بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

کیا تجارت مشرقِ وسطیٰ میں امن کا راستہ ہے؟

کیا تجارت مشرقِ وسطیٰ میں امن کا راستہ ہے؟

(L-R) Prime Minister of Israel Benjamin Netanyahu, US President Donald Trump, Foreign Affairs Minister of Bahrain Abdullatif bin Rashid Al Zayani, and Foreign Affairs Minister of the UAE Abdullah bin Zayed bin Sultan Al Nahyan after the signing ceremony of the Abraham Accords at the White House on 15 September 2020.

ابھی واشنٹگٹن ڈی سی میں ہونے والے متحدہ عرب امارات اور بنیامن نیتن یاہو کے اسرائیل کے درمیان معاہدے کو چھ ماہ بھی نہیں ہوئے ہیں کہ وائٹ ہاؤس میں ایک نیا صدر آ گیا ہے اور اسرائیل میں انتخابات دوبارہ سر پر آ کھڑے ہوئے ہیں۔

تاہم متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے تعلقات بحال کرنے والے اس ’ابراہم اکارڈز` نامی اس معاہدے کا مستقبل مستحکم معلوم ہوتا ہے۔

نہ صرف مراکش اور سوڈان نے ایسے ہی معاہدوں پر دستخط کر لیے ہیں، بلکہ ان ممالک کے درمیان لاکھوں ڈالروں کی کاروباری ڈیلز بھی طے پا چکی ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق صرف دسمبر میں ہی 60000 اسرائیلی سیاح دبئی گئے اور ان میں وہ وفد شامل نہیں ہیں جو کاروباری مقاصد کے لیے گئے تھے۔

Fleur Hassan-Nahoum

یو اے ای اسرائیل بزنس کونسل کے بانیوں میں سے ایک اور یروشلم کی نائب میئر فلوئر حسن ناہوم کا کہنا ہے کہ ’ہم دونوں میں بہت کچھ مشترک ہے۔‘

’جیسے ہی امن کا اعلان ہوا، لوگ ایک دوسرے کو جاننے کے لیے اچھل رہے تھےگ ہم نے وٹس ایپ فورمز اور زوم میٹنگز سے شروعات کی اور اس سب کی اپنی ایک رفتار تھی۔‘

دونوں ممالک کے درمیان بینکاری، فٹوال، سائبر سکیورٹی، اور فوڈ ٹیکنالوجی میں کاروباری معاہدے ہوئے ہیں۔ اب دبئی میں کوشر ریسٹورانٹوں کی تشہیر کی جا رہی ہے اور ذاتی دفاعی کی اسرائیلی ٹیکنیک کراوو ماگا کی تربیت کے لیے دو جم کھول لیے گئے ہیں۔

کچھ اندازوں کے مطابق ان معاہدوں سے چار ارب ڈالر مالیت کا کاروبار ہوگا۔

Thani al-Shirawi of the Al Shirawi Group and an executive from the Israeli water company Fluence shaking hands after one of the first memorandums of understandings after the peace deal

ان کاروباری معاہدوں میں سے سب سے پہلے طے ہونے والوں میں سے ایک معاہدہ اسرائیلی واٹر سسٹم فلوئنس اور دبئی کی کمپنی الشیواری گروپ کے درمیان ہوا تھا۔

اس کمپنی کے مالکان میں سے ایک ثانی الشیواری کہتے ہیں کہ یہ معاہدہ ایک انتہائی شاندار ڈیل تھی۔

بی بی سی کے پروگرام ٹاکنگ بزنس سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم ایک ہی زبان بولتے تھے۔ ہمارے عزائم ایک جیسے تھے اور ہم دونوں ترقی چاہتے تھے۔ اسرائیل کے پاس ٹیکنالوجی تھی، جہاں تک پانی کی صنعت کا تعلق ہے تو ہم سے تھوڑا آگے تھے۔‘

ادھر فلوئنس کے سربراہ بھی اتنے ہی خوش معلوم ہوتے ہیں۔ اور وہ نہ صرف اس معاہدے بلکہ خطے میں امن سے بھی خوش ہیں۔

’کاروبار امن کی طرف ایک راستہ ہو سکتا ہے اور امن ہی کاروبار کی طرف کا راستہ ہے۔ بطور ایک اسرائیلی اور بطور ایک تاجر مجھے فخر ہے کہ میری اشیا امن کا راستہ ہموار کر رہی ہیں۔

King Salman bin Abdulaziz Al Saud of Saudi Arabia, pictured on 24 February 2019

مگر یہ امن معاہدہ ہر کسی کو پسند نہیں آیا۔ فلسطینیوں کا اس حوالے سے ردعمل فوری تھا اور انھیں غزہ کی سڑکوں پر احتجاج کرتے دیکھا گیا۔ ادھر فلسطینی اتھارٹی کا کہنا تھا کہ اسرائیلی قبضے کے خاتمے تک کوئی حل نہیں ہو گا۔

اعلان کے بعد متحدہ عرب امارات میں کمپنیوں پر سائبر حملوں میں 250 فیصد تک اضافہ دیکھا گیا۔

کنٹرول رسکس نامی کنسلٹنسی میں مشرقِ وسطی کے سربراہ ولیم براؤن کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے سیاق و سباق کا خیال رکھنا اہم ہے۔ ‘ہم ایک ایسے دور میں رہ رہے ہیں جب گھر سے بیٹھ کر کام کرنا ایک عام بات بن گئی ہے۔ یہ کہنا شاید مکمل طور پر درست نہیں ہوگا کہ یہ حملے صرف امن معاہدے کی وجہ سے بڑھے ہیں تاہم ظاہر ہے اس کا اثر بھی ہوا ہے۔‘

اس کے علاوہ یہ قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی تھیں کہ سعودی عرب اگلا ملک ہوگا جو اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کرے گا مگر اس بات کا امکان اس وقت انتہائی کم ہے۔

اکانمسٹ انٹیلیجنس یونٹ کے ادیاؤ بولاجی ادیو کہتی ہیں کہ موجودہ سعودی بادشاہ کے ہوتے ہوئے میرے خیال میں ایسا ناممکن ہے۔

وہ سعودی بادشاہ کے بارے میں کہتی ہیں کہ ان کے خیال میں فلسطین کا مسئلہ پہلے حل کرنا ہوگا پھر آ پ اسرائیل کے ساتھ روابط قائم کر سکتے ہیں۔ ‘اسی لیے اس وقت معاہدے کا امکان نہیں ہے۔ عمان ممکنہ طور پر یہ معاہدہ کر سکتا ہے۔ میرے خیال میں وہ انتظار کر رہے ہیں کہ ان معاہدوں پر عرب دنیا میں کیا ردعمل آتا ہے۔‘

اسرائیل کی مصر اور اردن کے ساتھ کئی سالوں سے امن معاہدے ہیں مگر یہ عرب ممالک میں بالکل مقبول نہیں تھے۔ مگر حالیہ معاہدوں کا دونوں ممالک میں کاروباری برادری نے خیر مقدم کیا ہے۔

کئی دہائیوں سے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان غیر سرکاری طور پر کاروبار تو ہو رہا تھا مگر اب یہ قانونی طور پر ہورہا ہے۔

ان معاہدوں کی وجہ سے ممالک کے باہمی تعلقات میں کیا رد و بدل ہوتی ہے، یہ آئندہ چند سالوں میں انتہائی اہم ہو گا۔ مگر ایسا لگتا ہے کاروباری برادری نے تو اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.