کیا انڈین حکومت قطر میں اپنی بحریہ کے سابق افسروں کو سزائے موت سے بچا پائے گی؟
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
- مصنف, شکیل اختر
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، دلی
انڈیا کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے قطر میں موت کی سزا پانے والے بحریہ کے آٹھ سابق اہلکاروں کے رشتہ داروں کو یقین دہانی کرائی ہے کہ حکومت ان اہلکاروں کی رہائی کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی۔
جے شنکر نے ایکس (سابق ٹویٹر) پر اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ ’میں نے قطر میں قید انڈین شہریوں کے رشتہ داروں سے ملاقات کی۔ میں نے انھیں یقین دلایا کہ حکومت اس معاملے کو انتہائی اہم سمبھتی ہے۔ حکومت متاثرہ خاندانوں کے درد اور تشویش کو پوری طرح سمجھتی بھی ہی اور اسے محسوس بھی کرتی ہے۔‘
’میں نے انھیں یقین دہانی کرائی کہ حکومت ان اہلکاروں کی رہائی کے لیے اپنی تمام کوششیں بروئے کارلائے گی۔ ہم ان خاندانوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔‘
یاد رہے کہ گزشتہ جمعرات کو قطر کی ایک عدالت نے انڈین بحریہ کے آٹھ سابق افسروں کو موت کی سزا سنائی ہے۔
قطر کی عدالت کے فیصلے کے بعد سزا یافتہ اہلکاروں کے رشتے داروں نے بحریہ کے سربراہ سے بھی ملاقات کی تھی۔
بی بی سی نے ان میں سے دو اہلکاروں کے رشتہ داروں سے فون پر رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی جواب نہیں ملا تاہم سزا پانے والے ایک اہلکار کی بہن ڈاکٹر میتو بھارگو کا بیان انڈین میڈیا میں شائع ہوا جس میں انھوں نے وزیر اعظم نریندر مودی سے اپیل کی کہ وہ بحریہ کے سابق اہلکاروں کو موت کی سزا سے بچانے کے لیے فوری طور پر بذات خود مداخلت کریں۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر میتو بھارگو نے ہی گزشتہ برس قطر میں بحریہ کے سابق اہلکاروں کی گرفتاری کے بعد ایکس (سابق ٹویٹر) پر اپنے پیغام میں انڈین حکومت سے اہلکاروں کی رہائی میں مدد کی اپیل کی تھی۔ ان کی ٹویٹ کے بعد ہی بحریہ کے سابق اہلکاروں کی گرفتاری کا یہ معاملہ منظرِ عام پر آیا تھا۔
بی بی سی نے جب آج ان سے فون پر رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی تو ان کی جانب سے جواب نہیں دیا گیا۔
یہ معاملہ ہے کیا؟
موت کی سزا سے یہ واضح ہے کہ معاملے کی نوعیت انتہائی سنگین ہے۔ فیصلے کے بعد انڈیا اور قطر دونوں نے سزا پانے والے بحریہ کے سابق اہلکاروں کے جرم کے بارے میں کوئی بات نہیں کی لیکن خبر رساں ادارے روئٹرز اور لندن کے اخبار فائنانشل ٹائمز نے قطراور انڈیا کے سرکاری ذرائع کے حوالے سے خبر دی کہ انھیں اسرائیل کے لیے جاسوسی کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی ہے۔
قطر کے ٹی وی چینل الجزیرہ کی ویب سائٹ پر مئی میں شائع ایک خبر میں بھی بتایا گیا تھا کہ ان اہلکاروں کو مبینہ طور پر اسرائیل کے لیے جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔
یہ اہلکار قطر میں کیا کر رہے تھے؟
انڈین بحریہ کے یہ سابق اہلکار قطری بحریہ سے منسلک ایک پرائیوٹ دفاعی کمپنی الظاہرہ العالمی میں کام کر رہے تھے۔ یہ اہلکار اٹلی میں تیار کی جانے والی ایک جدید آبدوز کو قطری بحریہ میں شامل کیے جانے کے پراجکٹ سے وابستہ تھے۔
اس آبدوز میں ایسے میٹل اور آلات لگائے گئے ہیں جس سے سمندر میں اس کی موجودگی کا پتا لگانا مشکل ہے۔
انڈین بحریہ کے یہ سابق اہلکار اپنی پیشہ ورانہ صلاحیت اور تجربے کے اعتبار سے اعلی درجے کے پروفیشنل ہیں۔ الظاہرہ کمپنی میں یہ سبھی اعلی عہدوں پر فائز تھے۔
اس کمپنی میں انڈین بحریہ اور دوسرے شعبوں کے تقریباً 75 دیگر انڈین شہری بھی کام کر رہے تھے لیکن جاسوسی کا معاملہ روشنی میں آنے کے بعد رواں برس مئی میں ان سب کو کمپنی سے فارغ کر دیا گیا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
سزائے موت سے بچانے کے لیے انڈیا کے پاس کیا آپشن ہیں؟
قطر کی عدالت کی جانب سے موت کی سزا سنائے جانے کے بعد انڈین وزارت خارجہ نے اپنے ردعمل میں کہا تھا کہ حکومت سزا پانے والے بحریہ کے اہلکاروں کی رہائی کے لیے قانونی اور سفارتی دونوں راستے اختیار کرے گی۔
قانونی راستہ اختیار کرتے ہوئے سب سے پہلے اںڈیا اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل کر سکتا ہے۔ قطر سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق انڈین حکومت اپیل کے لیے قطر کے مشہور وکیلوں کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
دوسرا راستہ سفارتی ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ سزائے موت کے فیصلے سے قبل انڈین حکومت نے سفارتی سطح پر اس معاملے کو حل کرنے کی کوشش کی تھی جس میں اُسے بظاہر کامیابی نہیں ہو سکی۔
تیسرا راستہ یہ ہے وزیر اعظم خود اس سلسلے میں قطر کے امیر سے بات کریں اور اگر اس سے بھی بات نہیں بنتی تو پھر آخر میں بین الاقوامی عدالت کا سہارا لیا جائے۔
اس سلسلے میں انڈین میڈیا میں کالم نگار اور سابق سفارت کار اپنے مضامین اور تبصروں میں پاکستان میں قید کلبھوشن جادھو کے کیس کا حوالہ دیتے ہیں جنھیں جاسوسی اور تخریب کاری کے جرم میں موت کی سزا سنائی گئی تھی لیکن بین الاقوامی عدالت کے فیصلے کے بعد کلبھوشن کی موت کی سزا روک دی گئی۔
کئی تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں اگر ساری کوششیں ناکام ہو جاتی ہیں تو بحریہ کے سابق اہلکاروں کو موت سے بچانے کا آخری راستہ رحم کی اپیل ہے۔
قطر کے امیر رمضان کے دنوں میں اور قطر کے قومی دن سے قبل قیدیوں کی رہائی اور سزائیں کم کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ سارے راستے بند ہونے کی صورت میں سزائے موت سے بچانے کا یہ آخری راستہ ہے۔
قطر سے انڈیا کے تعلقات بہت اچھے ہیں۔ قطر انڈیا کو قدرتی گیس فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ وہاں کم از کم آٹھ لاکھ انڈین شہری کام کرتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان 15 ارب ڈالر سے زیادہ کی تجارت ہوتی ہے۔
یہاں سفارتی حلقوں میں ہلکی سی امید اس پہلو کے بارے میں بھی ہے کہ قطر میں سعودی عرب، ایران، بحرین اور دوسرے پڑوسی ملکوں کی بہ نسبت موت کی سزا شاذ و نادر ہی دی جاتی ہے۔
قطر میں انڈیا کے سابق سفیر کے پی فیبین نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ اعلی عدالتیں اکثر ذیلی عدالتوں کی سخت سزاؤں کو کم کر دیتی ہیں۔
ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے مطابق 2021 میں ایک نیپالی شہری کو ایک قطری شہری کو جان سے مارنے کے جرم میں پھانسی دیے جانے کے سوا گزشتہ 20 برس میں قطر میں کسی کو بھی پھانسی نہیں دی گئی۔
یہی نہیں سنہ 2015 میں جاسوسی کے ہی ایک معاملے میں فلپائن کے ایک شہری کو ذیلی عدالت نے موت کی سزا سنائی تھی لیکن بعد میں اعلی عدالت نے ان کی موت کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کر دیا تھا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
بین الاقوامی عدالت کے فیصلے کے بعد پاکستان میں قید کلبھوشن جادھو کی موت کی سزا روک دی گئی
انڈیا کے لیے سب سے بڑا سفارتی چیلنج
انڈین حکومت کو اپنی بحریہ کے سابق اہلکاروں کو موت سے بچانے کے لیے تیزی سے قدم اٹھانا ہوں گے۔ حکومت پر سزا یافتہ اہلکاروں کے رشتہ داروں کی جانب سے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔
انڈین عوام کے سامنے یہ حکومت کے سفارتی اثر و رسوخ اور صلاحیت کا بھی امتحان ہے۔
اس معاملے میں پیچیدگی اس لیے بھی زیادہ ہے کہ ایک نہیں بلکہ آٹھ سابق اعلی اہکاروں کو اسرائیل کے لیے جاسوسی کے الزام مں سزا سنائی گئی اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد فلسطینی علاقوں غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیل نے حملہ کر رکھا ہے۔
عرب ممالک میں اسرائیل کے خلاف شدید غصے کے جذبات پائے جاتے ہیں اور قطر کی صورتحال بھی مختلف نہیں۔
اس صورتحال نے انڈیا کے لیے حالات بہت پیچیدہ کر دیے ہیں۔ انڈین بحریہ کے سابق اہلکاروں کو موت سے بچانا اور انھیں بحفاظت انڈیا واپس لانا بلاشبہ انڈیا کا مشکل ترین سفارتی چیلنج ہے۔
Comments are closed.