ایران، روس تعلقات: کیا ابراہیم رئیسی کا دورہ روس ایرانی خارجہ پالیسی میں ’مشرق‘ کو ترجیح دینے کی جانب ایک قدم ہے؟
روسی صدر ولادیمیر پوتن اپنے ایرانی ہم منصب ابراہیم رئیسی کا آج ماسکو میں استقبال کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ابراہیم رئیسی کے گذشتہ سال اگست میں بطور صدر انتخاب کے بعد ان دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ پہلی بالمشافہ ملاقات ہو گی۔
ابراہیم رئیسی کے آج کے دورہِ روس کو ان کا بیرون ملک پہلا دو طرفہ دورہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ ان کے تاجکستان اور ترکمانستان کے پچھلے دورے بالترتیب شنگھائی تعاون تنظیم اور اقتصادی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاسوں میں شرکت کے پس منظر میں تھے۔
ایران امریکی پابندیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے روس کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے کا خواہاں ہے اور اسے سنہ 2015 کے ایران جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے ویانا میں جاری مذاکرات میں ماسکو کی حمایت کی ضرورت ہے۔
تہران پہلے ہی ماسکو کا کئی معاملات میں اتحادی ہے خاص طور پر شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کی حمایت کے سلسلے میں۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروو نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ’یہ وقت ہے کہ (ماسکو اور تہران کے درمیان) اعلیٰ سطح پر رابطے دوبارہ شروع کیے جائیں‘، آج سے شروع ہونے والے دورے کو ’انتہائی اہم‘ قرار دیا ہے۔
لاوروو نے کہا کہ سب سے پہلے اور اہم بات یہ ہے کہ رہنماوں کو ’ایرانی قیادت میں ہونے والی تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارے پورے ایجنڈے کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔‘
ایران جوہری معاہدہ
اپریل 2021 سے ایران عالمی طاقتوں کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہے تاکہ ایران کے ساتھ سنہ 2015 میں ہونے والے جوہری منصوبے کے بارے ہونے والے معاہدے کو بحال کیا جائے۔ یہ معاہدہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سنہ 2018 میں یکطرفہ طور پر منسوخ کر دیا تھا۔ ایران نے جوباً اپنے جوہری پروگرام کو تیز کر دیا تھا۔
روس کو ویانا مذاکرات میں ایک کلیدی کھلاڑی کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو عام طور پر امریکی پابندیاں ہٹانے کے ایران کے مطالبات کی حمایت کرتا ہے۔ روس کے چیف مذاکرات کار میخائل الیانوف بھی بات چیت کے دوران ایک اہم شخصیت کے طور پر سامنے آئے ہیں، یہاں تک کہ انھوں نے ایران کی جانب سے دسمبر کے آخر میں ایران کے لیے امریکی خصوصی ایلچی رابرٹ میلے سے بھی ملاقات کی۔
اس کی وجہ سے کچھ ایرانی مبصرین نے ایران کی خارجہ پالیسی پر روس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر تنقید کی، کئی مبصرین نے امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرنے کا مطالبہ کیا اور یہ کہا کہ روس اپنے مقاصد اور مفادات کی پیروی کر رہا ہے۔
14 جنوری کو اپنی سالانہ نیوز کانفرنس کے دوران لاوروو نے کہا کہ معاہدے کی بحالی کے لیے کام پر ’حقیقی پیش رفت‘ ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ایران اور امریکہ کے درمیان ٹھوس خدشات کو سمجھنے کی ایک حقیقی خواہش ہے۔‘
طویل مدتی معاہدے کی تلاش ہے
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے برسوں سے اسلامی جمہوریہ کی روایتی ’نہ مشرق، نہ مغرب‘ کی پالیسی کو ترک کرتے ہوئے خارجہ پالیسی میں ’مشرق‘ کو ترجیح دینے کے خیال کی حمایت کی ہے۔
ایران کے رہبر آیت اللہ علی خامنہ ای نے روایتی ’لا شرقی، لا غربی‘ خارجہ پالیسی کو تبدیل کر کے ’مشرق کی جانب بڑھنے‘ کا اشارہ دیا ہے
ایرانی قدامت پسند اس ’مشرق کی طرف نظر‘ کی حکمت عملی کو مغربی ممالک کے خلاف توازن کے طور پر سراہتے ہیں، اور ملک میں اعتدال پسند گروہوں کو مغرب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ صدر ابراہیم رئیسی کی قدامت پسند حکومت نے اس پالیسی کو اور زیادہ اہم بنا دیا۔ ایران کے نائب صدر برائے پارلیمانی امور محمد حسینی نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ اگرچہ جوہری معاہدے کو کو بحال کرنا ’بہتر‘ ہو گا لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو ایران ’مشرق کی طرف قدم بڑھا سکتا ہے۔‘
روس کے ساتھ 20 سالہ تعاون کے معاہدے کو طے کرنے میں ایران میں بھی طویل عرصے سے بات کی جا رہی ہے اور کچھ لوگوں کو توقع ہے کہ صدر رئیسی کے آنے والے دورے کے دوران اس پر دستخط ہو جائیں گے۔ تاہم ایک سینیئر ایرانی رکن پارلیمنٹ نے کہا ہے کہ یہ معاہدہ ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے اور اس پر بات چیت کی جائے گی لیکن اس ہفتے اسے منظور نہیں کیا جائے گا۔
ایران نے مارچ سنہ 2021 میں چین کے ساتھ اسی طرح کی ایک دستاویز پر دستخط کیے تھے، ایک 25 سالہ سٹریٹجک تعاون کی دستاویز، اور وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے 14 جنوری کو بیجنگ کے دورے کے دوران اس کے نفاذ کے آغاز کا اعلان کیا۔
اگرچہ قدامت پسندوں کی طرف سے اس معاہدے کی تعریف کی جا رہی ہے، تاہم ایران میں بہت سے لوگوں نے شفافیت کے فقدان اور مشرقی ایشیائی طاقت یعنی چین پر بڑھتے ہوئے انحصار پر ایرانی حکومت پر تنقید کی ہے۔
کثیرالجہتی تعاون
روس کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا بھی رئیسی کی علاقائی تعاون کو بڑھانے کی اعلان کردہ پالیسی کے زمرے میں آتا ہے۔ ستمبر 2021 میں صدر رئیسی کی حکومت نے شنگھائی تعاون تنظیم کا مکمل رکن بننے کے عمل کے آغاز کا خیر مقدم کیا جس کے روس اور چین دونوں رکن ہیں۔
ایران نے حالیہ برسوں میں روس کی زیر قیادت یوریشین اکنامک یونین کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے کی بھی کوشش کی ہے بلکہ بعض عہدیداروں نے تو اس کا مستقل رکن بننے کی خواہش کا اظہار بھی کیا ہے۔
ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر سنہ 2018 میں منسوخ کر دیا تھا
تہران نے 3+3 کہلانے والے پلیٹ فارم میں فعال طور پر حصہ لیا ہے جس کی تجویز پر آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان 2020 کی کاہارباخ جنگ کے بعد پیش کی گئی تھی۔
اس 3+3 پلیٹ فارم میں روس، ترکی اور ایران ایک جانب سے اور وسطی ایشیا کے جنوبی خطے کے تین ممالک آذربائیجان، آرمینیا اور جارجیا دوسری جانب سے شامل ہیں، اگرچہ جارجیا نے اس پلیٹ فارم میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔
اسی وقت ایران یریوان اور باکو کے درمیان روس کی ثالثی میں ہونے والے امن معاہدے میں مجوزہ ٹرانزٹ راستوں کے بارے میں محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہے، اسے خدشہ ہے کہ یہ ایران کا آرمینیا کے ساتھ سڑک کا رابطہ منقطع کر سکتا ہے اور قفقاز میں تہران کی جغرافیائی سیاسی حیثیت کو متاثر کر سکتا ہے۔
اسلحہ کے معاہدے
روسی اور ایرانی حکام کے درمیان آخری اعلیٰ سطحی رابطہ اکتوبر 2021 میں ماسکو میں ہوا تھا جب ایرانی چیف آف جنرل سٹاف میجر جنرل محمد باقری کی میزبانی اُن کے روسی ہم منصب والیری گیراسیموف اور ماسکو کے وزیر دفاع سرگئی شوئیگو نے کی تھی۔
روسی میڈیا کا کہنا ہے کہ باقری کے دورے نے آج سے شروع ہونے والے مذاکرات کی بنیاد رکھی، کیونکہ اُس وقت یہ قیاس کیا گیا تھا کہ تہران کو روسی ہتھیاروں کی فروخت دونوں رہنماؤں کے ایجنڈے کا اہم جُزو ہو گی۔
روس کی ایک صحافتی ویب سائٹ ’نیوز ڈاٹ آر یو‘ کے مطابق تہران روس سے ‘سُپر فلینکر’ Su-35SE لڑاکا طیارے اور S-400 میزائل دفاعی نظام خریدنے کا خواہاں ہے۔
اس سائٹ نے یہ بھی کہا کہ روس ایران کے ساتھ کم از کم مِگ-23 اور مگ-29 لڑاکا طیاروں اور 25 ایس یو-24 ایم کے حملہ آور طیاروں کے استعمال، مرمت اور ماڈرنائیزیشن کے لیے ایران کے ساتھ موجودہ معاہدے میں توسیع پر رضامند ہو سکتا ہے۔
روس کے ایک فوجی مبصر، سرگئی اشچینکو نے بائیں بازو کی ایک قوم پرست ویب سائٹ سوبوڈنایا پریسا پر چار جنوری کو لکھا ہے کہ ‘امکان ہے کہ جرنیل پہلے ہی کسی بہت اہم چیز پر متفق ہو چکے ہیں۔ ورنہ رئیسی اب خود اتنا طویل سفر کیوں کرتے؟ اربوں کے نئے معاہدوں پر دستخط کرنے کے علاوہ اور کوئی وجہ نہیں ہو سکتی ہے۔‘
Comments are closed.