انھوں نے کہا کہ ’انڈیا نے ہمیشہ فوجی اور دیگر سامان کی برآمدات پر بین الاقوامی قوانین کی سختی سے پیروی کی ہے۔ انڈیا اسلحے کے زیادہ استعمال کو روکنے کے لیے نافذ کیے گئے اسلحے کی برآمدات کے بین الاقوامی قوانین اور ضوابط کے مطابق کام کرتا ہے۔‘،تصویر کا ذریعہReuters
روئٹرز کی رپورٹ میں کیا دعوی کیا گیا؟
خبر رساں ادارے روئٹرز نے انڈیا اور یورپ کے حکام اور محکمہ دفاع کے 11 اہلکاروں کے ساتھ بات چیت کی بنیاد پر رپورٹ پیش کی ہے۔ اس کے مطابق روس کے خلاف یوکرین کی مدد کے لیے اسلحے کی منتقلی ایک سال سے زیادہ عرصے سے جاری ہے۔جہاں تک انڈین اسلحے کی برآمدات کا تعلق ہے تو اس کے لیے اصول یہ وضع کیا گيا ہے کہ اسلحہ صرف وہی ملک استعمال کرے گا جسے وہ فروخت کیا گیا ہے۔ اگر کوئی ان قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے یا غیر قانونی طور پر اسلحہ فروخت کرتا ہے تو اس کے ساتھ برآمدات روک دی جائیں گی۔تین انڈین عہدیداروں نے روئٹرز کو بتایا کہ روس نے اس معاملے کو دو بار اٹھایا ہے۔روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق، جولائی میں انڈین وزیر خارجہ جے شنکر اور روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کی ملاقات کے دوران اس معاملے پر بات چیت ہوئی تھی۔انڈین وزارت خارجہ نے اس خبر میں پیش کیے گئے تبصروں کو مسترد کر دیا ہے جبکہ انڈیا اور روس کی وزارت خارجہ نے روئٹرز کے سوالات کا جواب نہیں دیا ہے۔مسٹر جیسوال نے جنوری سنہ 2024 میں کہا تھا کہ ’انڈیا نے یوکرین کو توپ خانے کے گولے فراہم یا فروخت نہیں کیے ہیں۔‘سینیئر صحافی سہاسینی حیدر نے روئٹرز کی رپورٹ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر یہ سچ ہے کہ انڈین اسلحہ یوکرین کو یورپ کے راستے فراہم کیا گیا ہے تو انڈیا کو ہتھیاروں کی برآمد کے قوانین کی خلاف ورزی پر احتجاج کرنا چاہیے اور یورپ کے ساتھ معاہدہ منسوخ کر دینا چاہیے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
انڈیا اور اسلحہ کی سپلائی
انڈیا کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے اگست میں کہا تھا کہ ’گذشتہ مالی سال میں انڈین اسلحے کی برآمدات 2.5 بلین امریکی ڈالر سے تجاوز کر گئی ہیں۔ اسے 2029 تک بڑھا کر 6 بلین امریکی ڈالر تک لے جانے کا منصوبہ ہے۔‘انڈیا کی اسلحہ کی بہت سی ضروریات روس پوری کر رہا ہے۔روئٹرز کے مطابق انڈیا 60 فیصد اسلحہ کی درآمد روس سے کرتا ہے۔ سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سپری) کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2017 اور 2022 کے درمیان روس کی جانب سے انڈیا کو ہتھیاروں کی درآمد 62 فیصد سے کم ہو کر 45 فیصد رہ گئی ہے۔سپری نے رواں سال جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ انڈیا اسلحہ درآمد کرنے والے ممالک کی فہرست میں سرفہرست ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ انڈیا کی درآمدات میں 4.7 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
انڈین فضائیہ روس کے سکھوئی سو-30 ایم کے آئی کے ساتھ مگ 29 اور مگ 21 لڑاکا طیاروں کا استعمال کر رہی ہے۔ وہ مگ 21 لڑاکا طیاروں پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔اس کے علاوہ انڈیا میں اے این-32 ٹرانسپورٹ طیارے کے ساتھ ایم آئی-35، ایم آئی 17، وی-5 ہیلی کاپٹر، ایس-400 جیسے فضائی دفاعی نظام سب روس سے درآمد کیے گئے تھے۔انڈین فوج روسی توپ خانے ٹی-72 اور ٹی-90 کا استعمال کرتی ہے جبکہ انڈین بحریہ کا جہاز وکرمادتیہ اس سے قبل ایڈمرل گورشکو کے طور پر خدمات انجام دے چکا ہے۔تاہم ماضی میں مرکزی حکومت کہتی رہی ہے کہ وہ ہتھیاروں کے لیے بیرونی ممالک پر انحصار کم کرنا چاہتی ہے۔
انڈیا اور اسرائیل-حماس جنگ
فلسطینی علاقے غزہ کے خلاف گذشتہ سال شروع ہونے والی جنگ کے بعد اسرائیل کو بہت زیادہ ہتھیاروں کی ضرورت تھی۔انڈین اخبار ’دی ہندو‘ نے اپنی رپورٹ میں وزارت دفاع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’انڈیا نے اسرائیل کو ہتھیار فراہم نہ کرنے کا پالیسی فیصلہ کیا تھا، انڈیا کسی کو ہتھیار فراہم نہ کر کے غیر جانبدار رہا۔‘ایک دفاعی سورس نے دی ہندو کو بتایا: ’اسرائیل کو 155 اور 105 ملی میٹر کیلیبر کے گولوں کی ضرورت تھی۔ لیکن ہم نے انھیں فراہم نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ انڈیا سے اسرائیل کو بھیجے گئے ہتھیاروں کی مقدار بہت کم تھی۔‘جنگ کی وجہ سے روس کی طرف سے انڈیا کو ہتھیاروں کی فراہمی میں بھی کمی آئی ہے۔یوکرین اسرائیل جنگ میں امریکہ سمیت مغربی ممالک یوکرین کو فوجی امداد فراہم کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ مشرق وسطی میں جاری اسرائیل-حماس جنگ میں بھی اسرائیل کا ساتھ دے رہا ہے۔،تصویر کا ذریعہANI
انڈیا، روس اور یورپ
روس نے جب سنہ 2022 میں یوکرین کے خلاف جنگ شروع کی تو مغربی ممالک نے روس پر مختلف پابندیاں عائد کر دیں۔انڈیا اقتصادی پابندیوں کے باوجود روس سے خام مال خرید رہا ہے۔ ان پابندیوں کا فائدہ انڈیا کو بھی ہوا ہے۔اس کے بعد یورپی ممالک نے انڈیا کے راستے روسی خام تیل خریدنا شروع کردیا۔ انڈیا اب سب سے بڑا ڈسٹری بیوٹر بن گیا ہے۔روس کے خلاف پابندیوں کی وجہ سے یورپی آئل ریفائنریز نے روس سے براہ راست خام تیل خریدنا بند کر دیا جس کی وجہ سے اسے مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن انڈیا نے اسے ایک موقع کے طور پر دیکھا۔اور انڈیا سے یورپ کو ریفائنڈ پٹرولیم کی برآمدات اپریل 2022 سے جنوری 2023 تک بڑھ کر 11.6 ملین ٹن ہو گئیں۔اس کی وجہ سے یورپی یونین انڈیا سے پیٹرولیم مصنوعات خریدنے والے ٹاپ 20 ممالک میں نمبر ایک بن گیا۔روس-یوکرین جنگ سے پہلے انڈیا کی روس سے خام مال کی درآمدات صرف ایک فیصد تھی۔ لیکن فروری سنہ 2023 میں یہ بڑھ کر 35 فیصد ہو گئی۔روسی پیٹرولیم مصنوعات کے یورپ پہنچنے کے بعد، یورپی کمیشن نے کہا: ’روسی تیل سے بنی مصنوعات کی ایک بڑی مقدار یورپی منڈیوں میں پہنچ چکی ہے۔ یورپی یونین کو اس سے نمٹنے کے طریقے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
ہتھیاروں میں خود انحصاری
انڈین وزارت دفاع کے مطابق انڈیا 84 ممالک کو اسلحہ برآمد کرتا ہے۔ یوکرین ان میں سے ایک ہے۔انڈیا ہیلمٹ اور بلٹ پروف جیکٹس سمیت مختلف فوجی سازوسامان برآمد کرتا ہے۔ یوکرین کو کی جانے والی برآمدات میں بندوق کے پرزے بھی شامل ہیں۔وزارت دفاع کی طرف سے سنہ 2024 میں جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق انڈین فوج کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھارت الیکٹرانکس کے ساتھ 10 سال کے لیے معاہدہ کیا گیا ہے۔اس ضمن میں تقریباً 5,300 کروڑ روپے کے معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ یہ کمپنی انڈین فوج کو درکار الیکٹرانک بم کے اجزاء کی تیاری میں مشغول ہے۔مئی میں شائع ہونے والی اکنامک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ چند سالوں کے دوران انڈیا میں دفاعی شعبے کو درکار پرزوں کی درآمدات پر پابندی لگانے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔اس کے لیے لائسنس بھی جاری کیے جاتے ہیں۔ جولائی سنہ 2024 تک دفاعی شعبے نے پچھلے تین سالوں میں صرف انڈیا میں ہی 12,300 اشیاء تیار کی ہیں۔ دفاعی تحفظ کے محکمے نے اعلان کیا ہے کہ اس نے 346 دیسی ساختہ ہتھیاروں سے متعلق اشیاء کی خریداری کے لیے اقدامات کیے ہیں۔اس کے علاوہ، محکمہ دفاع نے گھریلو صنعت کاروں کو 7500 کروڑ روپے کے ٹھیکے دیے ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.