بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

کیا خلا امریکہ، روس اور چین کے لیے نیا میدان جنگ بن چکی ہے؟

کیا خلا عالمی طاقتوں کے لیے نیا میدانِ جنگ بن چکی ہے؟

۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سنہ 1982 میں سوویت یونین نے Kosmos-1408 نامی جاسوسی سیٹلائٹ یا مصنوعی سیارہ خلا میں چھوڑا تھا۔ خلا میں جانے کے دو سال بعد یہ ناکارہ ہو گیا مگر اپنے مدار میں گردش کرتا رہا۔

نومبر 2021 کو روس نے اینٹی سیٹلائٹ میزائل مار کر اسے تباہ کر دیا اور اس کے تقریباً 15 سو ٹکڑے خلا میں بکھر گئے۔

اس سے قبل چین سنہ 2007 اور امریکہ سنہ 2008 میں بھی اسی نوعیت کی کارروائیاں کر چکے ہیں۔

روس کے اس اقدام پر عالمی طاقتوں نے شدید تنقید کی کیونکہ ان کے مطابق تباہ شدہ سیٹلائٹ کے ٹکڑے کسی خلائی گاڑی سے ٹکرا کر خلا میں کسی بڑے حادثے کا سبب بن سکتے تھے۔

خدشہ ظاہر کیا جانے لگا کہ روس نے دکھا دیا ہے کہ وہ بغیر کسی قانون کی خلاف ورزی کیے خلا میں سیٹلائٹ تباہ کر سکتا ہے۔ اس بار اس نے اپنا سیٹلائٹ تباہ کر دیا، لیکن یہ ضروری نہیں کہ اگلی بار ایسا ہو۔

سوال یہ ہے کہ خلا میں کوئی اقدام کرنے کے لیے کیا قواعد و ضوابط ہونے چاہییں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ خلا جنگ کا نیا میدان بن رہا ہے؟

۔

،تصویر کا ذریعہScience Photo Library

خلا میں کوڑا کرکٹ

جوناتھن میکڈویل ہاورڈ سینٹر برائے فلکی طبیعیات سے منسلک ماہر فلکیات ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ لوگ خلا کو ایک ویرانہ سمجھتے ہیں مگر ایسا نہیں ہے۔ اپریل 2021 تک کے اعداد و شمار کے مطابق سات ہزار سے زیادہ سیٹلائٹس زمین سے چند سو کلومیٹر اوپر خلا میں تیزی سے گردش کر رہی تھیں۔

میکڈویل کہتے ہیں کہ ’وہ (سیٹلایٹس) سب 17 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گردش کر رہے ہیں اور ہر سمت میں جا رہے ہیں۔ یہ کھیل کے ایک بڑے میدان کی طرح ہے جس میں سب کھلاڑی دوڑ رہے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

اپنے مدار میں رہنے کے لیے سیٹلائٹ کو اتنی رفتار سے گھومنا پڑتا ہے، یعنی بین الاقوامی خلائی سٹیشن سمیت ہر سیٹلائٹ ایک دن میں زمین کے گرد تقریباً 16 چکر لگاتی ہے۔

لیکن اتنی بڑی تعداد میں سیٹلائٹ خلا میں کر کیا رہے ہیں؟

میکڈویل بتاتے ہیں ’سیٹلائٹ کو عام طور پر مواصلات میں استعمال کیا جاتا ہے، جیسے ٹیلی ویژن کی نشریات، ٹیلی فون اور انٹرنیٹ، موسم کی پیشن گوئی اور جہاز رانی کے لیے۔ سیٹلائٹ کے ذریعے زمین کی پوزیشن کو دیکھنا آسان ہے، اس لیے یہ آب و ہوا میں تبدیلیوں کا پتہ لگانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔‘

یعنی زمین پر ہماری ضروریات کا ایک بڑا حصہ ان سیٹلائٹس سے وابستہ ہے۔ اس سے پہلے زیادہ تر سیٹلائٹس حکومتوں کی طرف سے چھوڑے جاتے تھے، جیسا کہ سرد جنگ کے دوران زیادہ تر سیٹلائٹس یا تو امریکی حکومت یا سوویت حکومت کے تھے۔

لیکن وقت کے ساتھ ساتھ نجی کمپنیاں تجارتی مقاصد کے لیے اس میدان میں آ رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر اتنی بڑی تعداد میں سیٹلائٹس خلا میں گھوم رہے ہیں تو پھر وہ ایک دوسرے سے ٹکرا کیوں نہیں رہے؟ کیا ان کے لیے بھی کوئی ریگولیٹر ہے؟

میکڈویل کہتے ہیں، ’اس بارے میں بہت عام سے ضابطے ہیں۔ مگر ریڈیو فریکوئنسی سے متعلق قواعد بہت سخت ہیں تاکہ سگنل بھیجنے میں مداخلت نہ ہو۔ لیکن آپ اپنے مدار میں جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ خلا کوئی سڑک نہیں ہے۔ جہاں کاروں کا اصول لاگو ہو۔ اس کے مطابق، ایک ہی رفتار سے ایک سمت میں جا رہے ہیں، کچھ یہاں جا رہے ہیں اور کچھ وہاں۔ یہ تصور ایک بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے کہ خلا ایک بڑی جگہ ہے اور آپ کسی سے نہیں ٹکرائیں گے۔‘

۔

،تصویر کا ذریعہGSA

سنگین تشویش

خلا اب ایک گنجان جگہ بنتی جا رہی ہے اور تصادم سے بچنے کی کوششیں بھی بڑھ رہی ہیں۔ زیادہ تر ملبے کی نگرانی کی جاتی ہے۔ لیکن جب روس نے 2021 میں اپنا سیٹلائٹ تباہ کیا تو اس سے پیدا ہونے والے ملبے کی نگرانی نہیں کی گئی، اور کچھ حصہ تو بین الاقوامی خلائی سٹیشن کے مدار کے قریب پہنچ گئے تھے۔

میکڈویل کہتے ہیں ’ہر 93 منٹ بعد، مشن کنٹرول خلائی سٹیشن کو ایک ریڈیو پیغام کے ذریعے آگاہ کر رہا تھا کہ وہ خلائی کوڑے کرکٹ کے ڈھیر سے گزر رہے ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ آپ کو ملبے کے سٹیٹس کا درست اندازہ حاصل کرنا ہو گا۔ کیونکہ اس کی صحیح جگہ معلوم نہیں ہے۔ اس لیے اس سے بچنا بہت مشکل ہے۔‘

اگر کسی ملک کے اپنے ایک سیٹلائٹ کی تباہی اتنا بڑا خطرہ پیدا کر سکتی ہے تو اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر جان بوجھ کر نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی تو کتنی بڑی تباہی ہو گی۔

تو کیا یہ ممکن ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی زمین سے نکل کر خلا تک پہنچ جائے؟

اس سوال کا جواب میکڈویل یوں دیتے ہیں، ’جب سے انسان نے خلا میں قدم رکھا ہے، اس کی عسکری اہمیت بھی بڑھ گئی ہے۔ وہاں وہ ہتھیار نہیں لانچ کر رہے ہیں، بلکہ زمین پر فوج کی مدد کے لیے جاسوس یا مواصلاتی سیٹلائٹ لانچ کر رہے ہیں۔ لیکن امریکہ اور دوسرے ممالک خلا میں ممکنہ تصادم کی بات کر رہے ہیں۔ زمین پر فوج کا زیادہ تر انحصار سیٹلائٹس پر ہے اور اگر زمین پر کوئی تنازعہ ہو تو معاملہ خلا تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ اگر ایسا ہوا تو اس سے بڑے پیمانے پر ملبہ پیدا ہو جائے گا جس کی موجودگی میں خلا کا استعمال انتہائی مشکل ہو جائے گا۔‘

اور یہ بھی ایک تشویشناک بات ہے کہ خلا میں کشیدگی سے لاکھوں افراد متاثر ہو سکتے ہیں۔ یہ کہیں دور مستقبل کی بات نہیں بلکہ اس کا آغاز پہلے ہی ہو چکا ہے۔

۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

خلا میں کشیدگی کتنی ہے؟

’فریزر نیش کنسلٹنسی‘ میں خلائی حکمت عملی کی سربراہ الیگزینڈرا سٹکنگس کہتی ہیں کہ خلا میں ایک دوسرے کے مشن کو نقصان پہنچانے کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں ’میرے خیال میں اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ خلا کا استعمال کیوں کیا جا رہا ہے اور زمین پر ہونے والے کام کے لیے خلا سے کیا معلومات موصول ہو رہی ہیں۔ اگر آپ ان معلومات کو دشمن تک پہنچنے سے روک سکتے ہیں، تو آپ کے پاس یہ بہترین صلاحیت ہو گی۔‘

سٹیکنگز بتاتی ہیں کہ خلائی مشنوں کو خراب کرنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ اُن کے مطابق ’ایسے اینٹی سیٹلائٹ میزائل موجود ہیں جو سیٹلائٹ کو تباہ کر سکتے ہیں، جی پی ایس کو جام کر سکتے ہیں اور یہاں تک کہ سیٹلائٹ کے آپٹیکل سینسرز کو عارضی طور پر ناقابل استعمال بنا سکتے ہیں۔ اس طرح کا خلل معلومات کو ہم تک پہنچنے سے روک سکتا ہے۔‘

خلا میں ہزاروں سیٹلائٹس چکر لگا رہی ہیں اور ایسی صورتحال میں ممکن ہے کہ خلل جان بوجھ کر نہیں پیدا کیا گیا ہو بلکہ کوئی حادثہ اس کا سبب ہو۔ لیکن ایسی صورتحال میں کوئی ملک یہ کیسے طے کرے گا کہ نقصان جان بوجھ کر کیا گیا ہے اور اس کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے گا۔

انھوں نے کہا ’ہم خلا میں ایک طرح کا ٹریفک جام دیکھ رہے ہیں، خاص طور پر زمین کے نچلے مدار میں جہاں بڑی تعداد میں سیٹلائٹ موجود ہیں۔ اور وہاں ناکارہ سیٹلائٹس، راکٹوں کے ٹکڑے اور تباہ شدہ سیٹلائٹس کے ٹکڑوں کا ملبہ بھی موجود ہے۔ اگر سیٹلائٹ کام کرنا بند کر دے تو آپ فوری طور پر کسی کو وہاں نہیں بھیج سکتے، آپ کو پہلے اندازہ لگانا ہو گا کہ اصل میں ہوا کیا ہے اور کیا یہ جان بوجھ کر کیا گیا تھا۔ یہ بہت مشکل ہے اور ممکن ہے کہ آپ کا اندازہ درست نہ ہو۔‘

تاہم اس سب کے درمیان کئی خلائی مہمات ایسی بھی تھیں جب دنیا کے کئی ممالک اکٹھے ہوئے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ افواج کے لیے بھی خلا اہم ہوتا جا رہی ہے۔ تو پھر ہمیں اس جگہ کو پرامن رکھنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟

مشیل ہینلان چند خلائی وکیلوں میں سے ایک ہیں۔ وہ امریکہ کی یونیورسٹی آف مسیسیپی میں سینٹر فار ایئر اینڈ سپیس لا کی شریک ڈائریکٹر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر مختلف ملک یہ سمجھتے ہیں کہ زمین سے ہزاروں کلومیٹر دور خلا میں گردش کرنے والے ان کے سیٹلائٹ قانون کے دائرے سے باہر ہیں تو وہ غلطی پر ہیں۔

۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

روس کی دھمکی؟

مشیل کا کہنا تھا کہ ’لوگ سمجھتے ہیں کہ خلا ایک جنگل ہے جہاں کوئی اصول نہیں، لیکن سچ یہ ہے کہ انسان جہاں بھی جائے گا، قانون اس کے ساتھ جائے گا۔‘

سپیس کے لیے ابھی تک کوئی ترقی یافتہ قانونی فریم ورک نہیں ہے۔ لیکن امریکہ کے خلا میں متنازع جوہری ہتھیاروں کے ٹیسٹ کے بعد 1967 میں خلا کے حوالے سے ایک معاہدہ ہوا تھا۔

مشیل اس کا موازنہ 800 سال قبل برطانیہ میں نافذ ہونے والے ایک قانون سے کرتے ہوئے کہتی ہیں ’ہم اس معاہدے کو خلا میں نافذ قانون کا منشور سمجھتے ہیں، اس میں قواعد کی بات نہیں ہے بلکہ ان اقدار کی بات کی گئی ہے جو بحیثیت قوم اور بحیثیت انسان ہمارے پاس ہیں۔ لیکن ہمیں خلا میں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے، اس کی بنیاد یہ ہونی چاہیے کہ ہر کوئی اس جگہ کو یکساں طور پر استعمال کر سکے اور اسے مکمل طور پر پُرامن کام کے لیے استعمال کیا جائے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ سنہ 1967 کے معاہدے میں کسی مخصوص اقدام کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا گیا لیکن ہاں ایک خاص بات ضرور ممنوع ہے، ’اس میں کہا گیا ہے کہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اور جوہری ہتھیاروں کو نہ تو مدار کے قریب رکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی خلا میں۔ اس پر اتفاق سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ہوا تھا۔ آج اگر ہم خلائی قوانین کی بات کر رہے ہیں، تو یہ معاہدہ ان کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے۔ مگر امید ہے کہ ممالک اس سلسلے میں ضبط سے کام لیں گے۔‘

یعنی ممالک کی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ خلائی مشن تنازعات میں نہ بدلیں۔ لیکن کیا ایسا اس لیے ہو رہا ہے کہ روس کا اپنے سیٹلائٹ کو تباہ کرنا ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔

مشیل نے کہا کہ ’یہ ہمارے لیے خطرے کی گھنٹی ہے، یہ ٹیسٹ غیر قانونی نہیں تھا، اس سے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ ہم یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ روس نے ایسا کر کے دوسرے ممالک کے مفادات کو خطرے میں ڈالا، لیکن یہ مفادات کیا تھے، یہ واضح نہیں ہے۔ بین الاقوامی برادری کو مل کر اس سمت میں نئے قوانین بنانے کی ضرورت ہے۔ روس نے یہ تجربہ یہ جانتے ہوئے کیا ہو گا کہ اسے روکنے کے کوئی قواعد نہیں ہیں۔‘

ایسے میں بڑا سوال یہ ہے کہ پھر خلا میں سکیورٹی کی صورتحال کیا ہو گی؟

۔

،تصویر کا ذریعہJ.M. Eddins Jr/US Air Force

مستقبل کے امکانات

دی اکانومسٹ میں دفاعی ایڈیٹر ششانک جوشی دفاع اور سلامتی سے متعلق مسائل پر لکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ زمین پر ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے متعلق حملے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ آنے والے وقت میں ہم سائبر سپیس اور خلا میں کیا دیکھ سکتے ہیں۔

انھوں نے کہا ’پچھلے کچھ عرصے میں ہم نے انسانی زندگی سے متعلق ہر چیز پر حملے دیکھے ہیں۔ جنگ کی جڑیں ہمیشہ زمین پر ہی رہیں گی، چاہے وہ سائبر سپیس کے تحت آتی ہو یا خلا کے زمرے میں۔ جب تک کہ لڑنے والی قوتوں پر کسی قسم کا اثر نہ پڑے، کوئی بھی علاقہ اس وقت تک جنگ کے اثرات سے آزاد نہیں ہو گا جب تک انھیں روکنے کے لیے کسی قسم کی ترغیب نہیں دی جاتی۔‘

ششانک کی بات کو ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ روس پر الزام ہے کہ اس نے یوکرین کی سرحد پر حملے کی تیاری کے لیے فوجی ساز و سامان جمع کر رکھا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جسے سیٹلائٹ تصاویر سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ششانک کا کہنا ہے کہ شکوک و شبہات پیدا کیے جا رہے ہیں کہ روس ان تصاویر کو ریڈار پر آنے سے روک رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’سینٹینل ون نامی ایک ریڈار سیٹلائٹ ہے۔ اسے یوکرین کے ارد گرد روسی فوجی اڈوں کی ریڈار تصاویر لینے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ تصاویر نہیں لی جا سکتیں، اس لیے روس انہیں روکنے کے لیے سیٹلائٹ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر رہا ہے۔ یہ خود اپنے آپ میں خلائی جنگ سے پہلے کی جنگ ہے جو روز ہو رہی ہے۔‘

ایسی جنگیں حقیقت میں سائنس فکشن فلموں میں نظر آنے والی جنگوں سے زیادہ تباہ کن ثابت ہو سکتی ہیں۔ لیکن ششانک کا کہنا ہے کہ یہ تصور کرنا غلط ہو گا کہ مدار میں سب سے زیادہ سیٹلایٹس اور خلائی جہاز رکھنے والا ملک خلا میں سب سے زیادہ طاقتور بھی ہو گا۔

ششانک کہتے ہیں، ’اہم طاقتوں جیسے ایران یا شمالی کوریا کے پاس بہت سے سیٹلائٹس نہیں ہیں، لیکن وہ GPS سگنلز کی فریکوئنسی کو جام کر کے لیزر کے ذریعے خلا کو متاثر کر سکتے ہیں۔ اس لیے یہ جنگی صلاحیت صرف بڑی طاقتوں تک محدود نہیں ہے۔ خلا کو متاثر کرنے کی صلاحیت، دوسرے ممالک کو جھکانے کی کوشش کرنا یا جگہ کو کس طرح استعمال کرنا ہے، اور یہ اب صرف چند ہاتھوں تک محدود نہیں رہا ہے۔‘

۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

تو ہم اپنے سوال کی طرف لوٹتے ہیں۔ کیا خلا تنازعات کا نیا میدان بن رہا ہے؟

ہم جانتے ہیں کہ زمین سے سینکڑوں کلومیٹر اوپر ہزاروں سیٹلائٹ گھوم رہے ہیں۔ وہ انسانوں کو ایک دوسرے سے جوڑتے ہیں اور عالمی معیشت کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری معلومات کا ذریعہ بنتے ہیں۔ لیکن اس خلائی شاہراہ پر ٹریفک بہت بڑھ گئی ہے۔ اب وہاں موجود پرانے سیٹلائٹس کا بے تحاشا کاٹھ کباڑ خطرناک ہو گیا ہے اور ان سیٹلائٹس اور ان کے مالک ممالک دونوں کے ٹکرانے کا خطرہ کافی حد تک بڑھ گیا ہے۔

ہارورڈ سمتھسونین سینٹر فار ایسٹرو فزکس کے ماہر جاناتھن میکڈیول کا کہنا ہے کہ سوچنے اور اس پر عمل درآمد کرنے کے لیے اب بھی وقت ہے: ’خلا کی ٹریفک لین کو ریگولیٹ کیا جانا چاہیے۔ خلا میں ملبے کے بارے میں اصول ہونے چاہییں کیونکہ یہ اب غیر مستحکم ہو رہا ہے۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ ہمارے پاس ایک موقع ہے جہاں ہم تھوڑا پیچھے ہٹ سکتے ہیں، رُک سکتے ہیں اور اس کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔ کیسے؟ خلا کو ُپرامن طریقے سے استعمال کر کے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.