- مصنف, مسعود آذار
- عہدہ, بی بی سی فارسی سروس
- 25 منٹ قبل
سنہ 1979 کے انقلاب کے بعد سے علما اسلامی جمہوریہ ایران میں اقتدار کے اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں۔سپریم لیڈر یعنی رہبر اعلیٰ کے علاوہ علما نے کئی سالوں میں بطور صدر، وزیر اعظم (آئینی ترمیم سے پہلے)، عدلیہ کے سربراہ اور سینکڑوں دیگر اہم عہدوں پر کردار ادا کیے ہیں۔ تاہم حالیہ برسوں میں سیاسی اور سماجی منظر نامے میں ان کی موجودگی میں تیزی سے کمی دیکھی گئی ہے۔یہ تاریخی طور پر ثابت شدہ ہے کہ علما ایران میں عوام کے لیے اتھارٹی تھے، اسی لیے عوام کے اعتماد کی بدولت وہ اسلامی انقلاب کے بعد اقتدار پر قابض ہونے میں کامیاب ہوئے۔لیکن چار دہائیوں سے زائد اسلامی طرزِ حکمرانی کے بعد اب ایسا لگتا ہے کہ لوگوں کا آہستہ آہستہ علما پر سے اعتماد ختم ہو گیا ہے یا اب وہ پہلے جیسا اعتبار نہیں رکھتے۔
اقتدار پر قابض علما پر اعتماد کا فقدان 2022 میں مہسا امینی کی موت کے بعد بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں میں واضح ہوا جس دوران درجنوں علما کی پگڑیاں گرائی گئیں۔مظاہرین علما کی توہین کرنا چاہتے تھے، انھوں نے علما کے سروں سے پگڑیاں تک اتار دیں۔یہ عوامی بے اطمینانی حالیہ پارلیمانی انتخابات اور اس سال کے صدارتی انتخابات میں بھی واضح تھی۔ صدر کے انتخاب کے لیے لڑنے والے واحد عالم مصطفیٰ پور محمدی کو پڑنے والے کل ووٹوں کی تعداد مسترد شدہ ووٹوں سے بھی کم تھی۔ہیلی کاپٹر کے حادثے میں وفات پا جانے والے سابق صدر ابراہیم رئیسی کی طرح پورمحمدی 1980 کی دہائی میں نام نہاد ڈیتھ کمیشن کے رکن تھے اور ان پر سیاسی قیدیوں کے لیے پھانسی کے احکامات جاری کرنے کا الزام ہے۔ وہ سکیورٹی امور سے تعلق رکھنے والی ایک شخصیت بھی ہیں جو طویل عرصے سے حساس عہدوں پر فائز ہیں۔انتخابات میں اپنی بھاری شکست کے ردعمل میں پورمحمدی نے کہا کہ انتخابی نتیجہ ان کے لیے متوقع تھا اور وہ جانتے تھے کہ زیادہ ووٹ حاصل کرنا ’ناممکن‘ تھا۔یہاں چند سوالات اہم ہیں: علما کی طرفداری ختم کر کے عوام کو کیا پیغام دیا جا رہا ہے؟ اگر اقتدار کے عہدوں پر علما کو منتخب نہیں کیا گیا تو ان کی جگہ کون لے گا؟،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
علما کی کارکردگی معاشرے کے نوجوانوں میں سیکولر ازم کے فروغ کی بنیادی وجہ
2022 کے زبردست مظاہروں سے اسلامی جمہوریہ کی تاریخ میں ایک اہم موڑ نے جنم لیا۔ دو سال پہلے احتجاج کے دوران ’زن، زندگی، آزادی‘ کے نعرے کے درمیان علما کو ایک بڑے اور اہم چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔’مولویوں کو جانا ہو گا‘ اور ’پگڑی گراؤ‘ جیسے نعرے اس احتجاجی تحریک کا اس حد تک حصہ تھے کہ علما سڑکوں پر غیر محفوظ محسوس کرنے لگے۔ حتیٰ کہ کچھ نے علما والا لباس اور پگڑیاں پہننا چھوڑ دیں۔علما کے خلاف نفرت اور بداعتمادی راتوں رات پیدا نہیں ہوئی بلکہ ایک طویل عرصے سے یہ لاوہ پک رہا تھا۔ اب عوام نے بھی ملک کی معاشی اور سیاسی صورتحال کا ذمہ دار بھی علما کو ٹھہرانا شروع کر دیا ہے۔ ان کی کارکردگی نے ملک کے مذہبی اداروں کو بھی متاثر کیا ہے اور فی الحال مساجد جو ایرانی علما کا سب سے اہم مرکز سمجھی جاتی ہیں، تقریباً خالی پڑی ہیں۔ایک سینئر سرکاری اہلکار کے مطابق ’ملک میں تقریباً 75000 مساجد میں سے تقریباً 50000 کو بند کر دیا گیا ہے۔‘ایسی رپورٹس بھی ہیں جن کے مطابق حالیہ برسوں میں مذہبی اداروں کے طلبا کی تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے۔ رہائش اور ٹیوشن فیس کے زیادہ اخراجات اس کمی کی وجہ بتائے جاتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں ریاست نے مدرسوں میں پڑھنے والے طلبا کو سکولوں اور دیگر اداروں جیسا کہ بینکوں میں ملازمتیں فراہم کی ہیں تاکہ وہ انھیں مدرسوں میں ہی رہنے کی ترغیب دے سکیں۔حکومت نے پیسے اور اثر و رسوخ سمیت مختلف ذرائع سے مذہبی اداروں کو اپنے زیر اثر لانے کی بھی کوشش کی ہے اور مذہبی تعلیم حاصل کرنے والوں کے لیے مالی امداد میں بھی اضافہ کیا ہے۔تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ علما کی کارکردگی ایران میں مذہبی رسومات کے زوال اور معاشرے کے مختلف گروہوں بالخصوص نوجوانوں میں سیکولرازم کے فروغ کی بنیادی وجہ ہے۔،تصویر کا ذریعہUGC
خلا کون پر کرے گا؟
اعلیٰ سرکاری عہدوں پر علما کی موجودگی میں کمی کے بعد یہ ذمہ داریاں کون سنبھالے گا؟ علما کی طرف سے خالی چھوڑا جانے والا یہ خلا پاسدارانِ انقلاب کے گارڈز اور سکیورٹی فورسز کے ذریعے پر کیا جا رہا ہے۔پارلیمنٹ، حکومت، اداروں اور اقتصادی شعبوں میں پاسداران انقلاب کی سرگرمیوں کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایران کے سابق صدر محمود احمدی نژاد کے دور سے ہی ہر جگہ فوجیوں اور سکیورٹی کی موجودگی کا رجحان نظر آنا شروع ہو گیا تھا۔پارلیمنٹ کے آخری اجلاس میں کم از کم 26 ارکان ایسے تھے جو پاسداران انقلاب سے قانون ساز کونسل میں آئے اور وہ کرنل اور بریگیڈیئر جنرل جیسے فوجی عہدوں پر فائز تھے۔ موجودہ پارلیمنٹ جس نے گذشتہ جون میں اپنا کام شروع کیا تھا اس میں تقریباً 30 ایسے نائبین ہیں جو پاسداران انقلاب کا حصہ رہ چکے ہیں۔ مختلف حکومتوں کے دوران بننے والے وزرا بھی سیکورٹی اور فوجی پس منظر رکھتے ہیں۔پاسداران انقلاب کی کئی اہم شخصیات ابراہیم رئیسی کی حکومت کا حصہ رہیں ہیں جیسا کہ احمد واحدی جو وزیر داخلہ کے عہدے پر فائز ہیں۔ تاہم نائب صدور اور گورنروں کے علاوہ مختلف عہدوں پر پاسداران انقلاب کے اہلکاروں کی مضبوط موجودگی قائم ہے اور ایران کے زیادہ تر صوبائی گورنر پاسدارانِ انقلاب کے اراکین میں سے مقرر کیے گئے ہیں۔،تصویر کا ذریعہEPA
سیاسی جماعتوں کی عدم موجودگی میں پاسداران انقلاب ایران کی سب سے مربوط اور طاقتور تنظیم بن گئی ہے
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ایران میں مضبوط سیاسی جماعتوں کی عدم موجودگی میں پاسداران انقلاب ایران کی سب سے مربوط اور طاقتور تنظیم بن گئی ہے۔ اپنی عظیم اقتصادی اور سکیورٹی طاقت کی بنیاد پر اب یہ ایرانی سیاست میں ایک فیصلہ کن کھلاڑی بن چکی ہے۔مزید یہ کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر کے ساتھ پاسداران انقلاب کی وفاداری علما کی نسبت زیادہ مضبوط ہو سکتی ہے۔اسلامی جمہوریہ ایران کے اندر سیکیورٹی کے بڑھتے ہوئے بحران اور گذشتہ دو دہائیوں کے دوران علاقائی مسائل میں اس کی مداخلت کے پیش نظر، ایران میں پاسداران انقلاب کا کردار اور اہمیت کسی بھی دوسرے ادارے (خاص کر علما) کے کردار اور اہمیت سے بڑھ کر ہے۔اگرچہ پارلیمنٹ اور اعلیٰ سرکاری عہدیداروں میں علما کی تعداد کم ہوئی ہے لیکن ایران میں علما کا اثر و رسوخ اور کردار نمایاں ہے۔سپریم لیڈر کے نمائندے علما ہیں جو براہ راست ان کی نگرانی میں کام کرتے ہیں اور تمام سرکاری اور عسکری اداروں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایران کے چھوٹے اور بڑے شہروں اور ان گنت مساجد میں نماز جمعہ کے امام بھی اس ملک میں علما کے نمایاں کردار کو اجاگر کرتے رہتے ہیں۔،تصویر کا ذریعہEPA
نئے صدر کو کتنی سیاسی آزادی دی جائے گی؟
توقع کی جا رہی ہے کہ نومنتخب صدر رئیسی کی اچانک وفات سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کے لیے چند دنوں میں اقتدار کی باگ ڈور سنبھالیں گے۔جوہری معاہدے کی بحالی اور ایران پر عالمی پابندیوں میں نرمی کے علاوہ پزشکیان نے ایران کو بین الاقوامی بینکنگ کنونشن میں شامل ہوتے دیکھنے کا وعدہ کیا ہے۔اس سے قبل قدامت پسند ایسا کرنے میں ہچکچاتے رہے ہیں اور اس ہچکچاہٹ نے ایران کو دیگر اقوام کے ساتھ بینکاری تعلقات سے محروم رکھا ہے۔یہ واضح نہیں ہے کہ بامعنی تبدیلی لانے کے لیے انھیں کتنی سیاسی آزادی دی جائے گی۔لندن کے چیتھم ہاؤس میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے پروگرام کی ڈائریکٹر ڈاکٹر صنم وکیل کا کہنا ہے کہ اپنے اعتدال پسند ایجنڈے پر تعاون حاصل کرنے کے لیے انھیں ’قدامت پسندوں کے غلبہ والے ایرانی نظام‘ میں سخت محنت کرنا ہو گی۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اقتصادی پورٹ فولیو کے علاوہ شاید انھیں زیادہ تبدیلیاں لانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ان کا کہنا تھا کہ پابندیوں میں ریلیف اور بامعنی پیش رفت صرف اور صرف امریکہ کے ساتھ بات چیت کے ذریعے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.