کیا ایران واقعی اسرائیل پر حملہ آور ہو سکتا ہے؟ وہ سوال جس نے مشرق وسطی کو تذبذب میں مبتلا کر رکھا ہے
- مصنف, ہیوگو بچیگا
- عہدہ, بی بی سی نیوز، بیروت
- 2 گھنٹے قبل
بدھ کو سعودی عرب کے شہر جدہ میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے رکن ممالک کا ہنگامی اجلاس ہوا۔ایران کے مطالبے پر منعقدہ اس اجلاس میں کئی امور کے علاوہ تہران میں حماس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہنیہ کے قتل پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔یہ اجلاس ایران کے لیے او آئی سی کے رکن ممالک کو اپنے انتقامی عزائم کی وضاحت کرنے کا ایک موقع بھی تھا۔31 جولائی کو حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کو ایران کے دارالحکومت تہران میں اس وقت قتل کر دیا گیا جب وہ ایران کے نئے صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے پہنچے تھے۔
اس کے بعد ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے ہنیہ کی موت کا بدلہ لینے کا اعلان کیا تھا۔حماس اور ایران دونوں کا کہنا ہے کہ 31 جولائی کو اسماعیل ہنیہ کے قتل کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ ہے لیکن اسرائیل نے ابھی تک اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ لیکن عام خیال یہ ہے کہ اس کے پیچھے اسرائیل کا ہی ہاتھ ہے۔،تصویر کا ذریعہEPA
ایران کے ردعمل پر تشویش کیوں ہے؟
ایران کے قائم مقام وزیر خارجہ علی باقر کنی نے کہا ہے کہ ان کے ملک کے پاس جواب دینے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ ایران اپنا جواب ‘صحیح وقت پر’ اور ‘صحیح طریقے سے’ دے گا۔مسٹر کنی نے کہا کہ ایران کا ممکنہ ردعمل نہ صرف ایران کی خودمختاری اور قومی سلامتی بلکہ ‘پورے خطے کے استحکام اور سلامتی’ کے لیے ہوگا۔حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ جو ایران کے نئے صدر کی حلف برداری میں شرکت کے لیے تہران میں تھے وہ ایران کے پاسداران انقلاب (آئی آر جی سی) کے انتہائی محفوظ مہمان خانے میں مقیم تھے۔اس انتہائی محفوظ اڈے پر حملے میں اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کے بعد ایران کو بھی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔اس واقعے کے بعد سے ایران سے متعلق ہر اشارے، ہر بیان، ہر تقریر پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے کہ ایران اس حملے کا کب اور کیا جواب دے گا۔ ساتھ ہی یہ خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ ایران کا جوابی حملہ پورے خطے کو ایک وسیع تر تصادم میں دھکیل سکتا ہے۔تاہم ایران کے وزیر خارجہ نے ابھی تک اس بارے میں کوئی اشارہ نہیں دیا ہے۔ مغربی ممالک کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ایران کے بارے میں محدود انٹیلی جنس معلومات ہیں، اس لیے یہ واضح نہیں کہ ایران کیا کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔رواں سال اپریل میں شام کے دارالحکومت دمشق میں ایک ایرانی سفارت خانے کے کمپاؤنڈ پر فضائی حملے میں پاسداران انقلاب کے آٹھ اہلکار مارے گئے تھے۔ اس کے متعلق بھی یہ خیال ظاہر کیا گیا کہ یہ حملہ اسرائیل نے کیا تھا۔ یہ ایران کے لیے ایک اور شرمناک دھچکا تھا۔دمشق میں حملے کے بعد ایران نے بدلہ لینے کے عزائم کا اظہار کیا تھا۔ اس نے اسرائیل پر 300 سے زیادہ میزائل اور ڈرون داغے لیکن انھیں اسرائیل اور امریکی اتحاد نے انٹرسیپٹ کرکے ناکام بنا دیا اور ایران کی جوابی کارروائی کا اسرائیل پر کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔،تصویر کا ذریعہEPA
ایران کی جوابی کارروائی کے متعلق صورتحال واضح نہیں
گذشتہ ہفتے امریکی حکام نے کہا تھا کہ اس بار ایران بڑے حملے کی تیاری کر رہا ہے، یہ پچھلی ناکامی کو نہ دہرانے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔حالیہ میڈیا رپورٹس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کی موت کسی درست میزائل حملے کی وجہ سے نہیں ہوئی بلکہ ایران کے اندر مقامی طور پر کیے گئے حملے میں ہوئی۔ ہنیہ پر حملے میں کوئی ایرانی شہری ہلاک نہیں ہوا۔اب یوں نظر آ رہا ہے کہ عرب اور مغربی ممالک کی سفارتی کوششوں کی وجہ سے ایران اس پورے معاملے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو سکتا ہے۔گذشتہ ہفتے اردن کے وزیر خارجہ نے ایران کا دورہ کیا۔ بدھ کو فرانسیسی صدر ایمانویل میکخواں نے ایرانی صدر سے بات کی۔ فرانسیسی سفارت خانے کے مطابق میکخواں نے ایران سے کہا کہ ‘وہ نئی فوجی کشیدگی کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے۔’ادھر لبنان میں حزب اللہ کی طرف سے اسرائیل پر مسلسل حملے کیے جا رہے ہیں۔ حزب اللہ لبنان میں ایران کی حمایت یافتہ سیاسی تحریک اور ملیشیا تنظیم ہے۔حزب اللہ نے اسرائیلی حملے میں اپنے کمانڈر فواد شکر کی ہلاکت کا بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ ہنیہ کے قتل سے چند گھنٹے قبل فواد شکر بیروت میں ایک فضائی حملے میں مارے گئے۔ یہ حملہ بیروت کے علاقے دحیہ میں ہوا جسے حزب اللہ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
کیا حزب اللہ والے بھی بڑی کارروائی کر سکتے ہیں؟
گذشتہ سال 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد حزب اللہ نے لبنان کی سرحد کے قریب اسرائیل کے شمال میں حملے شروع کر دیے تھے۔ اس کے بعد سے لبنان میں جنگ کے پھیلنے کا خطرہ اپنی بلند ترین سطح پر ہے۔اب تک اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان تشدد لبنان اور اسرائیل کے درمیان شمالی سرحد تک محدود ہے۔ اسرائیل اور حزب اللہ دونوں ہی یہ اشارہ دیتے رہے ہیں کہ وہ مکمل جنگ کے حق میں نہیں ہیں۔اب تک حزب اللہ نے صرف اسرائیلی فوجی اہداف کو نشانہ بنایا ہے لیکن اب اس کے حملے مزید پیچیدہ ہو گئے ہیں۔ یہ اسرائیل کے اندرونی علاقوں میں بھی اہداف کو نشانہ بنا رہا ہے۔حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ نے ‘سخت اور موثر’ جوابی کارروائی کا عہد کرتے ہوئے کہا کہ فواد شکر حزب اللہ کا ‘سٹریٹجک ذہن’ تھا اور انھوں نے اپنے قتل سے چند گھنٹے قبل ان سے بات کی تھی۔ماضی میں بھی حزب اللہ نے اعلیٰ کمانڈروں کی ہلاکت کے بعد اسرائیل پر راکٹ حملے شروع کیے ہیں۔ لیکن اب بیروت میں اپنے مضبوط گڑھ میں اپنے اعلیٰ کمانڈر کے قتل کے بعد حزب اللہ بھی زیادہ علامتی ردعمل کا اظہار کر سکتا ہے۔تاہم حزب اللہ کا کہنا ہے کہ یہ یقینی ہے کہ اس کا ردعمل تنازعات کے قواعد کے اندر ہو گا۔لبنان میں بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ انھیں ایسی جنگ میں کھینچا جا رہا ہے جو لبنان کے قومی مفاد میں نہیں ہے۔لبنان کے عوام 2005 میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان ہونے والی تباہی کو آج بھی یاد کرتے ہیں۔لیکن، ایک کمزور حزب اللہ بھی ایران کے مفاد میں نہیں ہے۔ اسرائیل کی سرحد پر اپنے سٹرائیک میزائلوں اور ڈرونز کے ساتھ حزب اللہ اسرائیل کے خلاف ایران کی مزاحمت کا ایک اہم حصہ ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
مزاحمت کا محور
اسرائیل ایران کے جوہری پروگرام کو اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ اگر ایران کے جوہری مقامات کبھی بھی اسرائیلی حملے کا نشانہ بنتے ہیں تو جوابی کارروائی میں حزب اللہ کا کردار اہم ہو سکتا ہے۔حزب اللہ نام نہاد گروپ ایکسس آف ریسسٹینس (مزاحمت کا محور) کا ایک اہم حصہ ہے جو خطے میں ایران کا حمایت یافتہ اتحاد ہے جس میں یمن کے حوثی باغی اور عراقی ملیشیا بھی شامل ہیں۔ یمن کے حوثی باغی اور عراقی جنگجو بھی 7 اکتوبر سے خطے میں مغربی مفادات اور اسرائیلی ملکیت پر حملے کر چکے ہیں۔یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ آیا ایران اور اس کے اتحادی گروپ جوابی کارروائی کو مربوط کریں گے، حالانکہ امریکی میڈیا رپورٹس میں اشارہ دیا گیا ہے کہ حزب اللہ اکیلے اور سب سے پہلے حملہ کر سکتی ہے۔رواں ہفتے امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل مائیکل کریلا نے اسرائیل کا دورہ کیا اور سکیورٹی تیاریوں کا جائزہ لیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس بار بھی اسرائیل کو بچانے کی کوششوں کی قیادت امریکی ہی کریں گے۔ساتھ ہی اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے کہا ہے کہ اگر کہیں سے بھی اسرائیل پر حملہ ہوا تو اس کی بھاری قیمت وصول کی جائے گی۔کشیدگی اور انتظار کے خوف کے درمیان اسرائیل اور لبنان جانے اور آنے والی پروازیں منسوخ کی جا رہی ہیں۔ ایئر لائنز ان ممالک کی فضائی حدود سے گریز کر رہی ہیں اور دنیا بھر کے ممالک اپنے شہریوں کو اسرائیل اور لبنان چھوڑنے کا کہہ رہے ہیں۔کچھ لوگ جنگ کی تیاریاں بھی کر رہے ہیں۔ آنے والے وقت میں یہ خطے حادثاتی طور پر یا دانستہ طور پر جنگ میں دھکیلا جا سکتا ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.