اسرائیل، فلسطین تنازع اور انٹرنیشنل لا: کیا حماس اور اسرائیل بین الاقوامی قوانین پر عمل کر رہے ہیں؟
- گوگیلی ایلمو وردی رامے
- کنگز کالج، لندن
بین الاقوامی قانون ریاستوں کی جانب سے فوجی طاقت کے استعمال کی نگرانی کرتا ہے اور اسی وجہ سے اسرائیل اور حماس کی لڑائی میں فریقین کے اقدامات کی قانونی حیثیت پر شدید بحث جاری ہے۔
اپنا دفاع
غزہ میں اپنی سابقہ کارروائیوں کی طرح امکان ہے کہ اسرائیل دلیل دے گا کہ اس کی حالیہ کارروائی بھی اپنے دفاع کے تحت جائز ہے۔
اقوام متحدہ کے چارٹر کی شق نمبر 51 کے مطابق اپنے دفاع کا حق بین الاقوامی قانون کا بنیادی اصول ہے۔ اگرچہ اس اصول کے کچھ پہلو متنازع ہیں لیکن عالمی سطح پر اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ ایک ریاست مسلح حملے کے خلاف اپنا دفاع کر سکتی ہے۔
اس بارے میں کچھ بحث ہے کہ اس مسلح حملے کی شدت کیا ہونی چاہیے کہ جس کے بعد کوئی ریاست قانونی طور پر اپنے دفاع کے حق کا سہارا لے سکے۔
زیادہ تر بین الاقوامی قانون کے وکلا اس بات پر متفق ہوں گے کہ شہریوں پر داغے گئے راکٹ، جو کسی ملک کے کچھ حصے کی معاشرتی زندگی کو درہم برہم کر دیتے ہیں، آرٹیکل 51 میں مسلح حملے کی تشریح پر پورا اترتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
تاہم حقِ دفاع کے بنیادی حقائق اکثر متنازع رہے ہیں۔ کسی بھی تنازعے میں فریقین اس بات پر کم ہی رضا مندی ظاہر کرتے ہیں کہ حملہ آور کون ہے اور اپنا دفاع کون کر رہا ہے اور اسرائیل اور فلسطین کا تنازع بھی کچھ ایسا ہی ہے۔
اس معاملے میں اسرائیل کے ناقدین بھی دو قانونی دلائل دیتے ہیں۔
سب سے پہلے وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ اپنے دفاع کا حق کسی دوسری ریاست کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن غزہ جیسی غیر ریاست کے خلاف نہیں۔ ریاستی عمل، خاص طور پر 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد سے، اپنے دفاع کی اس تشریح سے متصادم ہے لیکن بین الاقوامی عدالت انصاف نے ابھی تک اس سوال کا حل تلاش نہیں کیا۔
دوسری بات یہ کہ بین الاقوامی امدادی ادارے ریڈ کراس (آئی ایف آر سی) اور دوسرے بہت سے اداروں کا یہ ماننا ہے کہ غزہ اب بھی اسرائیلی قبضے میں ہے کیونکہ اس علاقے پر اور اس کے آس پاس کا کنٹرول اسرائیل کے پاس ہے۔
دوسری جانب اسرائیل کا کہنا ہے کہ سنہ 2005 میں غزہ سے انخلا کے بعد اس نے اس علاقے پر قبضہ نہیں کیا اور یہ کہ کسی علاقے میں ’وہاں داخل ہوئے بغیر‘ قبضہ نہیں کیا جا سکتا۔
اپنے دفاع کا حق کوئی آسان کام نہیں۔ بین الاقوامی قانون ریاستوں کو صحیح حالات میں اپنا دفاع کرنے کی اجازت دیتا ہے اور وہ بھی صرف اس طاقت کے ساتھ جو ضروری اور متناسب ہو۔
ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ اپنے دفاع میں توازن کا مطلب آنکھ کے بدلے آنکھ ، راکٹ کے بدلے راکٹ، یا کسی جانی نقصان کی صورت میں جانی نقصان ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے: بین الاقوامی قانون میں بدلے کے لیے طاقت کے استعمال کی کوئی جگہ نہیں۔
کچھ معاملات میں ایک لازمی اور متناسب ردعمل میں اصل حملے میں استعمال ہونے والی فوجی طاقت سے زیادہ طاقت کا استعمال ہو سکتا ہے تاہم کچھ دیگر معاملات میں ایک ملک کم طاقت کے استعمال سے بھی اپنا دفاع کر سکتا ہے۔
مسلح تصادم کا قانون
بین الاقوامی قانون کا ایک اور حصہ تنازعے کے شروع ہو جانے کے بعد جارحانہ کارروائیوں کے بارے میں بھی ہے جسے مسلح تصادم کا قانون کہا جاتا ہے۔
مسلح تصادم کا قانون صرف ان حالات پر لاگو ہوتا ہے جب بین الاقوامی یا غیر بین الاقوامی مسلح تنازعات کے قواعد کے تحت اس کی درجہ بندی کی جا سکے۔
مسلح تصادم کا قانون ان وجوہات سے قطع نظر لاگو ہوتا ہے جن کی وجہ سے ایک فریق نے طاقت کا سہارا لیا۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ کسی ریاست نے مسلح تصادم کے دوران طاقت کا استعمال غیر قانونی حرکتیں کرنے کے لیے کیا ہو۔
مسلح تصادم کے قانون میں جارحانہ کارروائیوں کے مختلف پہلوؤں (شہریوں کا تحفظ، جنگی قیدیوں کے ساتھ سلوک، مقبوضہ علاقے وغیرہ) پر تفصیلی قواعد شامل ہیں۔
یہ تمام قواعد چار اہم اصولوں کے توازن پر منحصر ہیں: انسانیت اور فوجی ضرورت، اور تفریق اور تناسب۔
انسانیت اور فوجی ضرورت
انسانیت کے اصول کے تحت غیر ضروری تکلیف اور ظلم سے بچنے کے لیے جدوجہد کی ضرورت ہے اور اس کا ہم پلہ فوجی ضرورت ہے۔
برطانوی مسلح افواج کے قانونی کتابچے کے مطابق فوجی ضرورت ایک ریاست کو صرف ’تنازعے کے جائز مقصد کے حصول یعنی جلد از جلد دشمن کی مکمل یا جزوی تحویل اور زندگی اور وسائل کے کم سے کم خرچ کے ساتھ‘ طاقت کے استعمال کی اجازت دیتی ہے اور اس کے علاوہ اس سے منع کیا جاتا ہے۔
یہ دلیل کہ غزہ پر اسرائیلی بمباری غیر مؤثر ہے کیونکہ وہ راکٹ حملے روکنے میں ہمیشہ ناکام رہے ہیں، ایک لحاظ سے اس تناظر میں طاقت کے استعمال کے کارآمد نہ ہونے کا ثبوت ہو سکتا ہے۔ لیکن فوجی ضرورت کے زاویے سے یہ حملوں سے بچنے کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ طاقت کے استعمال کا جواز بھی بن سکتا ہے۔
اسرائیلی حملوں میں غزہ کی رہائشی عمارتوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے
یقیناً یہ حقیقت ہے کہ اگر قانون کسی خاص اقدام کی اجازت دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ سیاسی، اخلاقی یا سٹریٹجک اعتبار سے بھی درست ہو۔
کسی بھی صورت میں فوجی ضرورت ان اقدامات کے لیے جواز پیش نہیں کرسکتی جو مخصوص اصولوں کے تحت ممنوع ہیں یا اس کا عام طور پر نتیجہ ’تکلیف یا بدلہ لینا ہو۔‘
تفریق اور تناسب
مسلح تصادم کے قانون کا ایک اصول تفریق کا بھی ہے: کسی بھی تنازعے میں فریقین کو جنگجوؤں اور عام شہریوں میں فرق کرنا چاہیے۔
اس اصول کے مندرجات پر متعدد مخصوص قواعد پیدا ہوتے ہیں۔ عام شہریوں اور ان کی املاک پر حملے پر ہمیشہ پابندی رہی ہے۔ حملے صرف تنازعے میں شریک جنگجوؤں یا غیر جنگجوؤں اور فوجی مقاصد کے حلاف کیے جا سکتے ہیں۔
غزہ اور اسرائیل کے حالیہ تنازعے میں تقریباً 200 افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہو گئے ہیں
تفریق کا یہ اصول شہریوں میں دہشت پھیلانے کے مقصد سے ہونے والی کارروائیوں یا تشدد کی دھمکیوں پر بھی پابندی عائد کرتا ہے اور ساتھ ہی ایسے حملوں سے بھی روکتا ہے، جو کسی خاص فوجی مقصد کو نشانہ نہیں بنا سکتے۔ مثال کے طور پر جنوبی اسرائیل کے خلاف میزائل داغنا تفریق کے اصول کی خلاف ورزی ہے۔
لیکن کوئی شے جائز فوجی نشانہ کب بنتی ہے؟
بین الاقوامی قانون فوجی مقاصد کی وضاحت کچھ ایسے کرتا ہے: ’وہ چیزیں جو فوجی کارروائی میں مؤثر حصہ بنتی ہیں یا جس کی تھوڑی یا مکمل تباہی فوجی فائدے کا باعث بنتی ہے۔‘
اسرائیل ڈیفینس فورسز(آئ ڈی ایف) کے ٹینک یا حماس کے راکٹ لانچر اس کیٹیگری میں آتے ہیں۔ مسائل نام نہاد دوہری استعمال کے اہداف کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں جیسے سنہ 1999 کی کوسوو جنگ میں نیٹو نے سربیا کے ٹی وی سٹیشن پر بم حملہ کیا تھا۔
کسی مسلح تصادم کے دوران یا بعد میں حقائق کو جانچنا کوئی آسان کام نہیں
لیکن سب سے زیادہ مشکل اس وقت پیدا ہوتی ہے جب راکٹ لانچر یا گولہ بارود کا کوئی ڈپو، شہری آبادی والے علاقے میں موجود ہوتا ہے۔ غزہ جیسے گنجان آباد علاقے میں ہونے والے ہر ہدف کے فیصلے میں ایسے حالات شامل ہوں گے۔
اور یہاں ہی تناسب کا اصول اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ تناسب کا اصول انسانی حقوق سمیت دیگر قوانین میں بھی اہم سمجھا جاتا ہے اور مسلح تصادم کے قانون میں بھی اس کا کردار اہم ہے۔
جب بھی شہری جانوں کے ضیاع یا املاک کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے تو جنگجوؤں کو شہریوں اور ان کی املاک کو لاحق خطرات کو پیشن نظر رکھتے ہوئے متوقع فوجی فائدے میں توازن پیدا کرنا ہوتا ہے۔
بین الاقوامی عدالت انصاف کی سابق صدر جج روزلین ہیگنز نے ایک فیصلہ میں لکھا تھا: ’حتی کہ کسی جائز ہدف پر بھی حملہ نہیں کیا جا سکتا ہے اگر اس حملے کے نتیجے میں عام شہریوں کو ہونے والا نقصان مخصوص فوجی فوائد سے غیر متناسب ہو۔‘
حملہ آور کی بھی ذمہ داری ہے کہ اگر دوران حملہ وہ محسوس کرے کہ اس سے عام شہریوں کو بڑا خطرہ درپیش آ سکتا ہے تو وہ فوراً حملہ روکنے کے احکامات جاری کرے۔
گنجان آباد علاقوں میں فوجی مقاصد کو نشانہ بنانے والے کسی بھی حملہ آور کو اہداف کی نوعیت کی تصدیق اور غلطیوں سے بچنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرنا ہوں گے۔
بم دھماکے سے قبل لیف لیٹس تقسیم کرنا یا رہائشیوں کو اس بارے میں آگاہ کرنے کا رواج اسرائیل نے متعارف کرایا اور اسے ان قوانین کی پیروی کی کوششوں کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اگرچہ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ طریقے ہمیشہ مؤثر ثابت نہیں ہوتے کیونکہ اگر ایسا کرنے سے شہریوں کی جانوں کو محفوظ بنا لیا جاتا ہے لیکن ان کی املاک کو ہونے والے نقصان کو نہیں روکا جا سکتا جو دراصل شہریوں کے لیے تکلیف اور مایوسی کا باعث بنتا ہے۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ غزہ میں حملوں کے دوران کم سے کم جانی نقصان کے لیے اقدامات کر رہی ہے
اس کے برعکس حماس پر بار بار لگائے جانے والا ایک الزام یہ بھی ہے کہ وہ جان بوجھ کر فوجی سازوسامان کو شہری علاقوں میں رکھ کر اپنے ہی شہریوں کو خطرے میں ڈالتا ہے۔
اگر یہ سچ ہے تو یہ مسلح تصادم کے قوانین کی سنیگین خلاف ورزی ہے لیکن اس سے اسرائیل کی ذمہ داری کو بھی کم نہیں کیا جاسکتا کہ شہریوں کی جانوں کے ضیاع کو کم سے کم کرنے کے لیے تمام ضروری احتیاطی تدابیر جاری رکھنی چاہیے۔
اسرائیل ڈیفینس فورسز سمیت تمام جدید مسلح افواج کے پاس مسلح تصادم کے قانون کے ماہرین موجود ہیں جو اہداف کی منظوری میں شامل ہوتے ہیں۔
کسی خاص ہدف کے فیصلے کی قانونی حیثیت کا اکثر انحصار حقائق پر ہوتا ہے۔ کیا وہاں کوئی حقیقی فوجی مقصد تھا؟ کیا ایسے حالات میں یہ ممکن تھا کہ کسی شہری کی جان کو نقصان پہنچائے بغیر اس ہدف کو نشانہ بنایا جا سکتا تھا؟ حملہ آور کیا جانتا تھا یا اسے کیا علم ہونا چاہیے تھا؟
لیکن کسی مسلح تصادم کے دوران یا بعد میں ان حقائق کو جانچنا کوئی آسان کام نہیں۔
تاہم اگر حملہ آور جان بوجھ کر شہری آبادی اور شہری املاک کو نچصان پہنچاتا ہے تو مسلح تصادم کے قوانین کے تحت اس عمل کی وضاحت کے لیے کسی قسم کے حقائق کا کوئی دوسرا پہلو نہیں۔
انسانی حقوق
بین الاقوامی عدالت انصاف بار بار یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ جنگ کے وقت انسانی حقوق کے قانون کا اطلاق ختم نہیں ہوتا تاہم عملی طور پر اس کا کیا مطلب ہے یہ کبھی واضح نہیں ہوتا اور خاص طور پر اہداف کے حوالے سے فیصلوں پر۔
تاہم جب بات اسرائیل کے عرب دیہات میں ہونے والی جھڑپوں کی ہو تو مسلح تصادم کے قانون پر ایک ساتھ عمل درآمد نہیں ہوتا: کیا ان معاملات میں اسرائیل کے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سکیورٹی فورسز کا ردعمل بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہے یا نہیں اس کا انحصار خاص طور پر انسانی حقوق کے قانون کے اطلاق پر ہو گا۔
مشرقی یروشلم میں صورتحال زیادہ پیچیدہ ہے، اسرائیل نے اسے اپنی سرزمین سے منسلک کر رکھا ہے تاہم بین الاقوامی عدالت انصاف سمیت باقی سب کی طرف سے اسے ابھی بھی فلسطین کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔
آخر میں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ مسلح تصادم کا قانون صرف جنگ کی ہولناکیوں کو کم کر سکتا ہے۔ ایک ایسی جنگ جو کتاب میں موجود تمام قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے لڑی گئی ہو تو اس کے باوجود بھی وہ ایک لعنت ہی ہے۔
٭گوگلیلمو وردیرامے کنگز کالج لندن میں ڈیپارٹمنٹ آف وار سٹڈیز اینڈ ڈکسن پون سکول آف لا میں انٹرنیشنل لا کے پروفیسر ہیں۔
Comments are closed.