھماکہ خیز مواد ہو۔
’کلسٹر ہتھیار تباہ کن ہوتے ہیں اور یہ نفسیاتی صدمے کا باعث بنتے ہیں۔ لیکن اگر لوگ کسی عمارت کے اندر موجود ہوں تو یہ کارآمد نہیں ہوتے۔ اگر آپ کو ایک عمارت تباہ کرنی ہو تو آپ کو زیادہ مقدار میں دھماکہ خیز مواد درکار ہوتا ہے، نہ کہ کئی چھوٹے دھماکے۔‘
بی بی سی نے لندن میں روسی سفارتخانے سے رابطہ کیا ہے تاکہ ان کا موقف جانا جاسکے۔
ہتھیاروں کا تعلق روس سے
شواہد سے واضح ہے کہ یہ حملے روسی افواج کی جانب سے کیے گئے ہیں۔ آن لائن شیئر ہونے والی تصاویر میں دکھایا گیا ہے کہ حملے کے دن اسی علاقے میں استعمال ہونے والے دیگر روسی ہتھیار ملے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے محققین نے ان افراد سے رابطہ کیا جنھوں نے یہ تصاویر شیئر کیں۔ اور انھیں حملے کے وقت کی مزید تصاویر بھیجی گئی ہیں۔
ہم نے ان تصاویر کا جائزہ لیا ہے کہ تباہ شدہ گاڑیوں کے علاوہ کلسٹر بم حملے سے متاثرہ علاقے کی کیا صورتحال ہے۔ تصاویر کے میٹا ڈیٹا سے تصدیق ہوتی ہے کہ یہ 28 فروری کو کھینچی گئی تھیں۔
ایمنسٹی کے مطابق کلسٹر بم کے ملبے سے پتا چلتا ہے کہ انھیں 2019 میں روس میں بنایا گیا تھا۔
دیگر حملوں سے متعلق کیا شواہد موجود ہیں؟
بی بی سی نے تصدیق کی ہے کہ ایک ویڈیو فوٹیج میں خارخیو کے شمال مشرقی علاقے میں ایک شاپنگ مال کے قریب کئی دھماکے کیے گئے۔ ہتھیاروں کے ماہرین کہتے ہیں کہ یہ دھماکے کلسٹر بم حملوں سے مطابقت رکھتے ہیں۔
یوکرین کے شہر خارخیو کے ایک علاقے میں ہونے والے کئی دھماکوں کے بعد دھواں اٹھ رہا ہے
اوختیرکا نامی شہر کے ایک سکول پر حملے کی تصاویر بھی سامنے آئی ہیں۔ شہر کے میئر کے مطابق واقعے میں چھ لوگ ہلاک ہوئے تھے جن میں ایک بچہ بھی شامل تھا۔
حملے سے پہلے اور بعد میں سوشل میڈیا پر ایسی اطلاعات موجود تھیں کہ روسی دستے اس علاقے میں موجود ہیں۔
حملے کے بعد کی تصاویر میں خون سے لدی لاشیں زمین پر پڑی دیکھی جاسکتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق عمارت میں موجود سوراخ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ حملے میں کلسٹر بم استعمال کیے گئے۔
اوپن سورس انٹیلیجنس گروہ بیلنگ کیٹ کے رپورٹرز بتاتے ہیں کہ سکول سے 200 میٹر مشرق میں ایک بی ایم 27 راکٹ لانچر کی مدد سے کلسٹر بم چلایا گیا تھا۔
حملے کے بعد یوکرینی وزیر خارجہ نے روس پر جنگی جرائم کا الزام لگایا تھا۔ مغربی ممالک کے رہنماؤں نے بھی ان الزامات کو دہرایا ہے اور انٹرنیشنل کریمینل کورٹ نے ان دعوؤں سے متعلق ایک تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔
جنگی جرائم کے الزامات
بین الاقوامی قانون کے تحت صرف فوجی اہداف پر حملہ کیا جاسکتا ہے۔
بی بی سی نے ایسکس یونیورسٹی میں انٹرنیشنل لا کے پروفیسر نوم لوبیل سے بات کی ہے اور انھیں ان حملوں کی ویڈیو فوٹیج دکھائی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس نے شدید تحفظات کو جنم دیا ہے۔
زیر غور پہلی چیز یہ ہونی چاہیے کہ ہدف کیا تھا اور شہریوں کے تحفظ کے لیے کیا حفاظتی اقدامات کیے گئے تھے۔
پروفیسر لوبیل کہتے ہیں کہ اگر خارخیو کے حملے میں ہدف فوج تھی لیکن اگر حملہ شہری علاقے میں کیا گیا تو یہ پھر بھی غیر قانونی ہوسکتا ہے۔ حملہ کیسے کیا گیا اور شہریوں کو کتنا نقصان پہنچا، یہ باتیں بھی زیر غور ہیں۔
پروفیسر لوبیل کہتے ہیں کہ ’شہری علاقے میں دھماکہ خیز مواد کے استعمال سے وسیع علاقے کو نقصان پہنچتا ہے۔ یہ اندھا دھن حملوں کی ممانعت (کے اصول) کی بھی خلاف ورزی ہے۔ اس پر کم از کم اس بات کی تحقیقات ہونی چاہیے کہ آیا انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی ہوئی ہے یا نہیں۔‘
یونیورسٹی کالج لندن میں قانون کے پروفیسر فلپ سینڈز کہتے ہیں کہ یوکرین میں ہونے والی حالیہ لڑائی کے دوران شہریوں کی اموات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ کچھ حملے جان بوجھ کر کیے گئے۔
’جیسا کہ میں اسے پہلے روز سے دیکھ رہا ہوں، ایسی مسلسل اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے یا جان بوجھ کر شہریوں کو ہدف بنایا گیا۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ جان بوجھ کر بھی ہوسکتا ہے۔‘
’بظاہر ایسا لگتا ہے کہ آبادی کو ڈرانے کے لیے کوششیں کی گئی ہیں۔‘
انڈری اور ان کا خاندان ایک نجی نرسری کے تہ خانے میں چھپے ہوئے ہیں۔ زیر زمین ہونے کے باوجود وہ شیلنگ کی خوفناک آواز سننے سے بچ نہیں سکتے۔
Comments are closed.