کیا ترکی میں آنے والا زلزلہ اردوغان کے 20 سالہ اقتدار کے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے؟

  • مصنف, اوزگے اوزدیمر اور پال کربی
  • عہدہ, بی بی سی نامہ نگار

ترکی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ترکی میں 1939 کے بعد آنے والے بدترین زلزلے کے بعد یہ سوال اٹھنا شروع ہو گیا ہے کہ کیا اتنے بڑے سانحے سے بچا جا سکتا تھا اور کیا صدر اردوغان کی حکومت مزید جانیں بچا سکتی تھی؟

واضح رہے کہ ترکی میں انتخابات ہونے والے ہیں اور اردوغان کا 20 سالہ اقتدار بھی داؤ پر لگا ہوا ہے۔

صدر رجب طیب اردوغان نے اعتراف کیا ہے کہ زلزلے کے بعد امدادی کاموں میں کوتاہی ہوئی۔ لیکن زلزلے سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے انھوں نے اس کے لیے تقدیر کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ انھوں نے کہا کہ ’اس طرح کے واقعات پہلے بھی ہو چکے ہیں، یہ تقدیر کے منصوبے کا حصہ ہے۔‘

ترکی میں 1939 کے بعد اتنا خوفناک زلزلہ نہیں آیا۔ چند روز قبل آنے والے زلزلے کی شدت بہت زیادہ تھی۔ اس سے قبل 7.8 اور 4.17 کی شدت کے دو جھٹکے محسوس کیے گئے تھے۔ اس کے بعد بھی یکے بعد دیگرے 7.5 کی شدت کے کئی جھٹکے محسوس ہوئے۔

ترکی کے 81 میں سے 10 صوبے شدید زلزلے کی زد میں آئے اور ان علاقوں میں وسیع پیمانے پر امدادی کارروائیوں کی ضرورت تھی لیکن زلزلے کے بعد تیاری میں کچھ وقت لگا اور کئی دیہی علاقوں تک کئی دنوں تک رسائی ممکن نہیں ہو سکی۔

ابتدائی تاخیر کے بعد 30,000 پیشہ ور امدادی کارکن اور رضاکار تیار ہو گئے جبکہ دوسرے ممالک سے امدادی کارکنوں ٹیمیں بھی پہنچ گئیں۔

زلزلے سے کم از کم 6000 عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں۔ ترکی کی ڈیزاسٹر اتھارٹی کے کئی ملازمین خود زلزلے میں پھنس گئے تھے۔

زلزلے کے بعد کے ابتدائی چند گھنٹے امدادی کاموں کے حوالے سے بہت اہم تھے لیکن سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں جس کی وجہ سے امدادی کارکنوں کو متاثرہ علاقوں تک پہنچنے میں کئی گھنٹے لگ گئے۔

ترکی میں زلزلے آتے رہتے ہیں۔ لیکن اس زلزلے کے بعد ایک رضاکارانہ امدادی تنظیم کے بانی نے کہا کہ اس بار ریلیف آپریشن میں سیاست آڑے آ رہی ہے۔

ترکی

،تصویر کا ذریعہAKUT

امدادی کاموں میں فوج کو تعینات نہیں کیا گیا

1999 میں ایک بڑے زلزلے کے بعد ترک فوج نے ریلیف آپریشن کیا تھا۔ لیکن اردوغان نے ترکی میں فوج کی طاقت کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔

ریلیف ٹیم اکوٹ فاؤنڈیشن کے بانی، ناسوح مہروکی کہتے ہیں کہ فوج پوری دنیا میں سب سے زیادہ منظم اور لاجسٹک اعتبار سے سب سے بہتر تنظیم ہے۔ ’ان کے پاس بے پناہ وسائل ہیں۔ اس لیے آپ فوج کو ایسی آفات میں استعمال کرتے ہیں۔‘

لیکن اس بار کمانڈ ترکی کی سول ڈیزاسٹر اتھارٹی کے پاس ہے۔ اس کے 10 سے 15 ہزار ملازمین اکوٹ جیسی این جی اوز کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ اکوٹ کے 3000 رضاکار ہیں۔

مہروکی کا کہنا ہے کہ اس بار امدادی کاموں کا دائرہ 1999 کے مقابلے میں زیادہ بڑا ہو گا لیکن فوج کو امدادی کاموں سے دور رکھنے کے منصوبے کی وجہ سے حکومت کے حکم کا انتظار کرنا پڑا اور اسی وجہ سے ریلیف کے کام میں تاخیر ہوئی۔

صدر اردوغان نے اعتراف کیا ہے کہ زلزلے میں پھنسے لوگوں کی تلاش کا کام اتنی تیزی سے نہیں ہو سکا جتنا حکومت چاہتی تھی۔ لیکن ان کے مطابق اس وقت دنیا کی سب سے بڑی سرچ اینڈ ریسکیو ٹیم ترکی میں کام کر رہی ہے۔

’میں نے انھیں خبردار کیا تھا‘

گزشتہ کئی برسوں سے ترکی میں لوگوں کو بڑے زلزلوں سے خبردار کیا جا رہا ہے۔ لیکن بہت کم لوگوں کو اندازہ تھا کہ یہ مشرقی اناطولیہ فالٹ سے متصل علاقے میں آئے گا جو پورے جنوب مشرقی ترکی میں پھیلا ہوا ہے۔ اب تک شمالی فالٹ میں بڑے زلزلے آ چکے تھے۔

ترکی

استنبول یونیورسٹی میں جیولوجیکل انجینئرنگ کے پروفیسر، ناسی گرور نے اس خطرے کو اس وقت بھانپ لیا تھا جب جنوری 2020 میں موجودہ مرکز کے شمال مشرق میں زلزلہ آیا۔ اس وقت انھوں نے ادیامان اور کہرامنماراس شہر میں زلزلے کا امکان ظاہر کیا تھا۔

ترکی کے معروف تعمیراتی انجینئر پروفیسر مصطفی ایردک کا کہنا ہے کہ مکانات کی تعمیر کے لیے بنائے گئے قوانین کے مطابق تعمیرات نہیں کی گئیں اسی لیے ہلاک ہونے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ انھوں نے عمارت سازی کی صنعت کی نااہلی اور لاعلمی کو ذمہ دار ٹھہرایا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ہمیں زلزلے میں نقصان کا خدشہ رہتا ہے، لیکن اس قسم کے نقصان کا نہیں جہاں گھروں کے فرش ایک دوسرے کے اوپر ڈھیر ہو گئے۔

وہ کہتے ہیں کہ اتنی تباہی اور اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتوں کو روکا جا سکتا تھا۔

ترکی میں 2018 کے نئے قوانین کے مطابق اعلیٰ معیار کے کنکریٹ میں مخصوص قسم کی سٹیل بارز استعمال کرنے کو کہا گیا تھا۔ قواعد کے مطابق عمودی اور افقی کالم اس طرح کھڑے کرنا ضروری تھا کہ وہ زلزلے کے جھٹکے برداشت کر سکیں۔

پروفیسر اردک کا کہنا ہے کہ اگر ان اصولوں پر عمل کیا جاتا تو گھروں کے کالم برقرار رہتے اور جو دراڑیں آتیں وہ صرف کالم تک محدود رہتیں۔ لیکن قواعد پر عمل کیے بغیر مکانات کی تعمیر کی وجہ سے ان کے ستون گر گئے اور بڑے پیمانے پر جان و مال کا نقصان ہوا۔

تاہم ترکی کے وزیر قانون نے کہا ہے کہ عمارت کی تعمیر میں بے ضابطگیوں کے مرتکب پائے جانے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیے

ترکی

،تصویر کا ذریعہReuters

زلزلہ ٹیکس کا پیسہ کہاں گیا؟

حزب اختلاف سی ایچ پی جماعت کے رہنما کمال کلیدار اوغلو کا کہنا ہے کہ اردوغان کو اقتدار میں آئے 20 سال ہو گئے ہیں لیکن انھوں نے ملک کو زلزلے کی شدت کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں کیا۔

اب 1999 کے زلزلے کے بعد زلزلہ ٹیکس کی مد میں جمع ہونے والی خطیر رقم کے استعمال پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ یہ رقم زلزلہ کے خلاف مزاحمت رکھنے والے مکانات کی تعمیر کے لیے استعمال کی جانی تھی۔

اس کے علاوہ موبائل فون، ریڈیو اور ٹی وی آپریٹرز سے جمع کیے گئے 88 ارب لیرا کے ٹیکس کے استعمال پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ پوچھا جا رہا ہے کہ یہ رقم کہاں گئی؟ دو سال قبل اس ٹیکس میں بھی 10 فیصد اضافہ کیا گیا تھا۔ لیکن حکومت نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ یہ رقم کہاں خرچ ہوئی۔

عمارت کی تعمیر میں بے ضابطگیوں میں ملوث افراد کے لیے ایمنسٹی سکیم بھی لائی گئی۔ اس میں اربوں لیرا جرمانے کے طور پر جمع کرائے گئے۔ لیکن جب 2019 میں استنبول میں ایک عمارت گر گئی، جس میں 21 افراد ہلاک ہوئے، تو چیمبر آف سول انجینئرز کے سربراہ نے کہا کہ یہ ایمنسٹی سکیم ترکی کے شہروں کو قبرستانوں میں بدل دے گی۔

استنبول یونیورسٹی کے پیلن پنار گریتالی اوگلو نے بی بی سی کو بتایا کہ اس زلزلے میں گرنے والی عمارتوں کی تعداد میں ایمنسٹی سکیم کا بڑا کردار تھا۔

پروفیسر ایردک کا کہنا ہے کہ ہم استنبول میں گزشتہ 23 سالوں سے اس طرح کے زلزلے کا امکان ظاہر کر رہے ہیں۔ ’اس لیے اب ملک کی پالیسی سازی سے وابستہ افراد کو مل کر ایسا ماحول اور انفراسٹرکچر بنانا ہو گا جو زلزلوں کو برداشت کر سکے۔‘

ترکی

،تصویر کا ذریعہEPA-EFE/REX/SHUTTERSTOCK

سیاست میں تقسیم

زلزلے کے بعد صدر اردوغان نے ملک میں اتحاد اور سالمیت کی اپیل کی ہے۔ انھوں نے زلزلہ ریلیف میں تاخیر کے الزامات کو توہین آمیز قرار دیا ہے۔

انھوں نے زلزلے کے مرکز کے قریب صحافیوں کو بتایا کہ لوگ اپنے سیاسی مفادات کے لیے منفی مہم چلا رہے ہیں اور ’میں اس قسم کا پروپیگنڈہ کرنے والوں کو برداشت نہیں کر سکتا۔‘

زلزلے سے متاثر ہونے والے زیادہ تر شہروں میں ان کی جماعت اے کے پی کی حکومت ہے۔ لیکن اردوغان 20 سال سے اقتدار میں ہیں، پہلے وزیر اعظم اور اب صدر کے طور پر۔ لیکن ان کی پالیسیوں کی مخالفت کی جا رہی ہے۔

ملک میں مئی میں انتخابات ہونے ہیں لیکن اب تک انتخابی مہم شروع نہیں ہوئی۔ کِلِک دار اوگلو اپوزیشن کی چھ جماعتوں میں سے ایک کی قیادت کرتے ہیں اور اس امکان کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں مل کر اردوغان کے خلاف مشترکہ امیدوار کھڑا کرسکتی ہیں۔

صدر اردوغان کے بہت سے ناقدین جیل میں بند ہیں یا ملک سے فرار ہو چکے ہیں۔

جب 2016 میں ان کے خلاف بغاوت کی کوشش ناکام ہوئی تو ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا جبکہ سرکاری ملازمین کی بھی ایک بڑی تعداد کو فارغ کر دیا گیا۔

کیا اردوغان اقتدار سے محروم ہو سکتے ہیں؟

ترکی کی معیشت مسلسل زوال پذیر ہے اور مہنگائی 57 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

زلزلے کے نتیجے میں ہونے والی تنقید کے بعد حکومت نے لوگوں کے ٹوئٹر اکاؤنٹس بلاک کرنا شروع کر دیے ہیں جبکہ زلزلے سے بچ جانے والے کی لوکیشن جاننے کے لیے لوگ ٹوئٹر اکاؤنٹ استعمال کر رہے تھے۔

لیکن حکومت نے کہا کہ اسے پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ پولیس نے ایک ایسے ماہر سیاسیات کو حراست میں لے لیا جس نے ایمرجنسی رسپانس پر تنقید کی۔

ترکی میں رہنے والے صحافی ڈینیز یوسیل نے ایک سال مقدمے سے قبل حراست میں گزارا ہے۔ اس وقت وہ جرمنی میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ 1999 کے زلزلے کے بعد کے واقعات نے اردوغان کو اقتدار میں لانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

انھوں نے لکھا کہ اس بار بھی زلزلے کا اثر انتخابات پر پڑے گا لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ اس کا نیتجہ کیا ہو گا۔

BBCUrdu.com بشکریہ